کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے زر مبادلہ کے ذخائر کو کم کرنے والے خطرنات اور تجارتی خسارے پر کنٹرول کے لیے درآمد کی جانے والی کئی چیزوں پر 100 فیصد مارجن کا نفاذ کردیا۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق ان اقدامات سے ان درآمدی اشیاء کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ان کے عام عوام پر برائے نام اثرات مرتب ہوں گے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جن اشیاء کی درآمد پر 100 فیصد مارجن کا نفاذ کیا گیا، ان میں گاڑیوں، ان کے پرزہ جات اور مکمل یونٹس، موبائل فون، سگریٹ، جیولری، کاسمیٹکس، ذاتی استعمال کی اشیاء، برقی اور گھریلو آلات جبکہ اسلحے سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔

گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات کی درآمد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، 16-2015 میں ایک ارب 26 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کی گاڑیاں اور پرزہ جات درآمد کیے گئے، جبکہ اس میں 40 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے، رواں مالی سال 17-2016 کے ابتدائی 7 ماہ میں ایک ارب ایک کروڑ ڈالر کی درآمدات ہو چکی ہیں۔

پاکستان میں سال 16-2015 میں موبائل فون کی درآمدات نصف ارب سے تجاوز کر گئی تھی، گزشتہ مالی سال میں 66 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے موبائل فون درآمد کیے گئے، جب کہ رواں برس اس میں مزید اضافہ دیکھا گیا، مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران درآمدات 33 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا شرح سود میں کمی کا اعلان

ملک میں الیکٹریکل مشینری اور آلات میں بھی نمایاں طور پر اضافہ دیکھا گیا، جس وجہ سے حکومت کو زر مبادلہ کے ذخائر کی اعلیٰ سطح برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش آ رہی ہیں۔

بینکاروں کے مطابق دباؤ بڑھنے کے باعث گزشتہ چار ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہوئی۔

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اکتوبر 2016 کے بعد رواں ماہ کے وسط میں کم ہوئے ہیں، اس وقت یہ ذخائر 21.9 ارب ڈالر ہیں ، جب کہ یہی ذخائر اکتوبر 2016 میں 24 ارب ڈالر تھے۔

الیکٹریکل مشینری کی درآمدات سال 16-2015 کے درمیان ایک ارب 25 کروڑ ڈالر تھیں، جب کہ رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران اس کے مزید بڑھنے کے اشارے ملے ہیں، کیوں کہ ان مشینری کی درآمدات کی ترسیلات 7 ماہ کے دوران 69 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کے ڈیپارٹمنٹس کی منتقلی رک گئی

اسٹیٹ بینک نے امید ظاہر کی ہے کہ ایسی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی درآمد ان اقدامات سے متوازن سطح پر رہیں گے۔

دوسری جانب ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ مرکزی بینک کو درآمدات میں اضافے کی حوصلہ شکنی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کے حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئیے۔

کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدات سال 16-2015 میں 4 ارب 60 کروڑ ڈالر تھی، جو رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران 3 ارب تک پہنچ گئی، جب کہ یہی درآمدات گزشتہ مالی سال میں 2 ارب 60 کروڑ ڈالر تھیں۔


یہ خبر 25 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں