نیوی کا 'فخر' جو ایڈم گلکرسٹ بن سکتا ہے

اپ ڈیٹ 23 جون 2017
فخر زمان—۔فائل فوٹو/ رائٹرز
فخر زمان—۔فائل فوٹو/ رائٹرز

ضلع مردان کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں کٹلانگ سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا فخر زمان اکثر پاکستان کا ایڈم گلکرسٹ بننے کا خواب دیکھتا تھا۔

وہ خود بھی اپنے پسندیدہ کرکٹر کی طرح لیفٹ ہینڈڈ بلے باز تھا اور بالکل اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی طرح اننگ کا آغاز کرنا اور گیند کو میدان سے باہر پھینکنا چاہتا تھا۔

مگر اپنے خواب کی تعبیر سے پہلے خاندان کی مشکلات اس کی راہ میں سامنے آگئیں۔

صرف 17 سال کی عمر میں فخر زمان کو گھر کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانا پڑی، یہ سال 2007 تھا جب ان کا خاندان شدید مالی مشکلات کا شکار تھا۔

اُس وقت اس نوجوان کو پاک بحریہ میں بطور سیلر شمولیت کے لیے ٹیسٹ کا حصہ بننا پڑا، اگرچہ وہ ٹیسٹ میں کامیاب ہونے کے بعد مناسب تنخواہ کی حامل ملازمت پر لگ گیا، مگر نوجوان فخر زیادہ خوش نہیں تھا، وہ سوچتا تھا 'میں یہ نہیں کرنا چاہتا جو میں کررہا ہوں

اس نے ایک سال تک پاک بحریہ میں سخت تربیت حاصل کی، صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے اٹھنا، میلوں تک دوڑنا، پھر اسکول جانا اور آخر میں شام کو کھیلنا۔

پہلے سال کے بعد اس نوجوان سیلر کو کراچی بھیج دیا گیا تاکہ پی این ایس کارساز اور پی این ایس ہمالیہ میں مزید تربیت حاصل کرسکے۔

اگرچہ فخر زمان نے پیشہ ورانہ امور کے لیے اپنے گھر کو چھوڑا تھا مگر کراچی نے اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔

پی این ایس کارساز میں فخر کی ملاقات ناظم خان سے ہوئی جو پاکستان نیول کرکٹ اکیڈمی کے کوچ تھے۔

فخر نے کرکٹ کھیلنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا اور ناظم نے اپنی اکیڈمی میں اس کا استقبال کیا۔

ناظم خان یاد کرتے ہیں 'میں نے میچ سے قبل اس کی قابلیت کے بارے میں پوچھا، اس نے مجھے بتایا کہ وہ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والا اوپننگ بلے باز ہے تو میں نے اسے اننگ اوپن کرنے کے لیے بھیج دیا، اس نے سنچری اسکور کی، میری نگاہوں نے اس کی صلاحیت کو پرکھ لیا تھا'۔

ناظم نے پھر فخر کو اعظم خان کی جانب بھیجا جو شہر میں نوجوان کرکٹ ٹیلنٹ کو بہتر بنانے اور پروموٹ کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

فخر نے اعظم خان کو متاثر کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیا اور اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں اپنے پہلے انٹر ڈسٹرکٹ انڈر 19 میچ میں نصف سنچری اسکور کی جس میں چار چھکے بھی شامل تھے۔

اُس وقت ناظم خان اس بات کے قائل ہوگئے کہ فخر کا مستقبل بحریہ کی ملازمت کے بجائے اسپورٹس میں چھپا ہے، انہوں نے فخر کو بطور سیلر ریلیز کرکے پاک نیوی میں بطور پروفیشنل اسپورٹس مین شامل کرنے کی درخواست دائر کی۔

فخر زمان کا خاندان اس پر فکر مند ہوگیا مگر ناظم اپنے خیال پر ڈٹے رہے، ان کی درخواست کو منظوری مل گئی اور فخر نے 2008 میں بطور پروفیشنل اسپورٹس مین نیوی میں شمولیت اختیار کی۔

ایک خصوصی شق فخر کے کانٹریکٹ میں شامل کی، جس کے مطابق انھیں بطور سیلر اُس وقت دوبارہ ہائر کیا جاسکتا تھا اگر وہ گریڈ کرکٹ میں ناکام رہتے۔

یہ بھی دیکھیں : فخر زمان نے سابق عظیم کپتانوں کو اپنا مداح بنا لیا

فخر نے فرسٹ کلاس لیول کا حصہ بننے سے پہلے کراچی انڈر 19 اور کراچی انڈر 23 کی نمائندگی کی۔

ناظم خان کے مطابق ' فخر بلاشبہ محنتی کرکٹر ہے اور اپنے کھیل کے لیے سخت محنت کرتا ہے'۔

اس کی ایک مثال وہ اَن گنت گھنٹے ہیں جو انھوں نے 95 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینکنے والی باﺅلنگ میشن کے ذریعے پل شاٹ کی پریکٹس کے لیے صرف کیے۔

مگر گھر میں مالی عدم تحفظ اور فیلڈ میں کچھ ناکامیاں اکثر فخر زمان کو اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے شبہات میں مبتلا کردیتیں، کیا یہ واقعی معنی رکھتا ہے؟ کیا وہ سراب کا تعاقب کررہا ہے؟ اُس وقت کیا ہوگا اگر وہ ناکام ہوگیا؟ اُس وقت کیا ہوگا اگر وہ کرکٹ میں نام نہ بنا سکا؟

اس مشکل دور میں فخر کے سرپرست اعظم خان نے انھیں سمجھایا، ہمت بڑھائی اور آگے بڑھایا، یہی وجہ ہے کہ فخر اب بھی اعظم خان کے شکرگزار ہیں۔

فخر کے مطابق 'ایسا کئی بار ہوا جب میں نے کرکٹ چھوڑنے کے بارے میں سوچا، ایک بار ایسا اُس وقت ہوا جب میں ایک سینئر ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ کھیل رہا تھا اور پہلے تین میچوں میں صرف 25 رنز بنا سکا، اعظم نے مجھے کہا کہ تم چاہے ڈک پر آﺅٹ ہو یا سنچری کرو، میں تمہیں ڈراپ نہیں کروں گا، اگلے تین میچز میں، میں نے لگاتار 150 رنز بنائے اور کراچی ڈسٹرکٹ کے اسکور بورڈ پر ٹاپ پر پہنچ گیا، وہ آخری وقت تھا جب میں نے کرکٹ چھوڑنے کا سوچا تھا'۔

اعظم خان کی سپورٹ کے باوجود فخر جلد ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے حوالے سے بے صبری کا شکار ہوا، انھوں نے ڈومیسٹک سرکٹ میں آگے بڑھنے کا آسان طریقہ ڈھونڈنے کی کوشش کی، جو ایسی غلطی ثابت ہوا جو انھیں واپس مردان لے جانے کا باعث بن گئی۔

فخر زمان کے بقول ' میں نے مردان کے لیے کھیلنے کی کوشش کی، میں اُس وقت ناسمجھ تھا، میرا خیال تھا کہ کراچی سے سلیکٹ ہونا مشکل ہوگا کیونکہ وہاں سخت مسابقت ہے، میں نے یہ نہیں دیکھا کہ مردان میں بھی بہت زیادہ کھلاڑی ہیں اور میرا خیال تھا کہ میں وہاں آسانی سے آگے چلا جاﺅں گا، مگر ایسا نہیں ہوسکا'۔

اعظم خان، فخر زمان کے کراچی چھوڑ کر جانے پر بہت غصہ ہوئے اور 6 ماہ تک ان سے بات نہیں کی، مگر جب بات کی تو انہوں نے فخر کو کراچی واپس آنے کا مشورہ دیا، 'اعظم بھائی نے کہا کہ اگر تم کراچی کی جانب سے کھیلو اور کارکردگی دکھاﺅں، تو آسانی سے توجہ حاصل کرسکتے ہو، میڈیا بھی ان کھلاڑیوں کو سپورٹ کرتا ہے'۔

فخر زمان 2011 میں کراچی واپس آئے، اگلے سال پاکستان آسٹریلیا میں ہونے والے انٹرنیشنل ڈیفنس کرکٹ چیلنج 2012 میں ڈیبیو کررہا تھا، جو کہ فورسز کے اہلکاروں کا ورلڈ کپ سمجھا جاسکتا ہے، فخر نے اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچانے میں مدد دی اور پاکستان کپ کے ساتھ وطن واپس آیا۔

یہ فخر کی نیوی کے ساتھ آخری کرکٹ اسائنمنٹ ثابت ہوئی، انھوں نے 2013 میں پروفیشنل کرکٹر کی حیثیت سے نیوی کو خیرباد کہا اور حبیب بینک لمیٹڈ کو جوائن کرلیا۔

فخر بتاتے ہیں 'جب میں نیوی میں تھا، تو پی این ایس کارساز کے اندر رہائش پذیر تھا، سروس چھوڑنے کے بعد میں ایک دوست کے اپارٹمنٹ میں 2 ماہ تک رہا'۔

یہ بھی پڑھیں : پاک بحریہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم کا فخر

اگرچہ وہ کرکٹ کھیلنے کے اپنے خواب کی تعبیر پارہا تھا، مگر باہری زندگی کے اپنے چیلنجز تھے۔

اوپننگ بیٹسمین کے مطابق 'جب میں اس وقت کراچی گیا تو میں نے منگھو پیر میں واقع ایک اکیڈمی میں قیام کیا، ہم میں سے تین یا چار لوگ اکثر اوقات ڈریسنگ روم یا دیگر کمروں میں سوجاتے اور اگر باہر کا موسم خوشگوار ہوتا تو میں کھلے آسمان تلے سونے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کرتا'۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 31.31 کی متاثر کن اوسط کے باوجود فکر زمان کو پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن کے لیے نظرانداز کیا گیا، وہ ایمرجنگ پلیئرز کی کیٹیگری میں ڈرافٹ کا حصہ تھے مگر گزشتہ سال کسی نے بھی انھیں منتخب نہیں کیا۔

مگر جب پاکستان کپ میں فخر زمان کو یونس خان کی کپتانی میں کھیلنے والی خیبرپختونخوا کی ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا تو انھوں نے 59.4 کی اوسط سے پانچ میچوں میں 297 رنز اسکور کیے، جس کے دوران انھوں نے احمد شہزاد کے ساتھ اوپننگ کی اور دونوں بلے باز پورے ٹورنامنٹ میں باﺅلرز پر چھائے رہے۔

فائنل میچ میں فخر زمان نے مین آف دی میچ پرفارمنس دیتے ہوئے 111 گیندوں پر 115 رنز کی شاندار اننگ کھیلی، 'میں اس کارکردگی کا تمام کریڈٹ احمد شہزاد کو دیتا ہوں، وہ بہت اچھے اسٹروک میکر ہیں، چونکہ وہ دوسری جانب سے اچھا اسکور کررہے تھے تو مجھے کسی قسم کے دباﺅ کا سامنا نہیں ہوا، انہوں نے مجھے کوئی خراب شاٹ نہ کھیلنے کا مشورہ دیا اور اسکور بورڈ آگے بڑھانے کا کہا'۔

پاکستان کپ میں اس کارکردگی کو نیوی میں ان کے ٹرینر اور کوچ ناظم خان نے بھی سراہا 'وہ پہلے سے بھی زیادہ بہتر ہوگیا ہے، وہ پہلے دائیں جانب زیادہ کھیلنے کا عادی اور خطرہ مول لینے والا پلیئر تھا، مگر یہ دیکھنا خوشگوار ہے کہ اس نے اب اپنی اننگز میں 65 فیصد رنز آف سائیڈ پر اسکور کیے اور خطرہ مول لیے بغیر کھیلا، میں اسے سعید انور بنانا چاہتا تھا، مگر سعید انور اپنے وقت کے سعید انور تھے اور یہ اس عہد کا فخر ہے'۔


یہ مضمون 16 اکتوبر 2016 کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا تھا

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں