واشنگٹن: جنوری 2011 میں لاہور میں دو افراد کو قتل کرنے والے امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ شجاع پاشا ان کی رہائی کی ڈیل کامیاب بنانے میں 'واضح طور پر مصروف عمل' تھے۔

اپنی کتاب 'The Contractor: How I Landed in a Pakistani Prison and Ignited a Diplomatic Crisis' میں ڈیوس لکھتے ہیں کہ اصل وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ کو تبدیل کرنے کے ذمہ دار بھی جنرل شجاع پاشا ہی تھے۔

واضح رہے کہ اسد منظور بٹ یہ مقدمہ بلامعاوضہ لڑ رہے تھے۔

ریمنڈ ڈیوس وضاحت کرتے ہیں کہ خون بہا کے عوض ان کی رہائی کا منصوبہ متاثرین کے اہل خانہ کے 18 افراد کی خاموشی پر منحصر تھا اور 'آئی ایس آئی کے ایجنٹس نے لواحقین پر دیت وصول کرنے کے لیے جس قدر دباؤ ڈالنا ضروری تھا ڈالا'۔

کتاب میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ 'پہلے وکیل استغاثہ کی مدد سے کچھ لواحقین نے اس منصوبے کی مخالفت کی کوشش کی جن میں سے ایک مقتول محمد فہیم شمشاد کا بھائی وسیم شمشاد تھا جو بعد ازاں 'کئی ہفتوں تک نظر نہیں آیا'۔

اختلاف رائے کرنے والے دوسرے شخص برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے وکیل مشہود الرحمٰن تھے جن کا بھائی اُس گاڑی کی زد میں آ کر ہلاک ہوا تھا جو ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لیے آئی تھی۔

ریمنڈ ڈیوس کے مطابق مقتولین کے اہل خانہ کو بنیاد پرست اسلام پرستوں اور سخت گیر اسلامی ایجنڈے کی حمایت کرنے والے وکیل سے علیحدہ کرنے کے لیے 14 مارچ 2011 کو آئی ایس آئی کے کارندوں نے مداخلت کی اور تمام 18 اہل خانہ کو حراست میں لے لیا گیا۔

مزید پڑھیں: 2پاکستانیوں کا قتل،امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی واقعے پر کتاب

امریکی جاسوس نے اپنی کتاب میں مزید لکھا کہ 16 مارچ کے ٹرائل، جس میں میری قسمت کا فیصلہ ہونا تھا، سے دو روز قبل وکیل اسد منظور بٹ تمام لوحقین سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام ہوگئے، جبکہ ان افراد کے ہمسایوں نے بھی ان کے غائب ہوجانے کی تصدیق کی۔

اس ڈیل کی مخالفت کرنے والے مقتول فیضان حیدر کے کزن اعجاز احمد نے شکایت کی کہ ان کے دروازوں کو قفل لگادیئے گئے ہیں جبکہ ان افراد کے تمام فونز بھی بند کیے جاچکے ہیں۔

ریمنڈ ڈیوس کا دعویٰ ہے کہ 16 مارچ کی کارروائی سے قبل رات کے اوقات میں آئی ایس آئی ایجنٹس متاثرین کے اہل خانہ کو کوٹ لکھپت جیل لے گئے جہاں انہیں معاہدے پر منظوری کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کی گئی، ان افراد کو کہا گیا کہ اگر وہ ریمنڈ ڈیوس کو معاف کردیتے ہیں تو بدلے میں انہیں بھاری رقم ادا کی جائے گی۔

کتاب میں لکھا ہے کہ 'اگر اہل خانہ ایسا نہیں کرتے تو عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور خبردار کیا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں'۔

ریمنڈ ڈیوس کے مطابق 'اگلے روز جب وکیل اسد منظوربٹ جیل آئے تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کیا گیا، اسد منظور بٹ اپنے مؤکلین کو نہ ہی دیکھ سکے اور نہ ان سے بات چیت کرسکے'۔

امریکی جاسوس کے مطابق 'مقتولین کے عزیزوں کو جب 16 مارچ کو عدالت میں لایا گیا اس وقت ان کے چہروں پر اپنے وکیل تک رسائی حاصل نہ کرسکنے کا صدمہ اور زبردستی معاہدے کو منظور کرائے جانے کا دباؤ واضح تھا'۔

لاہور میں اس وقت کی امریکی کونسل جنرل کارمیلا کونرے جن کا نام کتاب میں شامل کیا گیا ہے، نے محسوس کیا کہ 'خواتین اس ڈیل کو بہت مشکل سے قبول کر پائی تھیں، چند خواتین کی آنکھوں میں آنسو تھے، کچھ سسکیاں بھرتی دکھائی دے رہی تھیں'۔

نئے وکیل استغاثہ راجا ارشاد نے جج کے سامنے وہ دستخط شدہ دستاویز رکھی جس کے مطابق دونوں متاثرین کے 18 قانونی ورثاء کم از کم کاغذ پر ریمنڈ ڈیوس کو معاف کرنے کے لیے رضامند ہوگئے تھے۔

ریمنڈ ڈیوس نے مزید لکھا ہے کہ 'اس کے بعد جج نے ورثاء کو اپنی شناخت ثابت کرنے کا کہا اور ان سب کو 1 لاکھ 30 ہزار ڈالر ادا کرتے گئے جو پاکستان میں خون بہا کی مد میں دی جانے والی سب سے بھاری رقم تھی'۔

تمام لواحقین کی جانب سے کاغذات پر دستخط کے بعد جج نے ان سے سوال کیا کہ کیا انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا کیا گیا، جس پر سب کا جواب نہ میں تھا۔

جج نے وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی دونوں کو یاددہانی کرائی کہ وہ اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہیں تاہم دونوں نے ایسا نہیں کیا۔

ریمنڈ ڈیوس اپنی شناخت سی آئی اے کنٹریکٹر کے بجائے ملٹری کنٹریکٹر کے طور کرتے ہیں جس نے امریکا اور اس کے آئین کے تحفظ کا عہد کر رکھا تھا۔

ریمنڈ کے مطابق پاکستان آنے سے قبل وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے پہلی انتخابی مہم کے دوران سابق افغان صدر حامد کرزئی کو سیکیورٹی فراہم کی۔

ایک مقام پر ریمنڈ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جن دو افراد کو انہوں نے گولی ماری وہ ڈکیٹ تھے اور مختلف الزامات میں 50 دفعہ گرفتار ہوچکے تھے جبکہ قتل کے وقت بھی ان کے پاس چوری شدہ موبائل فونز اور غیرلائسنس شدہ گنز موجود تھیں۔

امریکی جاسوس کے مطابق 27 جنوری 2011 کے روز، جب انہوں نے ان دو افراد کو قتل کیا، وہ کسی مخصوص مشن پر نہیں تھے بلکہ وہ اپنے کمپاؤنڈ سے سفید گاڑی میں اس راستے کا سروے کرنے نکلے تھے جس پر تین دن بعد انہیں سفر کرنا تھا، ان کی اصل نوکری شہر میں موجود امریکی سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنا اور لاہور قونصل خانے کے سفراء اور امریکی حکام کو سیکیورٹی فراہم کرنا تھی۔

ڈیوس کا یہ بھی کہنا تھا کہ تین روز بعد جن افراد کو انہیں سیکیورٹی فراہم کرنا تھی وہ ایک خفیہ مشن پر تھے اور تفتیش کے دوران بھی انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ان افراد کے نام یا لاہور آنے کا مقصد بیان نہ کریں۔


یہ خبر یکم جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

shahzaib Jul 01, 2017 11:33am
pertey ja or apney ansoo bahata ja
Abdullah Jul 01, 2017 02:57pm
Ye 1 azad aur khud mukhtar mulk hay ?