'تاریخ لکھی جائے گی کہ ایک مردہ معاشرے کے ہجوم نے ایک زندہ انسان کی میت اٹھائی۔'

ٹھیک ایک برس قبل میری نظر سے ان لفظوں کا گزر ہوا، الفاظ کے ساتھ ایک ایسے شخص کے جنازے کی تصاویر تھیں جو نہ تو کوئی معروف سیاستدان تھا، نہ ہی کھربوں کی جائیداد اور بینک بیلنس کا مالک اور نہ ہی کوئی بزنس مین۔ نہ ہی اس شخص کے پاس اعلیٰ یونیورسٹیوں کی ڈگریاں تھیں، نہ ہی کبھی کسی نے اسے عالموں، مفکروں اور دانشوروں کی طرح لمبی چوڑی نصیحتیں دیتے دیکھا تھا۔

وہ سادہ ترین طرزِ زندگی کا حامل شخص تھا مگر ظلم و نا انصافی کی چکی میں پستی سسکتی پاکستانی عوام کا مسیحا تھا، جس کا مذہب صرف انسانیت اور خدمت تھا۔ وہ گزشتہ چھ دہائیوں سے ایک ایسے سنگ دل، بے رحم اور بے حس معاشرے میں خدمتِ خلق اور انسانی حقوق کی شمعیں روشن رکھے ہوئے تھا جہاں ہر کوئی بھوک، افلاس، عدم مساوات اور نا انصافی کا رونا تو روتا ہے مگر کسی دوسرے کی چھوٹی سی مدد پر آمادہ نہیں۔

پڑھیے: ’’ایدھی، چلے جاؤ یہاں سے، ورنہ گولی لگ جائے گی‘‘

جہاں دلوں پر پڑے پردے اتنے دبیز ہو چکے ہیں کہ لوگ سرِ راہ لہولہان، سسکتے دم توڑ دیتے ہیں، لیکن سب اندھے، بہرے بنے گزر جاتے ہیں کہ خود کو پرائے کی مصیبت میں کون ڈالے۔ انہی عمومی سنگدلانہ معاشرتی رویوں دیکھتے ہوئے ایک دفعہ عبدالستار ایدھی سے دریافت کیا گیا تھا کہ وہ رنگ و نسل، طبقات کی تفریق کیے بغیر کیونکر ہر ہندو، مسلم بلکہ ملحدین تک کی مدد کو دوڑے چلے جاتے ہیں تو ان کا یک سطری جواب اپنے اندر سمندر جیسی گہرائیاں سموئے ہوئے تھا ۔

"معاف کیجیے گا، میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے۔"

28 فروری 1928 کو ہندوستان کے صوبے گجرات (انڈو پاک) کے ایک چھوٹے سے گاؤں بانٹوا میں جنم لینے والے عبدالستار ایدھی کی ابتدائی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، خود ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف گجراتی میں لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔

مگر آج اس اَن پڑھ شخص کو ایسے لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر فوقیت و برتری حاصل ہے جو پڑھ لکھ کر بھی جاہل ہی رہے، ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے بہترین یونیورسٹیز بھی جن میں یہ شعور بیدار نہیں کر سکیں کہ بہتر انسان وہ ہے جو صرف اپنی ذات کے لیے جینے کے بجائے، حتی الامکان حد تک دوسروں کے کام آ کر معاشرے میں اپنی افادیت کو اپنے عمل سے ثابت کرتا ہے، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ایدھی صاحب نے کبھی کہا تھا کہ " آج لوگ لکھ پڑھ تو بہت گئے ہیں مگر انسان پھر بھی نہیں بن سکے۔"

عبدالستار ایدھی بچپن سے ہی خادمِ انسانیت تھے، خدمتِ خلق کا جو جذبہ انہیں تاریخ میں امر کر گیا وہ بہت چھوٹی عمر میں ان کا ہمراہی ہوا۔ ان کی والدہ ذیابیطس کے شدید عارضے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ جب عبدالستار کے ہم عمر لا ابالی لڑکے گلیوں میں گلی ڈنڈا یا کنچے کھیل رہے ہوتے تو دس گیارہ برس کا یہ لڑکا ماں کے سرہانے سے لگا دن رات ان کی خدمت کیا کرتا، مگر اس کی اتنی دیکھ بھال بھی کام نہ آئی اور ماں بہت جلد دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

چھوٹی عمر میں ماں یا باپ کے سائے سے محروم ہو جانے والے بچوں کی زندگی میں عموماً ایک خلا سا رہ جاتا ہے، جو گزرتے وقت اور زمانے کی ہر نئی ٹھوکر کے ساتھ مزید بڑھتا جاتا ہے، مگر عبدالستار نے اِس خلا کو پُر کرنے کا ایک انوکھا طریقہ اپنایا اور خدمتِ خلق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہوئے کہیں سڑکوں پر پھرتے ہزاروں یتیم و بے آسرا بچوں کو گلے لگا کر باپ کی شفقت اور امان دی تو کہیں مناسب طبی سہولیات کا بروقت بندوبست کر کے لاکھوں کے سروں پر والدین کا سایہ برقرار رکھنے کا بندوبست کیا۔

پڑھیے: وہ میٹھادر کا باپو، عبدالستار ایدھی

قیامِ پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہو کر 1951 میں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے شروع ہونے والا ان کا سفر، دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس رکھنے والی ایک ایسی رفاہی و فلاحی تنظیم کے قیام پر منتج ہوا جس کے تحت قائم مراکز میں تقریباً پچاس ہزار یتیم بچوں کو نہ صرف چھت فراہم ہوئی بلکہ تعلیم اور کوئی نہ کوئی ہنر سکھانے کا بھی بندوبست کیا گیا تاکہ مستقبل میں وہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔

اس کے ساتھ چالیس ہزار نرسوں کی تربیت کر کے معاشرے کے نچلے طبقے میں یہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ عورت کی تعلیم و ملازمت کو قابلِ نفرین نہ سمجھا جائے، اس کا معاشی طور پر خود کفیل ہونا خاندان کی فلاح کا ضامن ہے۔

ایدھی صاحب نے ہزاروں غریب بچیوں کی شادیاں بھی کروائیں اور ان کے جہیز کا بندوبست بھی خود کیا۔ ایسی ہزاروں لڑکیوں کی شادی کا بندوبست کر کے ایدھی صاحب نے معاشرے میں خدمتِ خلق کی ایک انوکھی رسم کی ابتدا کی، جس پر آج کل بہت سی فلاحی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔

آج ایدھی فاؤنڈیشن کا شمار دنیا کی ان گنی چنی رفاہی تنظیموں میں کیا جاتا ہے جن کی خدمات کو سراہتے ہوئے بھرپور مالی امداد فراہم کی گئی، مگر میرے خیال میں ایدھی صاحب کی خدمات ان سب سے جدا اور منفرد تھیں۔

انہوں نے ایک ایسے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے جدوجہد کی جہاں طبقاتی تفریق ہمیشہ سے عروج پر رہی ہے، یہاں امیر روز بروز امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور دونوں کے درمیان میں پھنسی ہوئی مڈل کلاس خود غرضی و بے حسی کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنی خواہشات کے حصول میں مگن ہے۔

عبدالستار ایدھی نے نصف صدی سے زائد اپنی طویل جدوجہد کے ذریعے اس سوچ اور پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی کہ جو لوگ حالات کی تندی اور سختی سے گھبرا کر کوشش ترک کر بیٹھتے ہیں وہ کبھی بھی دوسروں کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتے، ان کی فطری بزدلی و کم ہمتی نہ صرف انہیں محرومیوں کے دلدل میں دکھیل دیتی ہے بلکہ وہ دوسروں کی راہ کا وہ پتھر بن جاتے ہیں جو عموماً ٹھوکروں کی زد میں رہتا ہے۔ آپ کی چھوٹی سی ایک نیکی کسی کے لبوں سے روٹھی مسکان کو واپس لا کر اسے زندگی کی طرف راغب کر سکتی ہے، سو صلے اور ثواب کی پرواہ کیے بغیر نیکیاں کر کے انہیں دریا میں ڈالتے جائیے۔

پڑھیے: عبدالستار ایدھی، قوم کے ایک عاجز ہیرو

ایدھی صاحب نے جب 1951 میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا تو اس وقت بہت سوں کو وہ دیوانے معلوم پڑتے ہوں گے، جو دن یا رات، آندھی یا طوفان کی پرواہ کیے بغیر ہر کس و نا کس کی مدد کو دوڑا چلا جاتا تھا، مگر وقت نے دیکھا دیوانہ نہ تھا۔۔۔ وہ نیکی کا ایک فرشتہ صفت انسان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہم گناہ گاروں کے پاس رحمتِ خاص بنا کر بھیجا تھا۔

کہیں وہ متعفن لاشوں کو کفن دے کر تدفین کرواتا، تو کہیں کچرے کے ڈھیروں سے نومولود اٹھا کر انہیں اپنا نام اور انسانیت کا شرف دیتا اس پیغام کے ساتھ کہ "ایک گناہ آپ کر چکے ہیں، براہِ مہربانی دوسرا نہ کیجیے"، ان معصوم پھولوں کو ایدھی کے جھولوں میں ڈال دیجیئے، مگر بے حس لوگوں نے ان کے الفاظ میں مضمر انسانیت کے اصل پیغام کو سمجھنے کے بجائے ان پر فتوے دینے شروع کر دیے کہ وہ گناہ کی ترغیب دے رہے ہیں۔

یقین مانیے! ہم جنگل راج والے ایک ایسے معاشرے میں جیتے ہیں جہاں مذہب کے نام پر دوسروں کو روندنے اور کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلنے والے ہجوم کی صورت میں مل جائیں گے، مگر عبدالستار ایدھی جیسا نیک صفت بندہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا، جو اسلامی تعلیمات میں مضمر انسانیت سے محبت کے اصل پیغام کو سمجھ کر رنگ و نسل کے فرق کے بغیر دوسروں کو گلے لگا سکے۔ آج ایدھی صاحب کو ہم سے بچھڑے ہوئے پورا ایک برس ہو چکا ہے۔

میں سوچتی ہوں جتنی نیکیاں اور دعائیں اپنے دامن میں سمیٹ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، وہ تو جنت الفردوس میں بھی اعلیٰ مقام دلوانے کے لیے کافی ہوں گی، لیکن کیا ہم بد نصیبیوں کو اب کوئی ایدھی جیسا میسر آ سکے گا؟

تبصرے (0) بند ہیں