گزشتہ برس سے حیدرآباد میں میلوں کے سلسلہ چل نکلا ہے۔ گزشتہ برس ہی ایاز میلو اور حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول نے حیدرآباد کے ادبی ماحول میں رنگ بھرے تھے. ایسے میلوں میں سے ایک لاہوتی میلو بھی تھا جو گزشتہ سال کی طرح رواں سال بھی جنوری کی 21 اور 22 تاریخ کو حیدرآباد میں منعقد ہوا۔

لاہوتی لفظ لاہوت سے اخذ ہے، جو بلوچستان میں ایک ایسا مقام ہے جہاں ہر سال ہزاروں افراد زیارت کی غرض سے پہاڑوں کو عبور کر کے جاتے ہیں اور اس سفر میں جو بھی اپنے پیروں کو تکلیف دیتا ہے، اسے ’لاہوتی‘ کہا جاتا ہے۔ اس مقام اور لاہوتیوں کا ذکر سندھی زبان کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں بھی کیا ہوا ہے۔

صوفی گلوکار و موسیقار سیف سمیجو کے پروگرام لاہوتی لائیو سیشنز اور محکمہ ثقافت سندھ کے زیرِ اہتمام حیدرآباد کلب میں دو روز تک جاری رہنے والا یہ میلہ کئی رنگوں کے جھرمٹ میں سجایا گیا جہاں موسیقی سے لے کر ادب، سماجی مسائل اور تصوف کے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

لاہوتی میلو 2017 — تصویر اختر حفیظ
لاہوتی میلو 2017 — تصویر اختر حفیظ

لاہوتی میلے میں نوجوانوں اور غیر ملکی فنکاروں نے شرکت کی — تصویر اختر حفیظ
لاہوتی میلے میں نوجوانوں اور غیر ملکی فنکاروں نے شرکت کی — تصویر اختر حفیظ

حیدرآباد شہر اب تک مکمل طور پر شہری آبادی پر مشتمل نہیں ہے، اس لیے لاہوتی جیسے میلے اس شہر میں ایک نیا اور منفرد تجربہ ہیں۔لاہوتی میلے میں خواتین اور نوجوانوں کی کثیر تعداد نظر آئی، جنہیں میلے میں مختلف موضوعات پر ترتیب دی جانی والی نشستوں سے زیادہ دلچسپی موسیقی میں تھی۔ رات گئے تک مختلف میوزیکل بینڈ موسیقی سے میلے میں رنگ بھرتے رہے۔ اس ميلے کی ایک غیر معمولی بات یہ بھی تھی کہ یہاں ہمیں وسعت اللہ خان، فوزیہ سعید، سسئی پلیجو، جامی چانڈیو اور دیگر نامی گرامی شخصیات کے خیالات سننے کا موقع ملا۔

ایسا کہنا غلط نہ ہوگا کہ لاہوتی میلو دراصل جدید اور قدیم کا سنگم تھا، جہاں ملک کے گٹار اور کی بورڈ بجانے والے نوجوان اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے، وہاں سندھ کی لوک موسقی اور مقامی سازوں کے سازندوں اور فنکاروں کو بھی یکسر موقع فراہم کیا گیا، یوں ہر ایک کو اپنی اپنی پسندیدہ موسیقی سننے کی خواہش پوری ہوئی۔

سندھی موسیقی کے سوائے اگر صرف پاپ موسیقی ہی پیش کی جاتی تو وہ صرف ایک مخصوص طبقے کے لیے ہوتی، سو یہ ایک اچھا فیصلہ رہا کہ میلے میں جدید اور قدیم کا امتزاج قائم رکھا۔

لاہوتی میلو نوجوانوں کےلیے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں وہ خود کو آزاد فضا میں محسوس کرتے ہیں اور مست ہواؤں میں جھومتے ہیں، گاتے ہیں اور کچھ پلوں کے لیے تمام دنیا سے بے خبر ہو کر سر و ساز کی دنیا سے جڑ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رات گئے تک طلبا اور طالبات کی ایک بڑی تعداد نے اس میلے کو حقیقی معنوں میں ایک میلہ بنائے رکھا۔

