لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

گزشتہ ہفتے چند ایسے مضامین شائع ہوئے جس کے باعث سی پیک کے حوالے سے بے چینی پیدا ہو گئی۔ چلیے آغاز میں ہی سادہ سی زبان میں یہ صاف کر دیتے ہیں: سی پیک دوسری ایسٹ انڈیا کپمنی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ چند افراد کے نزدیک یہ تشبیہہ کے لیے بھی قابل استعمال ہو مگر یہ موازنہ نہ تو درست ہے اور نہ ہی کسی صورت مددگار۔

یہ موازنہ کارآمد نہ ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی، ایسٹ انڈیا کمپنی میں طاقت کا عنصر شامل تھا، جو کہ موجودہ کیس میں بالکل بھی نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے دھیرے دھیرے اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو چھوڑ کر حکومتی ذمہ داریاں اپنے قابو میں کر لی تھیں، کمپنی نے لینڈ ریوینیو اور عدلیہ، اس کے ساتھ ساتھ تعلیم اور مسلح افواج کی مینٹینئس کا انتظام اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ جبکہ سی پیک تو بالکل ہی دوسری سمت پر گامزن ہے۔

ایک واحد جگہ جہاں یہ موازنہ شاید کارگر ثابت ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ سی پیک سے ہونے والی بچت کی پاکستان سے چین منتقلی، مگر یہاں بھی ایک بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ یہ بچت طاقت کے استعمال یا لینڈ ریوینیو (یا موجودہ کیس میں محصولات) کے ذریعے حاصل نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ خالصتاً قرضوں کی وصولی اور منافعوں کی صورت میں وصول کی جائے گی۔

صرف چین سے آنے والی سرمایہ کاری میں ہی نہیں بلکہ تمام غیر ملکی سرمایہ کاری میں ایسے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ جس طرح سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری کے بارے میں سن رہے ہیں اسی طرح کوریا اور یورپ سے پاکستانی مارکیٹ میں گاڑیوں کے صنعتکاروں کی آمد آمد ہے، اس کے ساتھ ساتھ ڈچ کمپنی بھی خوراک کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ اس کا مطلب ضروری طور پر یہ نہیں ہے کہ ہمارا ملک ’کالونائزیشن’ کی زد میں آ رہا ہے۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی جاری کردہ رپورٹ، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان سی پیک کے تحت 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاریوں کے عوض 90 ارب ڈالر ادا کرے گا، کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا اور ٹی وی پر بے چینی سے بھرپور تبصروں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔

رپورٹ بذات خود درست ہے اور ہر سال 3 ارب ڈالر کے حساب سے واجبات کا تخمینہ اتنا ہی ہے جتنا دیگر افراد پہلے لگا چکے ہیں۔ میں نے خود چند ہفتوں قبل شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں سی پیک کے واجبات پر تخمینہ لگایا تھا، اس میں بھی واجبات کی رقم 3 اعشاریہ 5 ارب ڈالر بنی تھی، جبکہ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کے تخمینے کے مطابق یہ رقم 3 ارب ڈالر بنتی ہے۔

مگر یہ کالونیل سطح کی بچت منتقلی نہیں ہے۔ اس کا قطعی طور پر مطلب یہ ہے کہ سی پیک کے تحت منصوبے مفت میں نہیں لگائے جا رہے ہیں، اور نہ ہی انہیں ’رعایتی’ تصویر کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اسے کسی ’تحفے کے گھوڑے’ کی طرح نہیں لینا چاہیے۔ سب سے ضروری بات جو یہ تخمینہ ظاہر کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں شرائط کے معاملات پر خیال رکھنے کی ضرورت ہے، اور منصوبے پر عمل درآمد کے ساتھ معاشی پیداوار اور اہلیت کو بڑھانے کے لیے مناسب اصلاحات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

سی پیک کو من و سلویٰ کی طرح سمجھنے، کہ اس کے نازل ہونے سے ہمارے تمام مسائل ہو جائیں گے، کے بجائے ایک موقعے کے طور پر دیکھنا بہتر ہوگا۔ سی پیک کو خود کفیل منصوبہ سمجھنا ایک بدترین غلطی ہے، کیونکہ سرمایہ کاریوں کو کسی بھی صورت میں واجبات کی خود بخود ادائیگی کے لیے اقتصادی سرگرمیوں کی ایک مطلوبہ سطح پیدا کرنے پڑے گی۔

یہ ایک غلطی ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو اور چونکہ حکومت اس مفروضے کی بنا پر کام شروع کر رہی ہے ایسے میں ہمارے لیے اس سے یہ پوچھنا لازمی ہے کہ اس نے سرمایہ کاری سے ہونے والے منافعوں کا حساب کس طرح لگایا ہے۔

یہ سوال بھی پوچھنا اہم ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کو دی جانے والی خصوصی مراعات سے ملکی صنعت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اور اس سوال کے ساتھ ہی شفافیت کا ایک بڑا سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ ابھی تک جس طرح منصوبے کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اور منصوبے کے حوالے سے جو بھی معلومات جاری کی جا رہی ہے وہ بڑے ہی محتاط انداز میں دی جا رہی ہے۔

واجبات کی ہی مثال لیتے ہیں۔ اس حوالے سے ابھی تک ہمیں واجبات کے صرف وہی اعداد نظر آ رہے ہیں جو کہ محض آزاد مشاہدہ کاروں کے تخمینے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے ہمیں سی پیک کے باعث غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر کسی قسم کے مممکنہ بوجھ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے اور آئی ایم ایف ہمیں ایک تخمینہ دیتی ہے کہ ہر سال مجموعی طور پر جی ڈی پی میں صفر اعشاریہ 4 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کسی ایک ادارے سے بھی منصوبے کی تفصیلات کا تبادلہ نہیں کر رہی ہے، نہ ہی کچھ واضح طور پر بتا رہی ہے کہ اس نے منصوبے سے جڑے واجبات کا تخمینہ کس طرح لگایا ہے۔ ہمارے پاس ہے تو صرف سرتاج عزیز کی جانب سے دیا گیا گمراہ کن بیان کہ سی پیک منصوبوں کے قرضوں پر دو فیصد سروس چارج عائد ہوں گے، جو کہ مجموعی منصوبوں کے صرف چوتھے حصے کے لیے درست ہے۔

وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فیس بک پر ایک پوسٹ کی کہ وہ ان افراد کی جانب سے سی پیک کے خلاف بے بنیاد اور تنگ نظر پروپیگنڈہ پر حیران ہوئے ہیں جو کہتے ہیں کہ چینی کمپنیوں کے لیے خصوصی زونز کیوں بنائے جا رہے ہیں۔ "اگر وہ کمپنیاں پاکستان آنے میں دلچسپی لے رہی ہیں تو اس میں پاکستان کو کون سا نقصان ہے؟"

جناب وزیر، نقصان دہ آپ کی اپنی حکومت کے غیر واضح پیغامات ہیں۔ ایک طرف ہم چینی کمپنیوں کے لیے زونز کے بارے میں سنتے ہیں اور دوسری طرف ہمیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ زونز ہر کسی کے لیے کھلے ہوں گے۔ تو یہاں بے بنیاد ہے کیا، ان افراد کا ’پروپیگنڈا’ جو صرف یہ سادہ سا سوال پوچھ رہے ہیں یا آپ کی اپنی حکومت کی جانب سے کروائی جانے والی یقین دہانی؟

اور کون زیادہ تنگ نظر ہے، وہ جو اس یقین پر غیر ملکی قرضوں میں ڈوب رہا ہے کہ مستقبل خود ان قرضوں کو ادا کرے گا یا وہ جو یہ پوچھ رہا ہے کہ اس سرمایہ کاری کے ساتھ کون سے واجبات ادا کرنے ہوں گے اور ان واجبات کی ادائیگی کا کون سا منصوبہ ہے؟

ہم سی پیک کے متعلق زیادہ پریشانی نہیں چاہتے ہیں مگر ہمیں سوالوں کے جوابات ضرور چاہئیں۔ ہم جب اس منصوبے کے بارے میں اپنا فہم ’ایسٹ انڈیا کمپنی’ جیسی اصطلاحوں میں مقید کر دیتے ہیں تو منصوبے کو دیکھنے کا طریقہ بالکل ہی بدل جاتا ہے اور یوں ہم درست سوالات مرتب نہیں کر پاتے۔

حکومت مزید تفصیلات کو منظر عام پر لا کر اور اپنے واضح جوابات دینے کے ساتھ چند بڑھتے خدشات اور بے چینی کو دور کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ ایک سوال کرنے والے پر ٖغصہ کرنا ایک حکومتی وزیر کا رویہ قطعی طور پر نہیں ہو سکتا۔

یہ مضمون 16 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

سید آصف جلال Mar 17, 2017 04:10pm
بہت اعلی مضمون ۔۔۔