• KHI: Clear 24.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.6°C
  • KHI: Clear 24.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.6°C

گھریلو تشدد: 'طبقاتی امتیاز قانون سازی میں رکاوٹ'

شائع July 12, 2017

پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں کم عمر بچوں سے محنت مزدوری کرانے کا 'کلچر' عام ہے، وہیں حالیہ کچھ سالوں میں کمسن گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

چند روز قبل ایسا ہی ایک دل دہلانے والا واقعہ لاہور کے علاقے اکبری گیٹ میں پیش آیا، جہاں رکن پنجاب اسمبلی شاہ جہاں کی صاحبزادی فوزیہ بی بی نے اپنے ہی گھر میں مبینہ طور پر تشدد کرکے 17 سالہ گھریلو ملازم کو ہلاک جبکہ اس کی بہن کو زخمی کردیا۔

اگرچہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں، لیکن ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے مناسب قانون سازی نہ ہونے اور عدم دلچسپی کے باعث حکومت ان کمسن گھریلو ملازمین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

ان واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح پر سماجی کارکنان بھی حکومت پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ وہ گھروں میں کام کرنے والے ان بچوں کو ’لیبر قانون‘ کے تحت لے کر آئے تاکہ ان کا درست انداز میں اندراج ممکن ہوسکے۔

سماجی کارکن ماروی سرمد کی بھی یہی رائے ہے کہ حکومت ان کمسن ملازمین کے تحفظ کیلئے خاطر خواہ اقدامات کرے اور ایک ایسا نظام بنائے جس کی مدد سے معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ کیا جاسکے۔

پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات میں  تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے — فائل فوٹو
پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے — فائل فوٹو

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے ماوری سرمد کا کہنا تھا کہ 'بدقسمتی قانون سازی کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ طبقاتی امتیاز ہے اور ناصرف حکومت، بلکہ ہماری این جی اوز اور انسانی حقوق کے کارکنان بھی اس طرح سے کام نہیں کرسکے جیسا کہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس میں ایک اور بڑی وجہ عدم دلچسپی بھی ہے جو کہ صرف ہمارے درمیانے طبقے تک محدود نہیں، بلکہ حکومتی سطح پر بھی دیکھنے میں آتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ 2015 میں سینیٹ میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے حوالے سے ایک بل منظور ہوا تھا، لیکن جس قانون سازی کی اس وقت ضرورت ہے وہ اس سے کافی مختلف ہے۔‘

ماوری سرمد کا کہنا تھا کہ 'جیسا کہ 18ویں ترمیم کے بعد سے قانون سازی کا حق صوبوں کو منتقل کردیا گیا، تو ہمیں چاہیے کہ اس پر جلد از جلد کام شروع کریں تاکہ مستقبل میں بچوں پر تشدد کے مزید کیسز سامنے نہ آسکیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’عام طور پر اس طرح کے واقعات میں جو بچے ہوتے وہ غریب گھر سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں قانونی جنگ لڑنے کی طاقت نہیں ہوتی اور بہت سے کیسز تو ایسے بھی ہیں جو کہ آج تک میڈیا پر رپورٹ ہی نہیں ہوئے، لہٰذا حکومت اور ایوان میں بیٹھے سیاستدانوں کو اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘

پروگرام کے دوسرے مہمان پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام انتہائی ضروری ہے اور ہمیں اس پر بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ بیٹھ کر قانون سازی کرنا ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں ایسے واقعات کی شرح کا بڑھنا ایک افسوناک بات ہے، کیونکہ ہر گھر میں ہی یہ بچے کام کر رہے ہیں جن کے حقوق اور تحفظ کا خیال رکھنا اولین ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ماضی میں ان واقعات کے خاتمے کیلئے پنجاب حکومت کی جانب سے کچھ اقدامات ضرور ہوئے، لیکن کہیں نا کہیں آج بھی غفلت سے کام لیا جارہا ہے جو کہ اس شرح میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

ملک احمد خان نے کہا کہ 'وقتی طور پر تو سول سوسائٹی اور این جی اوز ان واقعات پر آواز بلند کرتی ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے قدامات اٹھائے جائیں کہ آئند ہم گھریلو تشدد کے اس بدنما داغ سے بچ سکیں۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ روز یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ لاہور کے علاقے اکبری گیٹ میں گھر کی مالکن کے مبینہ تشدد سے 17 سالہ گھریلو ملازم اختر ہلاک جبکہ اس کی 14 سالہ بہن عطیہ زخمی ہوگئی تھی۔

مزید پڑھیں: 7 سال میں تشدد سے 30 گھریلو ملازمین بچوں کی اموات

واقعے کے بعد پولیس نے نوجوان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے منتقل کردی جبکہ زخمی عطیہ کو تحویل میں لے کر تفتیش کا آغاز کردیا گیا۔

'مجھے لوہے کی سلاخوں سے داغا گیا'

بھائی کی ہلاکت پر بہن عطیہ نے شور مچایا اور اہل محلہ کو اس بدترین تشدد کے واقعے سے آگاہ کیا — فوٹو: ڈان نیوز
بھائی کی ہلاکت پر بہن عطیہ نے شور مچایا اور اہل محلہ کو اس بدترین تشدد کے واقعے سے آگاہ کیا — فوٹو: ڈان نیوز

لڑکے کی متاثرہ بہن نے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی مالکن نے اس کے بھائی کو گرم چمچے سے مار مار کر ہلاک، جبکہ اسے لوہے کی گرم سلاخیں لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ زخمی ہوگئی۔

بھائی کی ہلاکت پر بہن عطیہ نے شور مچایا اور اہل محلہ کو اس بدترین تشدد کے واقعے سے آگاہ کیا، تاہم اس دوران گھر کی مالکن اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گھر چھوڑ کر فرار ہوچکی تھی۔

ادھر عطیہ کے اہلخانہ اور لواحقین نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بااثر ملزمہ کو کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ انہیں انصاف مل سکے۔

اکبری گیٹ پولیس نے متاثرہ بچوں کے والد اسلم کی شکایت پر رکن پنجاب اسمبلی کی بیٹی فوزیہ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا تھا، تاہم بعد میں فوزیہ بی بی نے عبوری ضمانت حاصل کرلی۔

تبصرے (1) بند ہیں

مصطفےا کمال یو ایس اے Jul 12, 2017 10:50pm
چند روز قبل ایسا ہی ایک دل دہلانے والا واقعہ لاہور کے علاقے اکبری گیٹ میں پیش آیا، جہاں رکن پنجاب اسمبلی شاہ جہاں کی صاحبزادی فوزیہ بی بی نے اپنے ہی گھر میں مبینہ طور پر تشدد کرکے 17 سالہ گھریلو ملازم کو ہلاک جبکہ اس کی بہن کو زخمی کردیا۔چند روز قبل ایسا ہی ایک دل دہلانے والا واقعہ لاہور کے علاقے اکبری گیٹ میں پیش آیا، جہاں رکن پنجاب اسمبلی شاہ جہاں کی صاحبزادی فوزیہ بی بی نے اپنے ہی گھر میں مبینہ طور پر تشدد کرکے 17 سالہ گھریلو ملازم کو ہلاک جبکہ اس کی بہن کو زخمی کردیا۔____________________________________________ Just a few days ago, a similar incident occurred in Akbari Gate area of Lahore, where Sahibzada Fauzia Bibi, Member of Punjab Assembly, allegedly tortured his 17-year-old domestic worker and died in his own house. Injured بزریعہ ء -:-گوکل ٹرانزلیٹ -:- اردو کو انگلش میں ترجمعہ کر کے شائیع کیا گیا

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025