1999: جب پاکستان نے چنائی میں تاریخ رقم کی
چنا سوامی اسٹیڈیم میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی اور ہر طرف سچن، سچن کے نعروں سے پورا اسٹیڈیم گونج رہا تھا۔ ہندوستان کو جیت کیلئے صرف 17 رنز درکار تھے اور سنچری بنانے والے سچن ٹنڈولکر کی وکٹ پر موجودگی کو دیکھتے ہوئے بھارت کی فتح یقینی نظر آتی تھی۔
چنائی میں وکٹ کے حصول کیلئے بے چین پاکستان کے کپتان وسیم اکرم کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آتی تھی اور اننگز کی 92ویں اوور کی پانچویں گیند پر سچن ٹنڈولکر نے ثقلین کی گیند کو فضا میں بلند کردیا اور وسیم اکرم نے کیچ لینے میں کوئی غلطی نہ کی اور پاکستان نے 31 جنوری 1999 کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 12 رنز سے فتح حاصل کر کے سیریز میں برتری حاصل کر لی۔
انتہا پسند ہندو تنظیموں کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان کے 12 سال میں پہلے دورہ ہندوستان پر شکوک کے بادل چھائے ہوئے تھے اور انتہا پسندوں نے دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم کی پچ بھی کھود دی تھی۔
غیریقینی صورتحال کے سائے میں پاکستانی ٹیم چنئی میں سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے پہنچی جہاں قسمت نے یاوری کی اور وسیم اکرم نے پہلا ٹاس جیت لیا۔
ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو 91 رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔
نوجوان محمد یوسف(اس وقت یوسف یوحنا تھے) اور معین خان نے نصف سنچریاں اسکور کر کے پاکستان کو 238 رنز کے معقول مجموعے تک رسائی دلائی۔
جواب میں ہندوستانی اوپنرز نے اپنی ٹیم کو 67 رنز کا عمدہ آغاز فراہم کیا لیکن پاکستان نے سچن ٹنڈولکر کو صفر پر آؤٹ کرنے سمیت یکے بعد دیگرے تین کامیابیاں حاصل کیں۔
اظہر الدین بھی زیادہ کچھ نہ کر سکے لیکن راہول ڈراوڈ اور سارو گنگولی نے نصف سنچریاں اسکور کر کے اپنی ٹیم کو مضبوط مقام تک پہنچایا اور ہندوستان نے 254 رنز بنا کر 16 رنز کی برتری حاصل کی۔
پاکستان نے دوسری اننگز شروع کی تو سعید انور اور اعجاز احمد جلد پویلین لوٹ گئے لیکن شاہد آفریدی نے انضمام الحق کے ساتھ اچھی شراکت قائم کرنے کے ساتھ ساتھ تین چھکوں اور 21 چوکوں کی مدد سے 141 رنز بنا کر سنچری اسکور کی۔
پاکستان ایک موقع پر چار وکٹ کے نقصان پر 275 رنز بنا کر انتہائی مضبوط مقام تک پہنچ چکی تھی لیکن اس لمحے پر وینکاٹیش پرساد کے شاندار اسپیل نے پاکستان کے بڑے اسکور کے خواب کو چکنا چور کردیا۔
پرساد نے 18 گیندوں کے دوران کوئی رن نہ دیتے ہوئے پانچ وکٹیں یں اور یوں پاکستانی اننگز 286 رنز پر تمام ہوئی۔

271 رنز کے ہدف کے تعاقب میں بھارت کا آغاز کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا اور 82 رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی جس کے ساتھ ہی پاکستان کی جیت کے امکانات روشن ہو گئے تھے۔
لیکن امید کی آخری کرن سچن ٹنڈولکر کی وکٹ پر موجودگی نے ہندوستانی قوم کے امیدوں کے چراغ روشن رکھے ہوئے تھے۔
سچن نے بھارتی عوام کو مایوس نہ کیا اور ناین مونگیا کے ساتھ چھٹی وکٹ کیلئے 136 رنز جوڑ کر ہندوستان کو فتح کی دہلیز پر پہنچا دیا۔
اس مشکل مرحلے پر پاکستان نے نئی گیند لی اور وسیم اکرم نے 52 رنز بنانے والے مونگیا کو آؤٹ کر کے پاکستانی عوام کے چہروں پر خوشی بکھیر دی لیکن ابھی اصل مرحلہ باقی اور ٹنڈولکر آہنی دیوار کی طرح پاکستان اور فتح کے بیچ حائل تھے۔
عظیم ہندوستانی بلے باز نے اسکور کو 254 تک پہنچا دیا اور ایک ایسے موقع پر جب بھارت کامیابی سے محض 17 رنز دور اور پاکستان کی فتح کے امکانات ختم ہوتے نظر آ رہے تھے، سچن ٹنڈولکر ایک ایسی غلطی کر بیٹھے جسے شاید وہ کبھی نہ بھول سکیں۔
ثقلین مشتاق کی ایک گیند کو لٹل ماسٹر سمجھنے میں ناکام رہے اور وسیم اکرم نے کیچ لے کر 136 رنز کی اس اننگز کا خاتمہ کردیا۔
سچن کی وکٹ گرنے کے ساتھ ہی پاکستان اور فتح کے بیچ حائل بند ٹوٹ گیا اور مزید چار رنز کے اضافے سے پوری ٹیم پویلین لوٹ گئی۔
پاکستان نے 12 سال بعد ہندوستانی سرزمین پر پہلے ٹیسٹ میچ میں 12 رنز سے کامیابی حاصل کر کے سیریز میں بھی 1-0 کی برتری حاصل کر لی۔
ثقلین مشتاق نے دونوں اننگز میں پانچ پانچ وکٹیں لیں لیکن میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ سچن ٹنڈولکر کو دیا گیا۔
سیریز کے اگلے میچ میں کمبلے نے ایک اننگز میں دس وکٹیں لینے کا تاریخی کارنامہ سرانجام دیا اور دوسرے میچ میں ہندوستان کی فتح کے ساتھ یوں یہ سیریز ڈرا پر منتج ہوئی۔











لائیو ٹی وی