سکالر گلو بٹ

اپ ڈیٹ 01 فروری 2017

"بھائی وہ تو ہمارے میڈیا کے گلو بٹ ہیں۔" شامی بھائی نے مذہبی اسکالر اور معروف نعت خواں کی شہرت رکھنے والے ملک کے ایک مشہور و معروف ٹی وی اینکر و میزبان کے بارے میں جیسے ہی یہ کہا تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔

شامی بھائی میرے دوست ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اردو زبان کے آئن سٹائن ہیں۔

مثلاً ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے یہ جملہ "اس شعر میں شاعر نے دنیا کی بے ثباتی اور اپنے محبوب کی بے غیرتی کا ذکر کیا ہے"، انہوں نے اردو کے پرچے میں استعمال کیا تھا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ مشہور زمانہ "یہ چیز، میرے عزیز" اور "یہی تو مسئلہ ہے کہ ڈبوں میں اسلحہ ہے" جیسے نایاب تکیہ کلام ان کی ایجادات ہیں۔

اکثر چایے کی پیالی پر ٹن ہو کر ٹی وی اینکروں کی طرح سیاسی تجزیے کرتے ہیں۔ ان کی باتیں معرفت کی نہریں ہیں جو کراچی کی بارش کی طرح کسی وقت بھی برس سکتی ہیں۔ انہوں نے گلو بٹ کا ذکر کیا تو میں کاپی اور قلم لے کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔

ان میں اور گلو بٹ میں مماثلت کی سیاق و سباق کے حوالے سے تشریح کریں۔ میں نے ایسے سوال کیا جیسے کہ ہمارے ہاں عموماً امتحانات میں کیا جاتا ہے۔

"گلو بٹ یاد ہے نا۔ 2014 میں جب حکومت اور منہاج القرآن والوں کے درمیان تنازع شروع ہوا تھا تو گلو بٹ سامنے آیا تھا۔ پولیس کا مخبر، تھانے دار کا یار ۔۔۔"

لمبی مونچھیں، گندی شرٹ، جیسے منٹو کے کسی افسانے سے نکلا کوئی کردار۔۔" میں نے فوراً لقمہ دیا۔

"کیسے سلطان راہی کی طرح ہاتھ اٹھا کر پولیس کے لشکر کے آگے آگے چلتا تھا اور کیسے اپنے ڈنڈے سے منہاج والوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑتا تھا،" شامی بھائی نے کسی مشاق شاگرد کی طرح ہرے مارکر سے موٹی موٹی سرخیاں لگائیں اور نیلے قلم سے تفصیلات لکھنا شروع کیں۔

"یہ جو گلو بٹ جیسے لوگ ہوتے ہیں، انہیں تھوڑی مشہوری درکار ہوتی ہے۔ یہ پرانے جغادری بدمعاشوں کی طرح پاکٹ مار سے ہتھ چھوڑ، ہتھ چھوڑ سے چھپن چھری اور چھپن چھری سے پستول مارکہ نہیں بنے ہوتے۔ ان کی زندگی کا مقصد ایک شارٹ کٹ ہوتا ہے، چوہدری صاحب کی خوشنودی کے لیے کیا گیا وہ بڑا کام جس میں خرچہ مناسب ہو، خطرہ کم ہو، مگر واہ واہ رج کے ہو۔ گلو بٹ بھی ایسا ہی تھا۔ چھوٹی چھوٹی بدمعاشیوں سے جی نہ بھرا، مخبریوں اور دھونس دھمکیوں میں منافع کم نظر آیا تو پولیس کی مدد سے راتوں رات ہیرو بننے کا ارادہ کر لیا۔ جو کام انتظامیہ نہ کر سکی، گلو بدمعاش نے کر دیا۔ کسی کی گاڑی کا شیشہ پھوڑ دیا، کسی کی ریڑھی الٹ دی۔ تھانے دار کی شاید اپنی مرضی بھی نہ تھی کہ ایسے جوہر کو ضائع کردے۔ لیکن کسی بڑے صاحب نے کہا ہوگا اور گلو بٹ جہاں چھوٹے صاحب کے کام آیا وہاں بڑے صاحب سے بھی شاباشی لے گیا۔"

"ہر گلو بٹ کا ایک چھوٹا صاحب ہوتا ہے اور ایک بڑا صاحب۔ چھوٹا صاحب تنخواہ دیتا ہے لیکن بڑا صاحب اصل کام کرواتا ہے۔ وہ سارے کام جو وہ خود نہ کر سکتا۔ جیسے اس تھانیدار کو کسی بڑے صاحب نے کہا تھا۔"

لیکن ہمارے 'اسکالر بھائی' کا اس قضیے سے کیا تعلق؟

"بھئی وہ ہماری قوم کا آئینہ ہیں۔ تھوڑی سی مذہبی روایتیں، تھوڑی سی قوالی، تھوڑے سے ہندوستانی گانے، تھوڑے سے موبائل فون، تھوڑی بہت مہنگی لان، تھوڑا بہت رمضان اور تھوڑا بہت پاکستان ۔۔۔" شامی بھائی نے مضمون کو حاشیے لگانے شروع کیے۔

"گلو بٹ کسی ایک شخص کا نام نہیں۔ یہ ایک استعارہ ہے۔ ٹیڑھے ڈبے سے گھی نکلوانے والی ٹیڑھی انگلی کا۔ یہ جو جتنے بھی بڑے صاحب ہیں وہ سب کوئی نہ کوئی گلو بٹ استعمال کرتے ہیں۔ کسی اور بڑے صاحب کو ہرانے کے لیے۔ اسی طرح ان کی روٹی روزی بھی مشہوری سے وابستہ ہے۔ کون سا موضوع گرم ہے، کس تھالی میں منہ مارنے سے کون سا پتھر پڑے گا اور کہاں سے پیٹ بھرنے کی امید ہے۔"

"اسی طرح ان کا بھی ایک چھوٹا صاحب ہے جو اسے تنخواہ دیتا ہے اور ایک بڑا صاحب ہے جو اسے کام دلواتا ہے۔ یاد ہے نا پہلے بھی ایک گلو بٹ تھا۔"

کون سا والا؟ شامی بھائی آپ بھی پہیلیاں بوجھواتے باز نہیں آتے۔"

"یار وہ جو کرسی پر تصویر رکھ کر پروگرام کیا کرتا تھا، وہ جس کے چھوٹے صاحب کو لندن میں معافی کے اشتہار چلانے پڑ گئے۔"

"وہ تو نکل گیا شامی بھائی، وہ گلو بٹ تو ہوشیار نکلا۔ لیکن لاہور والا گلو بٹ پھنس گیا،" میں نے شامی بھائی سے کہا۔

"یعنی گلو بٹ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پکڑے جائیں، اور ایک وہ جو تھانہ بدل بدل کر کام آسکیں۔"

"اس والے کا کیا بنے گا شامی بھائی؟"

"یہ والا بھی شاید چپ ہو جائے۔ کچھ توڑ پھوڑ کرے گا۔ پھر کسی اور بڑے صاحب کا حکم آئے گا اور گلو بٹ اندر۔ اگر بہت بہادر ہوا تو چپ چپیتے اپنی سزا جھیل لے گا ورنہ معافی تلافی کے بعد اسی نوکری پر واپس۔ جانو جرمن کی طرح گلو بٹ بھی اوپر اوپری بھرم پر کھاتے ہیں، خون پسینے کا نہیں،" شامی بھائی نے پان کی گلوری منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔

"یہ تو اچھی بات نہ ہوئی۔"

"بس بیٹا بات یہی ہے۔ اگر آپ گلو بٹ ہیں تو یا تو یہ تسلی کر لیں کہ آپ کا بڑا صاحب تگڑا ہو، یا پھر چھوٹے صاحب پر برا وقت آنے سے پہلے تھانا بدل لیں۔"


یہ ایک طنزیہ مضمون ہے اور کسی بھی حقیقی شخصیت و واقعات سے مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

