انکوائری کمیشن بل سینیٹ کمیٹی سے منظور
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے پاکستان کمیشنز آف انکوائری بل 2016 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی کی صدارت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔
وزیر قانون زاہد حامد اور وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفراللہ سمیت وزارت قانون اور نیب حکام بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
اجلاس کے دوران کمیٹی نے پاکستان کمیشنز آف انکوائری بل 2016 متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
واضح رہے کہ اس بل کو پہلے قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا، جسے پھر سینیٹ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا، اب اسے سینیٹ بھیجا جائے گا اور وہاں سے منظوری کے بعد صدر مملکت کے دستخط کے بعد یہ قانون کا درجہ اختیار کرلے گا۔
وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ حکومت 1956 کے قانون کی نسبت زیادہ بااختیار انکوائری کمیشن بنانا چاہتی ہے، مجوزہ بل کے تحت انکوائری کمیشن کو مکمل سول اور فوجداری اختیارات حاصل ہوں گے۔
زاہد حامد نے مزید کہا کہ نئے انکوائری کمیشن کو غیر معمولی اختیارات دیئے جارہے ہیں، جسے عالمی ماہرین کی معاونت اور خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا اختیار ہوگا۔
انھوں نے بتایا کہ نئے قانون کے مطابق انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو منظرعام پر لایا جائے گا اور انکوائری کمیشن کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے وقت کا پابند بنانے کو بھی تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : حکومت بالآخر انکوائری کمیشن بل منظور کرانے میں کامیاب
رکن کمیٹی مظفر شاہ نے سوال کیا کہ آج تک کمیشن کی کتنی رپورٹس منظر عام پر آئیں ہیں؟ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ اگر حکومت کمیشن کی رپورٹ پبلک نہیں کرتی تو کیا رپورٹ پبلک کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا جا سکے گا۔
بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ پہلے حکومت کے پاس اختیار تھا کہ پبلک کرے یا نہ کرے لیکن اب حکومت پر لازم ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے 30 دن کے اندر رپورٹ منظر عام پر لانا ہو گی۔
دوسری جانب کمیٹی میں قومی احتساب ترمیمی بل 2017 کو بھی مشترکہ کمیٹی کو بھجوانے پر اتفاق ہوگیا، قائمہ کمیٹی اس بل پر پہلے ایوان میں رپورٹ پیش کرے گی۔
ایوان سے منظوری کے بعد بل پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قوانین کو بھجوایا جائے گا۔
مزید پڑھیں:رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے کیلئے پہلی پیش رفت
گذشتہ دنوں سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کی جانب سے تشکیل دی گئی پارلیمنٹ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بنانے کی بھی منظوری دی تھی۔
خصوصی کمیٹی کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ رائٹ ٹو انفارمیشن بل کا جائزہ لے کر کمیشن بنانے سے متعلق لائحہ عمل تیار کرے۔
مجوزہ مسودے کے تحت ’رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن‘ بنایا جائے گا، جو مکمل خود مختار بھی ہوگا، اس کمیشن کو ملک کے تمام آئینی، قانونی، سیکیورٹی اور انتظامی اداروں تک رسائی حاصل ہوگی۔
تمام ادارے اس کمیشن کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، جو کمیشن کو درکار ہوگی، جب کہ کمیشن ہر اس پاکستانی فرد کو ہر وہ معلومات فراہم کرنے کی پابند ہوگا جس کی اس فرد ضرورت ہوگی۔
مجوزہ مسودے کے مطابق رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کا ریکارڈ جان بوجھ کر ضائع کرنے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جاسکے گی، جب کہ وہ تمام ریکارڈ جو 20 سال سے زیادہ پرانا ہوگا، اس پر کمیشن کے قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، مگر یہ ریکارڈ بہر صورت منظر عام پر آئے گا۔
مسودے میں کہا گیا تھا کہ کمیشن کسی بھی لاپتہ شخص سے متعلق معلومات کی درخواست پر 3 دن میں تحریری طور پر معلومات فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔











لائیو ٹی وی