اسلام آباد: ایک ایسے وقت میں جبکہ پاناما اسکینڈل کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں مصروف ہے کہ ملکی تاریخ کے اس اہم ترین کیس کا کیا نتیجہ نکلنا چاہیئے، پورے ملک میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی اپنے عروج پر ہیں۔

پاناما پیپرز کیس کی سماعتوں کے اختتام سے قبل عدالتی بینچ نے 23 فروری 2016 کو اعلان کیا کہ وہ ایسا فیصلہ سنائیں گے جس کے متعلق لوگ 20 سال تک کہیں گے کہ یہ فیصلہ قانون کے عین مطابق تھا۔

پاناما کیس کے سلسلے میں مختلف درخواست گزاروں نے پٹیشنز دائر کی تھی، جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور شیخ رشید احمد بھی شامل ہیں، جو وزیر اعظم کی جانب سے 5 اپریل کو قوم سے خطاب اور 16 مئی 2016 کو قومی اسمبلی میں کیے گیے خطاب میں مبینہ طور پر غلط بیانی کی بنیاد پر وزیراعظم کی نااہلی کے خواہاں تھے۔

درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے بچوں کی جانب سے آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری سے متعلق جھوٹ بولا، جس کے نتیجے میں لندن کے پوش علاقے پارک لین میں چار فلیٹوں کا حصول کیا گیا۔

اس کیس میں کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں دینا چاہتا، جس سے کسی کی ساکھ متاثر ہو، تاہم عام رائے یہی ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے گا ، اس سے مستقبل میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے اختیارات مضبوط ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

ایک سینئر وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سپریم کورٹ کیس کا فیصلہ لکھتے ہوئے کس پہلو کو مدنظر رکھے گی، کیونکہ کیس کی سماعت کے دوران بہت سے معاملات زیر غور آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ قیاس آرائی کرنا قبل از وقت ہے کہ آیا عدالت انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلزم ( آئی سی آئی جے) کے جاری کردہ پیپرز پر غور کرے گی یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت اس کیس میں پیش کیے گئے ریکارڈز کی قبولیت کے حوالے سے تنازع پر توجہ مرکوز کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ دوران سماعت بینچ نے بار بار پاناما پیپرز سے متعلق شواہد اور جمع کرائی گئی اخبارات کی کٹنگ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔

مختلف مواقع کے دوران عدالت نے فریقین کی جانب سے جمع کرائے گئے شواہد پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ افشا ہونے والی دستاویزات اور قطری شہزادے کے خط قانون شہادت پر پورا نہیں اترتے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر رشید اے رضوی کا خیال ہے کہ عدالت کے لیے پاناما پیپرز سے متعلق دستاویزات کو قبول یا مسترد کرنا مشکل ہو جائے گا، کیوں کہ یہ دستاویزات گواہوں کے حلف کے تحت نہیں پیش کی گئی تھیں، جن کی صداقت جانچنے کے لیے ان سے جرح بھی کی جاسکے۔

دوسری جانب شریف خاندان اور دیگر جواب دہنندگان کی جانب سے دستاویزات میں موجود الزامات سے انکار یا ان پر سوال بھی نہیں اٹھایا گیا۔

مزید پڑھیں: جرمن اخبار نے مریم نواز کا پاناما پیپر سے تعلق ظاہر کردیا

پاناما پیپرز حاصل کرنے والے جرمن اخبار ‘Süddeutsche Zeitung’ کے تحقیقاتی رپورٹر فیڈرک اوبرمائیر کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد متعدد ممالک میں تحقیقات کا آغاز ہوا۔

یورپین یونین نے پاناما پیپرز انکشافات کے بعد منی لانڈرنگ، ٹیکس سے بچنے اور ٹیکس نہ دینے سے متعلق تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔

آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمنڈر دیویو گن لاگسن کو برٹش ورجن آئی لینڈ میں ونٹرس انکارپوریشن نامی کمپنی سے تعلق کی وضاحت نہ کر پانے کی وجہ سے بالآخر مستعفی ہونا پڑا۔

برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی اپنے مرحوم والد کی آف شور کمپنی بلیئر مور ہولڈنگ انکارپوریشن کے سامنے آنے کے بعد شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس منافع پر انہوں نے برطانیہ کو کوئی ٹیکس بھی ادا نہیں کیا تھا۔

برطانوی اخبار گارڈین کےمطابق برطانیہ کے چانسلر برائے خزانہ فلپ ہیمنڈ نے نومبر 2016 میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ 22 افراد کے خلاف ٹیکس سے بچنے جبکہ زیادہ دولت بنانے پر 43 افراد کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

مالٹا کے وزیراعظم جوزف مسکٹ پر بھی اُس وقت دباؤ بڑھا جب یورپی یونین کمیٹی نے ان کی کابینہ میں شامل وزیر کونراڈ میزی سے متعلق ایک کیس کو 'منی لانڈرنگ کا ایک ٹیکسٹ بک کیس' قرار دیا۔

خبر رساں ادارے’رائٹرز‘ کے مطابق ہانگ کانگ کا محکمہ فنانشل سروسز اور خزانہ نان فنانشل کاروبار اور نجی کمپنیوں کی جانب سے اپنے حقیقی مالکان کو ظاہر کرنے سے متعلق اینٹی منی لانڈرنگ قوانین نافذ کرنے کا خواہاں ہے۔

اس کیس کے بعد خود پاناما کے حوالے سے عالمی سطح پر اس خیال نے زور پکڑا کہ وہ ٹیکس چوروں کی جنت اور ان افراد کا پسندیدہ ملک ہے جو دولت جمع کرنا چاہتے ہیں جبکہ پاناما پیپرز کی لاء فرم موزیک فانسیکا کے 2 مالکان پر منی لانڈرنگ اور رشوت اسکینڈل کے ثبوتوں کو ختم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

پاناما پیپرز کی افشا ہونے والی دستاویزات کی سچائی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں فیڈرک اوبرمائیر کا کہنا تھا کہ’ ان کی معلومات کے مطابق پاکستان کے علاہ دنیا بھر کے کسی ملک کی کسی بھی عدالت میں ان دستاویزات سے متعلق سنجیدہ سوالات نہیں اٹھائے گئے‘۔

سینئر وکیل چوہدری فیصل حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کسی بھی عدالت یا بیرون ملک شریف خاندان کی جانب سے پاناما پیپرز کی سچائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی اعتراف کے برابر ہے۔

چوہدری فیصل حسین کا کہنا تھا کہ ‘پیغام دینے والے سے زیادہ اہم پیغام ہوتا ہے‘، انہوں نے کہا کہ پاناما پیپرز اسکینڈل کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل ایک جج نے ریمارکس دیئے تھے کہ ’درخواست گزاروں کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد نہیں لگتے‘۔

مگر سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکر کے خیال میں پاناما پیپرز بعض آف شور کمپنیوں کا آفیشل ریکارڈ رکھتے ہیں، جو اندرونی شواہد جیسی اہمیت رکھتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا اسی وجہ سے ان شہادتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہی سپریم کورٹ میں کیس کی بنیاد تھے، لیکن ججز ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف یہ تمام ثبوت کافی ہیں یا نہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ برطانوی پارلیمنٹ نے پاناما پیپرز کو سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے مکمل انکشاف کے لیے کافی ثبوت قرار دیا تھا۔

طارق کھوکھر نے مزید کہا، 'لیکن یہاں کسی نے اس حوالے سے نہ تو سپریم کورٹ اور نہ ہی پارلیمنٹ میں کوئی انکشاف کیا ہے'۔

یہ خبر 3 مارچ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں