حکومت سے کشیدگی کے بعد اپوزیشن کی 'پُرامن واپسی'
اسلام آباد: ماضی کے برعکس قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے اپوزیشن اراکین کو وزیراعظم کے ایوان میں اپنے اہل خانہ کے غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے مبینہ طور پر جھوٹے بیان پر تحریک استحقاق پر بحث کرنے اجازت دے دی، جس کے بعد اسمبلی کا ماحول معمول پر آگیا۔
ظاہری طور پر در پردہ بات چیت کا نتیجہ نظر آنے والے معاملات کے بعد حکومتی اراکین نے اپوزیشن اراکین کی تقاریر کے دوران کسی قسم کی مزاہمت نہیں کی جس میں وزیراعظم کو ان کی مبینہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزام میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا یہاں تک کے وزیراعظم نواز شریف پر پاناما پیپرز کے مسئلے پر ایوان میں غلط تفصیلات فراہم کرنے پر ایوان کے استحقاق کو مجروح کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔
بظاہر دفاعی پوزیشن کا شکار نظر آنے والی حکومت نے اپوزیشن کی تقاریر کا جواب دینے کی ذمہ داری نرم لہجے کے حامل، ریاستوں اور فرنٹیئر ریجن کے وزیر ریٹائر لیفٹننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ کو دی تھی۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے رکن عمران خٹک کی جانب سے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کرنے پر وہ ایسا نہ کرسکے۔
اس موقع پر اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کو اجلاس منگل تک ملتوی کرنا پڑا، جیسا کہ ایوان میں مطلوب 86 اراکین کی تعداد موجود نہیں تھی۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے جمعے کو قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی ایجنڈے کی نشاندہی کے بغیر ملتوی کردی تھی اور کہا تھا کہ ایوان میں اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں ہوگی جب تک پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے اراکین اسمبلی کے درمیان ہونے والے جھگڑے پر پارلیمانی رہنما کسی فیصلے تک نہیں پہنچ جاتے۔
انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کس معاملے پر مفاہمت ہوئی۔
اسپیکر سردار ایاز صادق، جنھوں نے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ وہ جمعرات کو ہونے والے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیں گے اور بتایا تھا کہ وہ مذکورہ اجلاس کی کارروائی کی ویڈیو پہلے سے ہی حاصل کرچکے ہیں، تاہم انھوں نے کوئی اعلان نہیں کیا کہ وہ اس حوالے سے کیا کارروائی کرنے جارہے ہیں۔
اس کے بجائے ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ اسٹاف کے خلاف کارروائی کریں گے کیونکہ انھوں نے اسپیکر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی شہریار آفریدی کی رکنیت معطل کرنے کے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا تھا، ان کی رکنیت اثاثوں کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے معطل کی گئی تھی۔
قومی اسمبلی کے اسپیکرکا کہنا تھا کہ شہریار آفریدی، جنھوں نے مسلم لیگ کے اراکین کے ساتھ جھگڑا کیا تھا، کو بتایا تھا کہ انھوں نے گذشتہ سال 11 نومبر کو اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کردی تھیں۔
سردار ایاز صادق نے الیکشن کمیشن سے وضاحت طلب کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ رکن اسمبلی نے گذشتہ جمعے کو اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سب کو اس واقعے پر افسوس ہے اور وہ اپوزیشن کی جانب سے مثبت رویے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
وفقہ سوالات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے پارلیمانی رہنما سید نوید قمر نے بات چیت کرتے ہوئے جمعرات کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اراکین نے اس روز بہت سی حدوں کو پار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے 28 سالہ پارلیمانی کیرئیر میں کبھی نہیں دیکھا کہ خواتین اراکین کی موجودگی میں کسی نے ایوان میں ایک دوسرے کو گالی دی ہو اور ڈیکس کے اوپر اچھل کود کی ہو۔
انھوں نے کہا کہ یہ 'شرمناک عمل ہے'، اور کہا کہ ماضی میں اس سے کم شدت کے واقعات پر حکومتیں گر جاتی تھیں۔
سید نوید قمر نے کہا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ حدود کی نشاندہی کی جائے اور کہا جائے کہ بہت ہوچکا اب یہ کافی ہے'۔
انھوں نے حکومت سے کہا کہ وہ فراغ دلی کا مظاہرہ کرے اور اپوزیشن کی تنقید کو مثبت انداز میں لے۔
ادھر قادر بلوچ نے واقعے کو 'بدقسمتی' قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے قومی اسمبلی کے اراکین کو ہدایت کی ہے کہ حد پار نہ کریں، انھوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ اپوزیشن بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرے گی۔
عوامی مسلم لیگ کے چیف شیخ رشید احمد نے اپنی سخت گیر تقریر میں الزام لگایا کہ مائع قدرتی گیس کی فراہمی کے معاہدے کے باعث قطری شہزادہ، شریف خاندان کی مدد کیلئے اس معاملے میں شامل ہوا۔
پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے طارق بشیر چیمہ، پی ٹی آئی کی شیریں مزاری اور آزاد اُمیدوار جمشید دستی نے بھی وزیراعظم نواز شریف پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر ملکی اثاثے بنانے کا الزام لگایا۔
شیخ رشید نے الزام لگایا کہ وزیراعظم عدالت میں ایسا کوئی بھی دستاویزاتی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں جس میں ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ٹرسٹی ظاہر کیا گیا ہو جبکہ اس کے برعکس پاناما پیپز میں انھیں آف شور کمپنی کی بینیفیشری قرار دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ شریف اب اپنے مرحوم والد کو اس معاملے میں دھکیل رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرحوم افراد کا ٹرائل کرانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں قومی اسمبلی کے 16 اراکین کو معمولی جرائم کی وجہ سے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دیا گیا تھا، جس میں ان پر الزام تھا کہ ان کے پاس ایک سے زائد شناختی کارڈ ہیں یا ان کا اکاؤنٹ کسی مسجد کے بینک اکاؤنٹ کے ساتھ منسلک ہے۔
انھوں نے کہا کہ اپوزیشن عدالت کے فیصلے کو قبول کرے گی لیکن وزیراعظم کو تجویز دی کہ وہ اگر کیس جیت بھی جائیں تو بھی انھیں مستعفی ہوجانا چاہیے، جیسا کہ مسلم لیگ نواز میں بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جو وزیراعظم کی نشست کیلئے اہل ہیں۔
اپوزیشن اراکین نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو جمعرات کی کشیدگی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ صورت حال خراب ہونے کے ذمہ دار ہیں، جیسا کہ انھوں نے غیر جانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کیا تھا۔
نوید قمر کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو وزیراعظم نواز شریف ہی حل کرسکتے ہیں، وہ ایوان میں آئیں اور بتائیں کہ میں نے جو کچھ یہاں کہا تھا وہ 'سچ کے سوا کچھ نہیں' ہے۔
بعد ازاں ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جمعرات کے واقعے پر پی ٹی آئی اور اسپیکر کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ملوث اراکین کے خلاف کارروائی کرنا اسپیکر کا استحقاق ہے۔
تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ اسپیکر سے ملاقات کے دوران پی ٹی آئی نے یہ تجویز دی تھی کہ ایوان میں کشیدگی کم کرنے کیلئے اپوزیشن کی تقاریر کا جواب خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف اور عابد شیر علی کے بجائے قادر بلوچ یا رانا تنویر سے دلوایا جائے۔










لائیو ٹی وی