عورت کے موضوع پر نشست میں جہاں اختلاف رائے سننے کو ملا، وہاں عورتوں کے حقوق پر فکر انگیز خیالات و تجاویز پر روشنی ڈالی گئی۔ نشست میں ماروی مظہر، سسئی پلیجو، عرفانہ ملاح اور سحر گل شامل تھیں۔ انہوں نے سماج میں عورتوں کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کا ذکر کیا۔ یہ سیشن بہت سے لوگوں کی دلچسپی اور فکر کا سامان بھی ثابت ہوا۔

لاہوتی میلے میں خواتین کے موضوع پر نشست— تصویر اختر حفیظ
لاہوتی میلے میں خواتین کے موضوع پر نشست— تصویر اختر حفیظ

لاہوتی میلے میں نئے ٹیلنٹ نے بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ پیش کیا— تصویر اختر حفیظ
لاہوتی میلے میں نئے ٹیلنٹ نے بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ پیش کیا— تصویر اختر حفیظ

لاہوتی میلو کا زیادہ زور موسیقی پر ہی تھا۔ اس بار ہنگری، نیپال، امریکا اور دیگر ممالک کے فنکاروں نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور ایک دوسرے کے خیالات سے بھی آگاہ ہوئے، جس وجہ سے یہاں عالمی سطح کا ایک رنگ بہ رنگی ماحول نظر آیا۔

لاہوتی میلو میں یہی بات نظر آئی جہاں بنا کسی لسانی تفریق کے نوجوان اور ہر عمر کے افراد شریک تھے اور ایک دوسرے کے قریب تھے۔ لسانی تفریق کو ختم کرنے کے ایسے بہت ہی کم مواقع مہیا ہوتے ہیں۔ ایسے میں لاہوتی میلو کا سالانہ سلسلہ ایک بہتر اقدام ثابت ہونے جا رہا ہے۔ اس طرح ہی مختلف زبانیں بولنے والوں میں ہم آہنگی کی فضا کو جنم دیا جاسکتا ہے، جس سے آنے والے وقتوں میں نفرت کو شکست دی جاسکتی ہے۔

لاہوتی میلے میں موسیقی کے تمام رنگ بکھرے تھے — تصویر اختر حفیظ
لاہوتی میلے میں موسیقی کے تمام رنگ بکھرے تھے — تصویر اختر حفیظ

لاہوتی میلے میں ایک اسٹال پر سندھ کی روایتی موسیقی کے ساز رکھے ہوئے ہیں — تصویر اختر حفیظ
لاہوتی میلے میں ایک اسٹال پر سندھ کی روایتی موسیقی کے ساز رکھے ہوئے ہیں — تصویر اختر حفیظ

لاہوتی میلے میں موسیقی کے جدید سازوں کے اسٹال بھی تھے — تصویر اختر حفیظ
لاہوتی میلے میں موسیقی کے جدید سازوں کے اسٹال بھی تھے — تصویر اختر حفیظ

میلے میں جہاں ہر پروگرام میں شرکت کرنے والے پرانے چہرے تھے وہاں اس بار نئے ٹیلنٹ کو بھی اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ جس میں تھر نمایاں نظر آیا۔ مگر جہاں اس میلے میں حیدرآباد میں رنگ بکھیرے اور روشنی پھیلائی، وہاں پر چند ایسے بھی پہلو ہیں جن پر تنقید کی جا سکتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل میلے کے اعلان کے ساتھ ٹکٹ کی تفصیلات بھی بتائی گئیں کہ داخلہ ٹکٹ کی قیمت 700 روپے مختص کی گئی ہے۔ پہلے سال کے مقابلے میں دوسرے سال اسپانسرشپس کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود ٹکٹ کی قیمت اتنی زیادہ رکھنے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ اس کے علاوہ اگر اس میں زیادہ سے زیادہ شرکت طلبا کو کرنی تھی تو ٹکٹ اتنا مہنگا کیوں رکھا گیا۔

یہی وجہ تھی کہ پہلے روز میلے میں وہ گہما گہمی نظر نہیں آئی جو دوسرے دن تھی، کیوں کہ دوسرے دن انٹری فری کر دی گئی تھی۔ اگر یہ فیصلہ پہلے دن ہی کیا جاتا تو کافی تعداد میں لوگوں کو شرکت کا موقع مل جاتا۔

لاہوتی میلو میں اس بات پر زیادہ زور دیا جاتا رہا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی سے مقابلہ کرنے کے لیے یہ لوگ ساز و آواز لے کر میدان میں اترے ہیں، ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہیں بلکہ ساز ہیں جن کے ذریعے وہ انتہاپسندی کو شکست دینے آئے ہیں۔

مگر یہ بات آدھا سچ ہے کیوں کہ ہم لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انتہاپسندی کا حل تصوف میں ہے۔ ہمیں یہ بھی ضرور سمجھنا چاہیے کہ تصوف کوئی نظام یا نظریہ نہیں ہے۔ آپ یکتارہ اور چپڑی لے کر گا تو سکتے ہیں مگر اس سے انتہاپسند سوچ کو شکست دینا اس لیے بھی ممکن نہیں کہ پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ انتہاپسندی کے خاتمے کے حوالے سے ریاستی بیانیہ کیا ہے؟ اس کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کیا ہے؟

سندھ میں تصوف کو ماننے والے کئی حلقے و طبقات ہیں جن کا کام محفل و سماع ہے۔ گو کہ اس کا پیغام امن کا ہے مگر انتہاپسندی کا حل تصوف یا موسیقی میں ڈھونڈنا کوئی منطق نہیں۔ جب تک ہم اپنے سماج میں سائنس، ترقی پسند نظریات اور مذہبی رواداری کو جگہ نہیں دیتے اس وقت تک مذہبی انتہاپسندی گٹار بجانے یا گھنگھروؤں کی جھنکار سے کم نہیں ہو سکتی۔ اس حوالے سے ہمیں اس مغالطے سے نکلنا پڑے گا کہ تصوف ہی وہی راستہ ہے جو ہمیں انتہاپسندی سے بچا سکتا ہے۔

لاہوتی میلو جیسے پروگرام کس حد تک اس سوچ کو تبدیل کرنے میں پہلا قدم تو ثابت ہو سکتے ہیں مگر انہیں 'انتہاپسندی کا توڑ' قرار دینا ایک بہت زیادہ خوشنما نعرہ ہے، زمینی حقائق جس کی نفی کرتے ہیں۔

مگر اس سب کے باوجود حیدرآباد میں ہونے والا لاہوتی میلو اپنے ساتھ امن کا پیغام لے کر آیا اور اس میں ہم نے وہ رنگ بھی دیکھے جنہیں دیکھ کر دنیا اور بھی حسین لگتی ہے۔

اس گھٹن والے ماحول میں ایسے پروگرام ہونے چاہیئں جو ہمیں اس بات کا احساس دلاتے رہتے ہیں کہ زندگی صرف سیاہ و سفید کا نام نہیں بلکہ اس کے اور بھی کئی رنگ ہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

jawed Jan 26, 2017 06:33pm
boht achha likha he....
jawed Jan 26, 2017 06:34pm
boht achha likha he...
زیدی Jan 26, 2017 08:05pm
تصوف کی تعلیم انسانیت کے گرد گھومتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان اندر سے دہشت گردی طرف توجہ کرنے روکتا ہے
غلام شبیر لغاری Jan 27, 2017 07:56pm
اختر حفیظ اچھے لکھاری ہیں۔ لاہوتی میلو پر اس نے اچھی تصاویر کے ساتھ عمدہ خیالات پیش کیے ہیں۔ لاہوتی میلو انتھاپسندی کا توڑ ہو نا ہو پر اختر حفیظ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اس گھٹن والے ماحول میں ایسے پروگرام ہونے چاہیئں ۔ اختر حفیظ کی یہ کاوش بھی بھت اچھی لگی۔