'کوئی مشیر وزیر کے اختیارات استعمال نہیں کر رہا'

شائع January 12, 2017 اپ ڈیٹ February 2, 2017

کراچی: سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک اقرار نامہ جمع کرایا ہے جس کے مطابق عدالت کے فیصلے کی روشنی میں ان کا کوئی بھی مشیر وزارت کے اختیارات کا استعمال نہیں کرے گا۔

چیف سیکریٹری رضوان میمن کی جانب سے ججز کو یقین دہانی کرائے جانے کے بعد چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے مزدور اور انسانی وسائل، سعید غنی کے خلاف دائر پٹیشن خارج کر دی۔

چیف سیکریٹری نے عدالت کو یقین دہائی کرائی تھی کہ عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس حوالے سے لیٹر جاری کردیا جائے گا۔

عدالت کی جانب سے شو کاز نوٹس جاری کیے جانے کے بعد چیف سیکریٹری نے ججز کے سامنے پیش ہو کر کہا کہ کوئی بھی مشیر ایگزیکٹو اختیارات کا استعمال نہیں کررہا اور اس حوالے سے تمام اداروں کے سیکریٹریز کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

عبدالستار نیازی کی جانب سے ان کے وکیل ایڈووکیٹ محمد علی لاکھانی نے سندھ ہائی کورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر کے ایگزیکٹو اختیارات کے استعمال اور سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوٹ (سیسی) کے اجلاسوں میں شرکت کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی۔

اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو وزیراعلیٰ کا مشیر برائے قانون بنانے کے بعد انھیں متعلقہ وزارت کا قلمدان دینے کے خلاف ایک پٹیشن پر ایک تفصیلی فیصلہ سنایا گیا تھا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ نہ تو کوئی مشیر وزیر کے اختیارات کا استعمال کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی وزارت کا قلمدان ہی پاس رکھ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے سینیٹر غنی کو 15 دسمبر کیلئے سیسی کے طے شدہ 145 ویں اجلاس میں شرکت سے بھی روکا دیا تھا۔

عدالت نے مذکورہ فیصلہ قاضی عبدالوہاب سمیت سیسی کے دیگر 7 ملازمین کی جانب سے دائر پٹیشن پر کیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل نعمان جمیلی نے عدالت کو بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے مزدور اور انسانی وسائل، سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی ایکٹ 2016 کی دفعہ 5 کے تحت سیسی کے اجلاس کی صدارت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔

ریگولیٹریز کے کیس میں نوٹسز جاری

سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کو پانچ ریگولیٹریز کو متعلقہ وزارتوں کو منتقل کرنے کے خلاف دائر پٹیشن پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے، جس میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھاری (اوگرا) بھی شامل ہیں۔

جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قانونی افسران کو بھی نوٹسز جاری کیے جس میں انھیں 24 جنوری تک انتظامیہ کی جانب سے جواب جمع کرانے کو یقینی بنانے کا کہا گیا۔

مذکورہ پٹیشن پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریسی پارٹی کے ورکر نعمت اللہ کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس کے ساتھ وفاقی حکومت کا 19 دسمبر 2016 کا جاری نوٹیفکیشن بھی شامل ہے، جس میں نیپرا کو واٹر اینڈ پاور ڈویژن، اوگرا کو پیٹرولیم اینڈ قدرتی ذخائرڈویژن، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اینڈ فریکیونسی لوکیشن بورڈ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام ڈویژن اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری کو فنانس ڈویژن کے ماتحت کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ عبدالوہاب بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے پانچ خود مختار اور آزاد ریگولیٹریز کو ان کی متعلقہ وزارتوں کے انتظامی کنٹرول میں دے دیا ہے، جبکہ قانون کے تحت ان کا کام متعلقہ وزارتوں کے امور کی نگرانی اور ریگولیٹ کرنا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ریگولیٹری اداروں کو مقصد ان کے متعلقہ شعبوں میں منصفانہ مسابقت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا، شہریوں کے مفادات کا تحفظ اور صارفین کے حقوق کا خیال رکھنا تھا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ اوگرا پر کنٹرول حاصل کرکے حکومت سی این جی اسٹیشن اور ریٹیلرز کو ریگولیٹرز کے بجائے اپنی مرضی سے گیس کی قمتیں مقرر کرنے کی اجازت دینا چاہتی ہیں، جبکہ دیگر شعبوں کو بھی اسی مقصد کے تحت وزارتوں کے ماتحت کیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ 12 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025