اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ پراپرٹی مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر کالا دھن بھی استعمال کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ ببل (Real State Bubble) پیدا ہورہا ہے۔

رئیل اسٹیٹ ببل سے مراد پراپرٹی کی قیمتوں میں ہونے والا بے پناہ اضافہ ہے، جو اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک یہ ببل (بلبلہ) ختم نہ ہوجائے اور قیمتیں مستحکم پوزیشن میں نہ آجائیں۔

ذیلی کمیٹی کی جانب سے اس بات کا فیصلہ بھی کیا گیا کہ حالیہ حکومتی اقدامات کے بعد اسٹیٹ ایجنٹس کی جانب سے پراپرٹی سیکٹر میں نقصان کے دعووں کو بھی کراس چیک کیا جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سید مصطفیٰ محمود کا کہنا تھا کہ 'اس شعبے کی جانب دیکھ کر ہی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پراپرٹی کا کاروبار کچھ سالوں سے ببل کا شکار ہے اور جلد یا بدیر اسے ختم ہونا ہی ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ اس کے خلاف مزاحمت پیدا کی جائے بجائے اس کہ ہم اس کے ختم ہونے کا انتظار کریں'۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ذیلی کمیٹی کے چیئرمین میاں عبدالمنان نے کراچی، لاہور اور فیصل آباد کے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعبہ جائیداد کی خرید و فروخت کی غلط تصویر پیش کرکے انتظامیہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

واضح رہے کہ اس ذیلی کمیٹی کا قیام وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کے پراپرٹی ٹیکس کے ویلیوشن ٹیبل کے حوالے سے بے ضابطگیوں کو حل کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔

حکومے نے حال ہی میں فیصلہ کیا تھا کہ ایف بی آر جائیدادوں کی خرید فروخت کے وقت ٹیکس عائد کرنے کے لیے ان کی مالیت کا اندازہ کرے گا، جس کے بعد پاکستان رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ فورم (پیرف) نے اپنی رپورٹ میں حکومت کے اس فیصلے سے پراپرٹی کاروبار کو پہنچنے والے نقصان سے آگاہ کیا تھا۔

پیرف کے صدر شعبان الہٰی کا کہنا تھا کہ سرمایہ کار ٹیکس میں ہونے والے اس اچانک اضافے کے بعد کچھ علاقوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔

ان علاقوں میں کراچی کا سائٹ انڈسٹریل ایریا، پورٹ قاسم اتھارٹی انڈسٹریل ایریا، لانڈھی انڈسٹریل ایریا اور ڈی ایچ اے سٹی، لاہور کی انمول کو آپریٹو سوسائٹی، اسلام آباد کی ڈی ایچ اے ویلی اور فیصل آباد کا کنال روڈ شامل ہے۔

پیرف کے اراکین کے مطابق یہ فہرست جزوی ہے اور انہیں ملک بھر کاروبار میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب اجلاس میں موجود ایف بی آر حکام نے پیرف کے اس مؤقف کو مسترد کردیا کہ ٹیکسوں میں اضافہ کردیا گیا ہے، اس حوالے سے مثال دیتے ہوئے ایف بی آر کے رکن رحمت اللہ وزیر کا کہنا تھا کہ کراچی کے ڈی ایچ اے فیز 8 میں پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو 5 کروڑ ہے جبکہ ٹیکس صرف 9 لاکھ کے حساب سے جمع کرایا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بجٹ میں متعارف کرائے گئے منظم کرنے کے نظام کے بعد سے رئیل اسٹیٹ لین دین میں اضافہ ہوا ہے۔

ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر محمد اقبال کے ساتھ ساتھ رحمت اللہ وزیر نے اس بات کو واضح کیا کہ ان جائیدادوں میں کالے دھن کو محفوظ کیا جارہا ہے جبکہ سرمایہ کار مارکیٹ ویلیو کو عام شہریوں کی پہنچ سے باہر کرنے میں مصروف ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مکان یا رہائشی زمین خریدنا عام شہری کی پہنچ سے دور ہوچکا ہے اور اس شعبے کو قابو میں لانے کے لیے کچھ کرنا ضروری ہے'۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ محمود کا کہنا تھا کہ زمین خریدنے والے افراد کے علاوہ اگر اصل مطالبہ کرنے والے افراد کو نظرانداز نہ کیا جاتا تو وہ وہاں اپنا گھر قائم کرچکے ہوتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں دستاویزات تیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس شعبے میں قیمتوں میں کمی اُن پاکستانیوں کو فائدہ پہنچائے گی جو سفید دھن کے مالک ہیں۔

ذیلی کمیٹی کے چیئرمین کا اجلاس کے اختتام پر کہنا تھا کہ رئیل اسٹیٹ کے شعبے کا موازنہ دبئی سے نہیں کیا جاسکتا کیوں وہاں یہ شعبہ کافی مضبوط ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس شعبے کی دستاویزات تیار کرنا چاہتے ہیں اور 17-2016 کے بجٹ میں پیش کردہ اصول قلیل المدتی اقدام نہیں بلکہ شعبے کو منظم بنانے کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔


یہ خبر 7 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

haBIB Feb 07, 2017 06:09pm
کراچی کے ڈی ایچ اے فیز 8 میں پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو 5 کروڑ ہے جبکہ ٹیکس صرف 9 لاکھ کے حساب سے جمع کرایا جاتا ہے۔ یہ سارے کے سارے ٹیکس چور ہے ، غریب صابن، نمک، چینی، گھی ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیں مگر ان بنگلوں والے ٹیکس چوروں کے خلاف ایف بی آر کوشش نہیں کررہا اور ان کو رعایت دی جارہی ہے، کیا پاکستان کا کوئی ہمدرد بیورو کریٹ اس طرح کا طریقہ کار نہیں بنا سکتا کہ گاڑیوں خریدنے والوں کی طرح ان چوروں سے ٹیکس حاصل کیا جاسکے۔