RIZ Jan 31, 2017 09:18am
well written,,,
گلو بٹ Jan 31, 2017 10:39am
1993 میں جب نوازشریف کی حکومت کو غلام اسحاق خان نے برطرف کیا تو اس وقت کا مقبول اخبار " روزنامہ پاکستان" کا مالک اکبر علی بھٹی تھا جو کہ غالباً وہاڑی سے پیپلزپارٹی کا ایم این اے بھی تھا۔ نوازحکومت کی برطرفی پر اکبرعلی بھٹی نے اپنے اخبار روزنامہ پاکستان کی ہیڈلائن دی کہ "بدمعاش حکومت برطرف کردی گئی" نوازحکومت کے بعد بینظیر کی حکومت آئی جو کہ 1996 میں برطرف ہوئی اور نوازشریف دوبارہ وزیراعظم بن گیا۔ نوازشریف ایک منتقم مزاج شخص ھے اور وہ اتنے سالوں کے باوجود بھی اکبرعلی بھٹی کی اپنے بارے میں ہیڈلائن بھول نہ پایا تھا۔ 1997 میں دوسری بار وزیراعظم بنتے ہی میاں صاحب نے سب سے پہلے سیف الرحمن کے زریعے روزنامہ پاکستان کے مالک اکبرعلی بھٹی کے خلاف ایک معمولی سی کرپشن کا مقدمہ درج کروا کر اندر کروا دیا۔ جیل میں اکبرعلی بھٹی پر پولیس کے زریعے بے تحاشہ تشدد کروایا گیا، یہاں تک کہ وہ کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہوکر چند سال میں جیل کے اندر ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ 1/3
گلو بٹ Jan 31, 2017 10:46am
نوازشریف کے انتقام کا سلسلہ اکبر بھٹی کو جیل بھیج کر ہی ختم نہ ہوا۔ نوازحکومت نے احتساب کمیشن کے زریعے پہلے اس کے اخبار کی قرقی کروائی اور پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس وقت حامد میر غالباً اوصاف اسلام آباد کا ایڈیٹر ہوا کرتا تھا۔ نوازشریف نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی نیت سے حامد میر کو آفر کی کہ وہ حکومتی تحویل میں آئے ہوئے روزنامہ پاکستان کا چیف ایڈیٹر بن جائے۔ حامد میر کو لگا کہ وہ اس طرح اپنے صحافی بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دے گا، چنانچہ اس نے میاں صاحب کی اس آفر کو شکریہ کے ساتھ انکار کردیا۔ نوازشریف نے پھر یہ آفر مجیب الرحمان شامی کو کی۔ 2/3
گلو بٹ Jan 31, 2017 10:46am
مجیب الرحمان شامی، جو کہ ضیا دور میں تقریباً گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ضیا مرحوم کے آستانے جایا کرتا تھا اور اسے اپنے عہد کا خلیفہ کہا کرتا تھا، نوازشریف کی اس آفر پر فوراً رضامند ہوگیا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، مجیب الرحمن شامی نے نوازحکومت سے غالباً 8 لاکھ روپوں کے عوض روزنامہ پاکستان خرید لیا۔ یادرھے، روزنامہ پاکستان پاکستان کا پہلا اردو اخبار تھا جس نے کلر تصویریں شایع کرنا شروع کی تھیں اور اس کیلئے کروڑوں روپے کی پرنٹنگ مشینری ان کے پریس میں موجود تھی۔ نواز حکومت نے کروڑوں روپے مالیت کا یہ اخبار 8 لاکھ میں مجیب شامی کو دے دیا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اپنے آپ کو موجودہ عہد کا آغا شورش کاشمیری کہلوانے والا مجیب الرحمان شامی ایک غیرجانبدار صحافی ھے تو روزنامہ پاکستان کے s پرانے ملازم سے اس کے بارے میں پوچھ لیں، سب کچا چٹھا سامنے آجائے گا۔ 3/3
SAMEER Jan 31, 2017 04:44pm
AIK DAM CHAWAL BLOG JANAB KA,
Imran Feb 01, 2017 06:23pm
hahahahh. issay kehtay hain aik teer say doo shikar. maza aa gia kalam ka.