اسلام اباد: انٹرنیٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو بند کر دینا یا گستاخانہ مواد ہٹا دینا دو الگ الگ باتیں ہیں، سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم کو بند کر دینے سے آپ صرف پاکستان کی حد تک مواد نظروں سے اوجھل کر دیں گے لیکن اس سے مواد ہٹا نہیں پائیں گے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے فریحہ عزیز نے کہا کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد ہٹوانے کے تکنیکی اور قانونی راستے موجود ہیں جن کا یا تو لوگوں کو علم نہیں یا وہ راستے استعمال نہیں کیے جاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل گستاخانہ مواد کو جواز بنا کر فیس بک کو بند کیا گیا اور پھر یوٹیوب پر پابندی لگائی گئی اور کہا گیا کہ اگر کمپنی اس مواد کو نہیں ہٹائے گی تو ہم پاکستان میں اس کی رسائی بند کردیں گے۔

مزید پڑھیں: گستاخانہ مواد: بلاک شدہ پیجز کے ریکارڈ کیلئے فیس بک سے رابطہ

فریحہ عزیز نے کہا کہ سوشل میڈیا پیلٹ فارم کی بندش کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سوشل میڈیا پر پابندی لگانے سے اس مسئلے کو حل کر لیا جائے گا؟

سائبر کرائم ایکٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم ایکٹ کو یہ کہہ کر رائج کیا گیا کہ لوگوں کو انٹرنیٹ پر ہراساں کیا جاتا ہے اور نفرت انگیز تقاریر کو ہوا دی جاتی ہے، لیکن اس قانون پر کس حد تک عملدرآمد ہوا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو اس قانون کے آنے کے بعد نفرت انگیز تقاریر کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کر رہی ہے۔

اس حوالے سے گستاخانہ مواد کی موجودگی کے الزام میں فیس بک کے 3 پیجز کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے بلاک کیا جاچکا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کے ڈائریکٹر جنرل مظہر کاکاخیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ فیس بک انتظامیہ سے گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث 3 پیجز کے ریکارڈ طلب کرنے کے لیے رابطہ کیا جاچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں