سندھ میں پانی کی قلت پر صوبائی اراکین کی تشویش

28 مارچ 2017
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صوبائی اسمبلی سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: پی پی آئی
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صوبائی اسمبلی سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: پی پی آئی

کراچی: سندھ اسمبلی نے صوبے میں پانی کی قلت پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاق سے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جو زراعت، مویشیوں اور سندھ کی معاشی صورت حال پر برا اثر ہورہی ہے۔

صوبائی اسمبلی نے حکومت کو مذکورہ معاملے کو وفاقی حکومت کے ساتھ فوری اٹھانے کی تجویز دی تاکہ وہ متعلقہ اداروں کے حکام کو صوبے کی تشویشناک صورت حال کے حل کیلئے احکامات جاری کریں۔

سندھ اسمبلی نے وفاقی حکومت سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ جنوبی سوڈان میں اغوا کیے جانے والے پاکستانی انجینئر کی جلد اور بحفاظت واپسی کیلئے اپنے اور مقامی ذرائع کا استعمال کریں۔

سندھ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت اسیپکر آغا سراج درانی کررہے تھے، اور اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما نواب تیمور خان تالپور اور ڈاکٹر سکندر میندھرو کی جانب سے پیس کی گئیں دو قرار دادوں کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔

اس موقع پر سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے پانی کی کمی کے حوالے سے پیش کی گئی قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے گذشتہ ہفتے وفاقی حکومت کی توجہ پانی کی کمی کے مسئلے پر دلائی تھی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

انھوں نے پانی کی کمی کی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ حکام تربیلہ اورمنگلہ ڈیم کو مکمل طور پر پانی سے بھرنے نہیں دیتے جس کی وجہ سے سندھ کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

سندھ میں پانی کی کمی کے حوالے سے قرار داد پیش کرتے ہوئے نواب تیمور خان تالپور نے کہا کہ پانی کی کمی وجہ سے صوبے میں ذراعت کا نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے جبکہ اس سے مویشیوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ سندھ کو اس کے حصے کا پانی فراہم کرے۔

ادھر ڈاکٹر میندھرو کی جانب سے پاکستانی انجینئر ایاز جمالی کی رہائی کیلئے کوششیں کرنے کی قرار داد پیش کی گئی جس میں سندھ حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ وفاقی سے درخواست کرے کہ سفارتی ذرائع کے ذریعے پاکستانی شہری کی بحفاظت بازیابی کیلئے اقدامات کریں۔

متحدہ قائد سے منسوب یونیورسٹیز کے نام تبدیل

اس کے علاوہ سندھ اسمبلی نے متفقہ طور دو ترمیمی بل منظور کرتے ہوئے لندن میں مقیم متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی قائد الطاف حسین کے نام سے منسوب دو نجی یونیوسٹیز کے نام تبدیل کرنے کی منظوری دے دی۔

واضح رہے کہ ان میں سے ایک یونیورسٹی کراچی اور دوسری حیدرآباد میں قائم ہے۔

یاد رہے کہ دسمبر 2014 کو سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر کراچی اور حیدرآباد میں قائم ہونے والی دو نجی یونیورسٹیز کے نام کو الطاف حسین کے نام سے منسوب کرنے کی منظوری دی تھی، جن کی تعمیر ملک میں ریل اسٹیٹ کے شعبے سے وابستہ بزنس ٹائیکون ملک ریاض کے تحت چلنے والا ٹرسٹ کررہا تھا۔

سندھ کے سینئر وزیر نثار کھوڑو کی جانب سے دونوں نجی یونیورسٹیز کے ناموں کی تبدیلی کیلئے الطاف حسین یونیورسٹیز ایکٹ 2014 میں ترمیم کیلئے دو مختلف بل پیش کیے گئے۔

ایم کیو ایم پاکستان، جس نے بانی قائد کی جانب سے 22 اگست کو کی جانے والی پاکستان مخالف تقریر کے بعد سے ان سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا، نے بھی دونوں بلوں کی حمایت کی۔

مذکورہ ترمیمی بلوں کی منظوری کے بعد دونوں یونیورسٹیز کا نام تبدیل کرکے عبدالستار ایدھی اور محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

اس موقع پر نثار کھوڑو نے اسمبلی کو بتایا کہ الطاف حسین نے کہا تھا کہ وہ برطانوی شہری ہیں اور انھوں نے برطانیہ کا پاسپورٹ بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا تھا۔

سینئر وزیر کا کہنا تھا کہ متحدہ کے بانی قائد نے پاکستان کے وجود کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ایسی صورت حال میں کسی بھی صورت میں تعلیمی اداروں کا نام ایسے شخص سے منسوب نہیں کیا جاسکتا جو ملک کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہو۔

مزید پڑھیں: الطاف حسین یونیورسٹی کا نام تبدیل، ایم کیو ایم کی حمایت

نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ حال ہی میں میڈیا میں الطاف حسین کا ایک اور بیان رپورٹ ہوا ہے جس میں انھوں نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی ملک کے خلاف سازش کرے اور ریاست کے خلاف ہو تو ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے کو اس کے نام سے منسوب کردیا جائے۔

ظاہری طور پر نثار کھوڑو کے اس بیان کی حمایت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی فیصل سبزواری نے قیام پاکستان اور بعد ازاں مشرقی پاکستان کے موقع پر ہجرت کے دوران پیش کی گئی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ملک کی آبرو پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی لیکن ساتھ ہی افسوس کا اظہار کیا کہ مہاجروں کی واضح وفاداریوں کے باوجود ان پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کی بہتری کیلئے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا تاکہ کوئی مستقبل میں مہاجروں کے خلاف کسی بھی قسم کے برے برتاؤ کی شکایت نہ کرسکے۔

متحدہ کے رہنما نے واضح کیا کہ دونوں تعلیمی ادارے نجی یونیورسیٹز ہیں اور حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ حیدرآباد میں سرکاری یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا جائے۔

ادھر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور پاکستان تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی محتاب اکبر راشدی اور خرم شیرزمان نے یونیورسیٹز کے ناموں میں تبدیلی کے اقدام کو سراہا۔

اس کے علاوہ سندھ اسمبلی نے دیگر 5 ترمیمی بلوں کی منظوری بھی دی جن میں، سندھ ریونیو بورڈ بل، جیکب آباد انسٹیٹیوشن آف میڈیکل سائنس، سندھ ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کا بل، سندھ کوئلہ اتھارٹی بل اور سندھ شہید پہچان اور معاوضہ بل شامل ہیں، یہ بل بھی سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو کی جانب سے اسمبلی میں پیش کیے گئے۔

یہ رپورٹ 28 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں