رمضان میں گیمز شو کی بھر مار کیوں؟

اپ ڈیٹ 23 جون 2017
— گیم شو ہوسٹ وسیم اکرم اور شعیب اختر
— گیم شو ہوسٹ وسیم اکرم اور شعیب اختر

رمضان میں ہر روز سینکڑوں افراد پرجوش انداز سے مختلف آڈیٹوریمز کا رخ کرتے ہیں اور سورج غروب، افطار ختم ہونے اور گیمز شروع ہونے پر خوشی مناتے ہیں۔

شو کا میزبان مرکزی ایرینا میں نکلتا ہے، ایسا وینیو جو اسلامی طرز تعمیر سے متاثر ہوتا ہے۔

میزبان مسکراہٹ کے ساتھ بازو لہراتا ہے، کیمروں کو اس کے فینسی کرتے شلوار کے لانگ شاٹ کے ساتھ پھیپھڑوں کی پوری قوت سے پکارتا ہے 'السلام و علیکم پاکستان'، اور پھر مجمع بھی اس کے ساتھ چلاتا ہے۔

رمضان ٹرانسمیشن کے ساتھ ٹیم گیم شوز پاکستان میں ایک نیا اور منفرد رجحان ہے، مگر ایسا ملک جہاں خوراک اور رہائشی سہولیات متعدد کے لیے نایاب ہے، وہاں ان شوز میں گاڑیاں، موٹرسائیکلیں، متعدد تولہ سونا اور اس سال تو بی ایم ڈبلیو اور جیٹ طیارے دینا ایک حیران کن عنصر ہے۔

بس ہر ایک کو کسی پہیلی کا جواب دینا ہوتا ہے یا تیز رفتاری میں مشکل جملے بولنا ہوتے ہیں، گانا گانے سمیت کسی کے چہرے پر عام، جوس، کیک، گول گپے ملنا وغیرہ بھی ہوتا ہے۔

یہاں ایسے بھی گیمز ہیں جہاں زیادہ جسمانی وزن والے افراد جیتے ہیں اور ہینڈ ریسلنگ ، دوڑ یا چیخنے کے مقابلے میں دیگر کی قسمت چمکتی ہے۔

ڈان کی ایک خصوصی رپورٹ میں اس رجحان کے مختلف پہلوﺅں میں روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ اے آر وائی نیٹ کے ہوسٹ فہد مصطفیٰ آپ کو گاڑی انعام میں دے سکتے ہیں اور پھر اس کی چھت پر کھڑے ہوکر ڈینٹ بھی ڈال سکتے ہیں۔

اگر وہ میزبان ساحر لودھی ہو اور آپ کوئی خاتون، تو موٹرسائیکل کا حصول آسان نہیں ہوتا، ساحر لودھی کو لگتا ہے کہ یہ رمضان میں تفریح کا باعث ہے کہ وہ سیٹ میں یہاں سے وہاں دوڑیں اور لڑکیاں انہیں پکڑنے کی کوشش کریں، اگر کوئی ایسا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اپنے احترام سے تو محروم ہوتی ہے مگر بڑا انعام جیت لیتی ہے۔

رمضان کی مذہبی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے عمرہ پیکجز کے انعامات بھی اکثر دیئے جاتے ہیں، اس سے بہتر انعام کوئی اور ہو نہیں سکتا اور گیم شو کے ناظرین اس کے لیے ڈانس، گانے اور اپنی تذلیل کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔

مزید پڑھیں : رمضان ٹرانسمیشن میں ستاروں کے اسٹائل

پاکستان میں اس سال سب سے زیادہ ہائی ریٹنگ والے گیم شو جیتو پاکستان میں فہد مصطفیٰ نے ایک خاتون کو ناظرین میں سے منتخب کیا جس نے چمکدار کاغذ والا ہیٹ پہن رکھا تھا جس پر ہیپی برتھ ڈے لکھا ہوا تھا۔

فہد نے ہنستے ہوئے پوچھا ' یہ آپ کیا پہن کر آئی ہیں؟'، اس خاتون نے جواب دیا ' آج میری سالگرہ ہے'۔

فہد مصطفیٰ ایک گاڑی انعام میں دیتے ہوئے
فہد مصطفیٰ ایک گاڑی انعام میں دیتے ہوئے

اب یہ بات سچ ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر یہ ٹرک کام کرگئی اور فہد مصطفیٰ کی نظر میں آگئی اور اس خاتون کو ایک گیم میں حصہ لینے کا موقع مل گیا جہاں وہ بڑا انعام جیت سکتی تھی۔

یہ کوئی نیا نہیں، گیم شو کے لیے لوگ اکثر چمکدار اور شوخ رنگوں کو پہن کر یا پلے کارڈ تھامے آتے ہیں جن میں شو کے لیے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ حلیہ کام بھی کرتا ہے اور میزبان کی توجہ بھی حاصل کرلیتا ہے، جب وہ گیمز کے لیے لوگوں کا انتخاب کررہا ہوتا ہے۔

یہاں ایسے بچے بھی آئے جنھوں نے اسپائیڈر مین کاسٹیوم پہن رکھا تھا، مرد مختلف رنگوں کی قمیضوں اور خواتین عروسی ملبوسات میں نظر آئیں۔

اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے سی ای او Jerjees Seja کے مطابق ' لوگ یہاں تفریح کے لیے آتے ہیں اور ہم ہر سال نئے گیمز کا اضافہ کرتے ہیں تاکہ چیزوں کو دلچسپ رکھا جاسکے، روزانہ لگ بھگ پانچ سو افراد شو میں شریک ہوتے ہیں اور ہر ایک کوئی بڑا انعام نہ بھی جیت سکے تو بھی اسپانسرز کے تحائف کے ساتھ واپس جاتا ہے۔ ہم ضرورت پڑنے پر انعامات کو تبدیل بھی کرتے ہیں۔ ماضی میں ہم عمرہ ٹکٹ لوگوں کو دیتے تھے، مگر بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ سفری اخراجات اتنے زیادہ ہین کہ متعدد افراد ان ٹکٹوں کو استعمال کرنے سے قاصر رہتے ہیں، تو اب ہم عمرہ پیکجز دیتے ہیں جن میں سفری، کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات شامل ہوتے ہیں، اگر ہم کسی خاتون کو ٹکٹ دیتے ہیں تو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کے ساتھ کسی مرد کو بھی دیں جو کہ عمرہ کی ضروریات کا حصہ ہے، ہمارا مقصد ان شوز کے ذریعے ماہ رمضان کے دوران خوشیاں تقسیم کرنا ہے اور ہم اس وقت مسرت ہوتی ہے جب ہم ہر روز شو سے واپس جاتے ہوئے خوش دیکھتے ہیں'۔

ریٹنگ ریس

ایثار کا یہ جذبہ قابل ستائش ہے مگر اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کامیاب رمضان ٹرانسمیشن چلانے والے چینیلز کو بہت زیادہ منافع بھی ہوتا ہے۔ اے آر وائی نیٹ ورک رمضان کو سال کا سب سے پرکشش مہینہ قرار دیتا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس مہینے میں گیم شو کے دوران اشتہاری وقفے میں چینیلز کی آمدنی پانچ لاکھ روپے فی منٹ تک پہنچ جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور منافع بخش مقصد بھی فہد بھائی، عامر بھائی اور وسیم بھائی سمیت دیگر کو ان شوز میں ہر شام پورے مہینے کام کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ مقبول گیم شوز کے میزبان بھی بہت زیادہ کماتے ہیں، جیسے فہد مصطفیٰ نے اپنی تنخواہ کا انکشاف کیے بغیر بتایا ' میں اس وقت سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا گیم شو ہوسٹ ہوں'۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، جنھیں 2012 میں جیو ٹی وی پر انعام گھر کی شکل میں رمضان گیم شو شروع کرنے کا کریڈٹ جاتا ہے، بھی آمدنی کے لحاظ سے کافی اوپر ہیں۔

عامر لیاقت حسین
عامر لیاقت حسین

عامر لیاقت ایک سے دوسرے نیٹ ورک میں جاتے رہتے ہیں اور اس سال بول ٹی وی میں میزبانی کی، جہاں انہوں نے مرسڈیز گاڑی اور جیٹ طیاروں سمیت دیگر انعامات تقسیم کیے۔

یہ سب ٹی وی پر تو بہت پرتعیش لگتا ہے مگر اکثر افراد حیران ہوتے ہیں کہ انعام جیتنے والے متعدد افراد کمزور مالی پس منظر کے رکھتے ہیں، وہ ان پرتعیش اشیاءپر عائد ٹیکس کیسے ادا کرتے ہیں؟

عامر لیاقت اعتراف کرتے ہیں ' یقیناً ہم جانتے ہیں کہ جیتنے والے ممکنہ طور پر ان پرتعیش گاڑیوں اور جیٹ طیارے کا استعمال نہیں کرسکیں گے، جس کے لیے انہیں جاننا ہوگا کہ کس طرح پرواز کی جاتی ہے، ہمارا اس طرح کے انعامات دینے کا مقصد نچلے طبقے کے افراد کو انہیں فروخت کرکے اپنے طرز زندگی کو بہتر کرنے میں مدد دیتا ہے'۔

دیگر نیٹ ورکس میں کم مہنگے انعامات دیئے جاتے ہیں اور ان کا نکتہ نظر مختلف ہے، جیسے اے آر وائی کے Jerjees Seja کہتے ہیں ' ہمارے گیم شو میں کسی ایک فرد کو مہنگی ترین گاڑیاں دینے کی بجائے ہم دس گاڑیاں یا ساٹھ موٹرسائیکلیں دینا پسند کریں گے، یہ وہ انتخاب ہے جو ہم نے پسند کیا ہے، اسپانسرز کی جانب سے پرتعیش گاڑیوں کی پیشکش ہمیں کی جاتی ہے کیونکہ ہمارا شو سب سے زیادہ ریٹنگ لے رہا ہے مگر ہم نے کچھ اور سوچ کر فیصلہ کرتے ہیں'۔

آن ائیر لوگوں کی توہین اس سال بھی دیکھنے میں آئی جیسے ساحر لودھی نے اپنے شو عشق رمضان میں حقوق نسواں پر بولنے والی ایک خاتون پر تنقید کی۔

درحقیقت ساحر لودھی اتنی روانی سے بات کررہے تھے کہ شک ہوتا ہے کہ یہ سب شو کی مارکیٹنگ کے لیے پہلے سے سوچا سمجھا منصوبہ تھا، اگر ایسا تھا تو یہ کام کرگیا۔

اس واقعے کے فوری بعد یہ شو لوگوں کی توجہ میں آیا، ایسا بھی کہا جارہا ہے کہ جس خاتون کو ساحر لودھی کی باتوں کا سامنا ہوا یعنی صبا رضوان، وہ رمضان کے بعد نشر ہونے والے ایک شو کی میزبانی کرنے والی ہے۔ تمام پبلسٹی لگتا ہے کہ اچھی پبلسٹی ثابت ہوئی۔

اور پھر معروف کرکٹرز وسیم اکرم اور شعیب اختر بھی ہیں، جنھوں نے جیو ٹی وی پ جیو کھیلو پاکستان نامی گیم شو کی میزبانی کا فیصلہ کیا جس کے لیے انہوں نے مختلف بہروپ بھی بدلے جن میں مولا جٹ اور نوری نت بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : رمضان نشریات میں اب کیا پیش کیا جائے گا؟

اس گیم شو میں مضحکہ خیز گیمز کھیلے جاتے ہیں جن میں سے خصوصاً وہ قسط تھی جس میں ایک داڑھی والے مرد نے گلابی ساڑھی پہنی۔

یہ واضح ہے کہ وسیم اور شعیب ہر ممکن کوشش کررہے ہیں مگر کامیاب نہیں ہورہے، اس طرح کا مزاح رمضان شوز کی میزبانی کے لیے ضروری نہیں کہ ہر ایک بخوبی طریقے سے کرسکے اور یہ دیکھنا افسوسناک ہے کہ ملک کے دو آئیکونک کرکٹرز جدوجہد کا شکار ہیں۔

جیو کے رمضان 2017 کے پراجیکٹ ہیڈ عثمان غفور اس سے اتفاق نہیں کرتے ' وسیم اور شعیب اپنے کرکٹ کیرئیرز کے ذریعے لاکھوں پاکستانیوں کی خوشی کا ذریعہ بنے، ہم پراعتماد ہیں کہ وہ گیم شو میں بھی ایسا کرین گے۔ ہمارے لیے تو وہ آل راﺅنڈ انٹرٹینر ہیں، وہ صرف کرکٹرز نہیں بلکہ وہ اپنے نئے کرداروں میں اچھی طرح ڈھل گئے ہیں، اس شو کا اچھا استقبال ہوا ہے'۔

وسیم اکرم اس بارے میں کہتے ہیں ' میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمیں خود سے لطف اندوز ہوتے کیوں نہیں دیکھ سکتے، میں بھی انسان ہوں، اس شو کی میزبانی کا فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا، میں کچھ نیا کرنا چاہتا تھا اور میرے خیال میں وقت کے ساتھ شعیب اور میں اس کا حصہ بن رہے ہیں'۔

یہ مضمون 18 جون کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا اسے پورا پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Sarmad Hassan Jun 22, 2017 12:11am
Every thing will be sailed for Money. Name respect honor and everything. Sad to know they r muslims
ارم صدیقی Jun 22, 2017 12:19pm
جو طبقہ ان تماشوں میں شرکت کرتا ہے انکے لیے کوی تفریح نہیں ہے-یہ تماشے پورے خاندان کو تفریح اور تحایف فراہم کرتے ہیں۔ لیکن کھیلوں میں تضحیک نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا کے دیگر ممالک مں بھی ٹی وی چینلز پرگیم شور ہوتے ہیںاور بھاری انعامات دیے جاتے ہیں لیکن کھیل تخلیقی اور تضحیک پاک ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں جو ادارے گیم شوز میں تحایف بانٹتے ہیں کیا وہ اپنے ملازمین کا بھی اتنا خیال رکھتے ہیں جتنی فکر انہیں غریب عوام کے مالی حالات درست کرنے کی ہے۔جو چینلز یہ پروگرام نشر کرتےہیں وہ اخلاق سے اتنے عاری ہیں کے اذان مغرب سے پہلے گانوں والے اشتہار نشر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