سندھ میں کراچی کے ساحلی علاقے کیماڑی سے روانہ ہونے والے آئل ٹینکر کو 25 جون کی صبح ساڑھے 6 بجے صوبہ پنجاب میں اس وقت حادثہ پیش آیا جب وہ ویہاڑی کی جانب گامزن تھا، حادثے کے نتیجے میں ٹینکر الٹ گیا جبکہ اس میں موجود آئل احمد پور شرقیہ سے 6 کلومیٹر دور واقع گاؤں سفیر والا کے نزدیک سڑک اور قریبی کھیتوں میں پھیل گیا۔

شیل پاکستان کی جانب سے آئل گیس اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو جمع کرائی گئی واقعے کی 'ابتدائی رپورٹ' کے مطابق پیٹرول کا ٹینکر نمبر TLJ-352 کراچی کی مروت انٹرپرائزز ٹرانسپورٹ کمپنی سے کنٹریکٹ پر روانہ ہوا تھا جس میں 50 ہزار لیٹر کی گنجائش تھی، جبکہ یہ ٹینکر پیٹرول لے کر سفر کررہا تھا۔

رپورٹ میں 'ٹینکر کے الٹنے کو تیل کے پھیلاؤ اور آتشزدگی کی وجہ' قرار دیا گیا ہے جس میں 130 سے زائد افراد ہلاک، 100 کے قریب زخمی، 75 موٹر سائیکلیں اور 3 گاڑییں جل کر خاکستر ہوگئیں، بعد ازاں زخمیوں کے دم توڑنے کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 170 سے تجاوز کرگئی۔

اس خوفناک سانحے کے بعد ملک بھر میں اداسی کی فضا چھا گئی، جبکہ حکام یہ سوچنے پر مصروف ہوگئے کہ غلطی کہاں ہوئی، کئی نے اس کا ذمہ دار جائے حادثہ پر ہجوم کی صورت جمع ہونے والے تماشائیوں کو ٹھہرایا۔

مزید پڑھیں: بہاولپورحادثے میں 150 سے زائد افراد ہلاک

لیکن اس سانحے کے بعد کئی سوالات اٹھتے ہی، کیا حادثے کا شکار ہونے والا ٹینکر خطرناک مواد لے جانے کے لیے درست حالت میں تھا؟

اور یہ بھی کیا آئل کمپنیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جس ٹینکر میں فیول لادا جارہا ہے وہ اس کے قابل ہے؟

شیل کمپنی نے واقعے کی اہم وجوہات کو کچھ یوں بیان کیا کہ آئل ٹینکر 35 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کررہا تھا (شیل کے پاس بطور ثبوت ٹریکر رپورٹ موجود ہے) جو محفوظ رفتار کی حد میں ہے۔

شیل کو حاصل ہونے والی ابتدائی معلومات کے مطابق ایک مسافر بس نے ٹینکر کو اوور ٹیک کرنے کے بعد اس کے سامنے تیزی سے بریک لگائی، مسافر بس سے تصادم سے بچنے کے لیے آئل ٹینکر کے ڈرائیور نے گاڑی کو سڑک کی بائیں جانب لے جانے کی کوشش کی اور اسی دوران ٹینکر الٹ گیا۔

پیٹرولیم کمپنی کا مزید کہنا تھا کہ 'بدقسمتی سے خطرے کو نظرانداز کرتے ہوئے قریبی گاؤں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد گرنے والا تیل بالٹیوں اور بوتلوں میں بھرنے کے لیے ٹینکر کے گرد جمع ہوگئی، حادثے کے بعد مقامی ٹریفک انتظامیہ کی صورتحال پر قابو پانے کی کوششوں کے باوجود افراتفری پھیل گئی جو اس اندوہ ناک سانحے کا سبب بنی'۔

سیکڑوں افراد کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہونے والے اس سانحے کی قومی میڈیا پر کوریج کے بعد شیل پاکستان کے مینجنگ ڈائریکٹر جواد چیمہ نے کمپنی کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا، جس میں حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین سے اظہار تعزیت کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ 'کراچی کے کیماڑی میں واقع شیل آئل ٹرمینل سے ویہاڑی ایندھن لے کر جانے والا ٹینکر مروت انٹرپرائزز کی ملکیت تھا'۔

خیال رہے کہ مروت گروپ نے ڈان کی درخواست کے باوجود اپنا ردعمل نہیں دیا تاہم گاڑیوں کی صنعت سے وابستہ ایک ماہر کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والا ٹینکر مناسب حالت میں نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بہاولپور: آتشزدگی سے ہلاک 125 افراد کو دفنادیا گیا

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ماہرین نے بتایا کہ اگر ہم نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کے تحت لوڈ فی ایگزل کے بہت بنیادی معیار کو دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ٹینکر اوور لوڈ ہونے کی وجہ سے غیرمستحکم تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹینکر بھی ضرورت کے مطابق متوازن نہیں تھا، 50 ہزار لیٹر کے ٹینک ٹریلر کے 22 پہیے ہونا ضروری ہیں جبکہ اس ٹینکر کے صرف 14 پہیے تھے۔

ایکسپرٹ کے مطابق ٹینکر اوگرا اور خطرناک اشیاء کی ترسیل کے بین الاقوامی معاہدے اے ڈی آر کے قوانین کی بھی خلاف ورزی کررہا تھا، 'ٹینکر میں اوگرا اور اے ڈی آر کے تحت ضروری مین ہولز کوور درست نہیں تھے جبکہ ٹینک کے اوپر رول اوور کومنگ پروٹیکشن بھی موجود نہیں تھی، نہ ہی ٹینکر میں اے بی ایس بریک تھے جبکہ اس کے بنیادی بریکس ہی ناقص معیار کے تھے'۔

ان تمام باتوں کے برعکس مروت گروپ کا اپنی ویب سائٹ پر یہ مؤقف برقرار ہے کہ وہ اپنی گاڑیاں اے ڈی آر معیار کے مطابق رکھنے کے لیے کوشاں ہیں، گروپ کے کلائنٹس میں شیل پاکستان لمیٹڈ، پاکستان اسٹیٹ آئل لمیٹڈ، بی ایچ پی بلیٹن، اٹک ریفائنری لمیٹڈ، پاک عرب ریفائنری، ایس ایچ وی انرجی، پاکستان گیس اینڈ ٹوٹل پارکو لمیٹڈ شامل ہیں.

مروت گروپ کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق 'ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹریلرز سمیت ہمارے بیڑے میں شامل ہونے والی تمام نئی گاڑیاں اے ڈی آر کے معیار کے عین مطابق ہوں گی'.

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیل کے ساتھ مل کر پرانی گاڑیوں کو نئی گاڑیوں سے تبدیل کرنے کی تیاریاں کی جا چکی ہیں، جو اے ڈی آر کے ساتھ ساتھ شیل پاکستان لمیٹڈ کی اضافی ضروریات کے عین مطابق ہوں گی، جو ہمارے اپنے معزز کلائنٹس کو جدید اور محفوظ انداز میں سہولیات فراہم کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، علاوہ ازیں پرانی گاڑیوں کو اپ گریڈ کرنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں.

ویب سائٹ پر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ معلومات کب پوسٹ کی گئی ہے، گاڑیوں میں یہ اپ گریڈیشن کی جاچکی ہیں یا نہیں تاہم ساتھ میں یہ بھی درج ہے کہ 'ٹریلرز کو اے ڈی آر کے مطابق تیار کرنے کے ضمن میں آٹوموبائل کارپوریشن آف پاکستان (اے سی پی) کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہیں'.

ویڈیو دیکھیں: بہاولپور: آئل ٹینکر حادثے سے قبل کے مناظر

اس سوال کے جواب میں کہ کیا بہاول پور سانحے کا ٹینکر اے سی پی کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا، کمپنی کے سربراہ خیام حسین کا کہنا تھا کہ 'ہم مروت انٹرپرائزز کو ٹینک ٹرکس فراہم نہیں کرتے وہ اپنے ٹرک خود تیار کرتے ہیں'.

خیام حسین کے مطابق 'ہم اے ڈی آر کے معیار کے تحت ٹینک ٹریلر تیار کرتے ہیں، شیل، ٹوٹل، ہیسکول کی تمام برانڈڈ گاڑیاں ہماری تیار کردہ ہیں، حادثے کے نتیجے میں محفوظ ترین گاڑی میں سے بھی آئل پھیل سکتا ہے تاہم معیار حادثات میں کمی لانے کے لیے برقرار رکھا جاتا ہے'.

عملدرآمد کے مسائل کی وضاحت دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اوگرا قوانین 2009 میں بنائے گئے جو اقوام متحدہ کے اے ڈی آر معیار کے متوازی تھے تاہم اوگرا کے پاس ان قوانین پر عملدرآمد کرانے کے ذرائع موجود نہیں، شیل اور ٹوٹل کا معیار اوگرا سے بلند ہے، ان کے نئے ٹرکس میں الٹنے سے بچانے والا خودکار آلہ برقی طور پر نصب ہوتا ہے.

پیٹرولیم کمپنی کے سابق ایگزیکٹیو کا ڈان کو بتانا تھا کہ 'آئل کمپنیاں اکثر اوقات کارٹیج کنٹریکٹرز کا حصہ بنتی ہیں جو حفاظتی معیار کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، یہ مخصوص ٹینکر معیار سے عدم مطابق تھا جو حفاظتی معیار کے خلاف اور سرار غفلت ہے، متعلقہ کمپنی کو ایسے غیر معیاری ٹینکر میں پیٹرول کی ترسیل نہیں کرنی چاہیے تھی'.

ذمہ داری اور توجہ

ترجمان اوگرا عمران غزنوی کہتے ہیں کہ اوگرا کی جانب سے انکوائری کا آغاز کیا جاچکا ہے اور چند دن میں رپورٹ موصول ہوجائے گی.

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے معاملے کی تحقیق کے لیے تھرڈ پارٹی انسپکٹر مقرر کیے ہیں، شیل کی جانب سے ہمیں جواب موصول ہوچکا ہے تاہم ہمارے انسپکٹرز کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد ہم آگے پیش رفت کریں گے'.


یہ خبر 29 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 29, 2017 04:04pm
ٹینکر بھی ضرورت کے مطابق متوازن نہیں تھا، 50 ہزار لیٹر کے ٹینک ٹریلر کے 22 پہیے ہونا ضروری ہیں جبکہ اس ٹینکر کے صرف 14 پہیے تھے۔ پھر تو اس نے گرنا ہی تھا اسی طرح یہ شیل پاکستان، پی ایس او، بی ایچ پی بلیٹن، اٹک ریفائنری لمیٹڈ، پاک عرب ریفائنری، ایس ایچ وی انرجی، پاکستان گیس اینڈ ٹوٹل پارکو لمیٹڈ کو سروس دے رہے ہیں مزید حادثات کا خدشہ!!!!!!!!!!.