اسلام آباد: سماجی کارکن ارشد محمود نے مزدور بچوں خصوصاً گھریلو ملازمین پر تشدد کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں گذشتہ 7 سال میں گھریلو ملازمین بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ اس دوران مالکان کے ہاتھوں تشدد کا شکار بننے والے بچوں میں سے 30 کے قریب کی موت واقع ہوئی۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں طیبہ تشدد کیس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد محمود نے کہا کہ گھریلو ملازمین خصوصاً بچوں پر تشدد کے میڈیا پر 29 جنوری 2010 کے روز شازیہ مسیح کے کیس سے اب تک 50 سے 60 کیس سامنے آچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طیبہ 'تشدد کیس' میں سپریم کورٹ حکومت کو براہ راست مزدور بچوں کے تحفظ کے حوالے سے نئے قوانین بنانے کا پابند کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس میں نامزد جج کو کام سے روک دیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ طیبہ کی طرح تشدد کے دیگر کیسز بھی سامنے آتے رہے ہیں جس پر میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے شور ہوتا ہے اور اس کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے، جبکہ زیادہ تر کیسز میں فریقین کے درمیان راضی نامہ ہوجاتا ہے۔

ارشد محمود کے مطابق پاکستان کے قانون میں بچوں کے مزدوری کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، 1991 کے'امپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ' میں گھروں میں کام کرنے والے بچوں اور زراعت کے پیشے سے منسلک یا دیگر ملازمتیں کرنے والے بچوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ کمسن بچی طیبہ کا معاملہ سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کی جانب سے اسے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے برآمد کر کے اپنی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔

بعد ازاں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: پولیس نے عدالت میں رپورٹ جمع کرادی

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی کے والدین کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جس کے بعد اسلام آباد سے بچی کو بازیاب کروایا گیا۔

واقعہ سامنے آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس میں نامزد ملزم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ خرم علی خان کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روک دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں