رواں ماہ کی ابتدا میں پروفیسر پرویز ہودبھائی نے ایک مضمون لکھا، جس میں انہوں نے پاکستان کی پروفیسر مافیا کے کرتوت اور ان کے 'تدریسی جرائم' کی وجہ سے پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو پہنچنے والے نقصانات پر روشنی ڈالی۔

پاکستانی یونیورسٹیوں کی حالت زار ظاہر کرنے کے لیے پروفیسر ہودبھائی نے اپنے مضمون میں ایک بڑی ہی حیران کن مثال پیش کی کہ: "گزشتہ ماہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی فیکلٹی آف مینیجمنٹ سائنسز نے ایک عالمی ریکارڈ نما کامیابی حاصل کی، جب فنانس سے سائیکولوجی تک کے شعبوں کے اندر قلیل وقت میں ایک کے بعد ایک 5 پی ایچ ڈی ڈگریاں دی گئیں — وہ بھی صرف ایک ہی شخص کی نگرانی میں جس نے پانچ برس قبل ایک مقامی یونیورسٹی (محمد علی جناح یونیورسٹی) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔"

پرویز ہودبھائی نے یہ بھی لکھا کہ کس طرح ملک کا اعلیٰ تعلیمی نظام ایسے عمل کو نہ صرف جائز مانتا ہے بلکہ اس کی مزید حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے، جبکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تدریس کے لیے ضرر رساں پی ایچ ڈی سے متعلقہ پالیسیوں پر بھی مفصل تجزیہ پیش کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ، "معیار میں سب سے بڑی گراوٹ 2002 میں آئی جب ریسرچ اور پی ایچ ڈی ڈگریوں کو فروغ دینے کی خاطر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ترقی، تنخواہوں اور دیگر مراعات کو یونیورسٹی ٹیچرز کے شائع ہونے والے ریسرچ پیپرز کی تعداد سے منسلک کر دیا گیا۔"

پڑھیے: تعلیم یافتہ پاکستان، جہاں مالی اور چوکیدار بھی ماسٹرز

یہی وہ جڑ ہے جس نے پروفیسر مافیا کو جنم دیا، یہ مافیا کچھ اس انداز میں کام کرتی ہے کہ: ایک یونیورسٹی میں بیٹھا میرا ایک دوست اپنے ریسرچ جرنل میں میرے اور میرے طلبہ کے پیپرز شائع کرے گا تو میں بھی اس پر احسان کر کے حساب برابر کر دوں گا۔ احسانات کے تبادلوں سے اس مجرمانہ اسکیم کی شروعات ہو جاتی ہے۔ مافیا کے جس ممبر کے نام سے جتنی زیادہ اشاعتیں ہوں گی، اسے مراعات اور فوائد حاصل کرنے میں اتنی زیادہ آسانی پیدا ہوگی۔

میں اس مضمون کے ذریعے پرویز ہودبھائی کے بیان کردہ مسائل پر چند تجاویز پیش کرنا چاہوں گا جو ان مسائل کا ٹھوس حل ثابت ہو سکتی ہیں۔


شروعات کے طور پر ایچ ای سی کو تھوڑی سختی اپنا لینی چاہیے اور پی ایچ ڈی اسکالر کے لیے لازم یہ قرار دیا جائے کہ اس کا کم از کم ایک کانفرنس پیپر کسی معیاری بین الاقوامی کانفرنس کی جانب سے منظور ہو اور ایک جرنل پیپر کسی امپیکٹ فیکٹر والے اور آئی ایس آئی انڈیکس میں درج جرنل میں شائع ہو۔

پیپر کی اشاعت کے حوالے سے مقررہ معیار کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ پیپرز میں صرف معتبر ریسرچرز کے حوالہ جات والے پیپرز، جو کسی اعلیٰ معیار کی حامل کانفرنس اور امپیکٹ فیکٹر کے حامل جرنل میں شائع ہوں، انہیں ہی 'پبلیکیشن' کہا جائے۔ اشاعت کے حوالے سے کسی بھی دوسرے معیار کو ختم کر دیا جائے۔

یوں معیار بہتر ہوگا اور کسی کی ریسرچ کو اعلیٰ معیار کے مطابق جانچا بھی جا سکے گا۔ ایک ریسرچر کی کسی مشکوک، مقامی جرنلوں میں 50 اشاعتوں کو بھی اتنی خاص اہمیت نہ دی جائے جتنی اہمیت کسی معروف کانفرنس/جرنل میں شائع صرف ایک پیپر کو دی جائے، بھلے ہی پھر اس بین الاقوامی جرنل کی رینکنگ اول نہ ہو۔

اگر یہ اقدام اٹھایا جائے تو مجھے یقین ہے کہ پھر پاکستانی یونیورسٹیاں صرف غیر معمولی اور تجربہ کار ریسرچرز کی مدد سے ہی 'عالمی ریکارڈ' بنائیں گی جبکہ مافیا کو مشکلات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ اس بات پر پرویز ہودبھائی بھی مجھ سے متفق ہوں گے۔

لیکن، میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ پیپرز کی اشاعتوں کی حوصلہ افزائی یا پھر پیپرز کی بنیاد پر ترقی دینے میں کوئی عیب ہے۔ حوصلہ افزائی کا یہ طریقہ کار جاری و ساری رہنا چاہیے۔ مگر ایسا کرنے سے قبل لازمی ہے کہ تحقیق کا معیار ہماری اولین ترجیح ہو۔

دوسرا یہ کہ، پروفیسرز کو صنعتی و دیگر شعبوں سے منسلک مختلف اداروں کے اشتراک سے خود سے فنڈز اکٹھا کرنے کا کام دیا جائے۔ یہ بات بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے مگر پاکستان میں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیے: یونیورسٹی رینکنگ: والدین کو کیا دیکھنا چاہیے؟

اس طرح اکیڈمک ریسرچ کو ترقی کے ٹھوس مقاصد اور منصوبوں، سماجی پروگراموں، اور نجی و سرکاری شعبے کی پالیسیوں اور ابتدائی منصوبوں سے منسلک کرنے میں مدد ملے گی۔ نتیجتاً، ریسرچ مزید کارآمد ہوگی اور ملکی خوشحالی میں مدد ملے گی۔ اس طرح ایچ ای سی کے فراہم کردہ تنگ نظر ماحول کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

ایچ ای سی نجی اور سرکاری شعبوں کے ان مختلف اداروں کو فنڈز فراہم کر کے مدد فراہم کر سکتی ہے، جو قابل ذکر منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اور جن میں ریسرچرز کی مدد درکار ہے۔ ریسرچ کے لیے کون سب سے زیادہ قابل ریسرچر ہے، یہ فیصلہ ان اداروں پر چھوڑ دیجیے۔

آئی سی ٹی آر اینڈ ڈی فنڈز، پلان9، اور ادارہ برائے فروغ تحقیق ٹیکنولوجی کے شعبے میں بڑے ہی زبردست رجحانات پیدا کر رہے ہیں۔ ایسی ہی نئی تنظیمیں تشکیل دی جائیں اور انہیں سماجی شعبے میں فنڈز کی تقسیم کاری کا کام سونپا جائے۔

اب، جہاں تک پڑھانے کا تعلق ہے، آیا تدریس اور ریسرچ کا کام ایک ساتھ کیا جاسکتا ہے یا نہیں تو یہ ایک بڑی بحث کا موضوع ہے۔ ضروری نہیں کہ ایک اچھا ٹیچر ایک اچھا ریسرچر بھی ہو اور یوں ضروری نہیں کہ ایک اچھا ریسرچر ایک اچھا ٹیچر ہو۔

مثلاً، شمالی امریکا میں پڑھانے پر اس قدر زور نہیں دیا جاتا جتنا پہلے ڈالا جاتا تھا بلکہ اب زیادہ توجہ ریسرچ پر مرکوز کی جا رہی ہے۔ ایک پروفیسر باہر سے جتنے فنڈز اکٹھا کرتا ہے اور جتنے زیادہ پیپرز اور کتابیں شائع کرتا ہے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی کے وقار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ایک بڑی تعداد میں مختلف تدریسی شعبوں میں، خاص طور پر گریجوئیشن سطح کی کلاسوں کو پارٹ ٹائم پروفیسرز پڑھاتے ہیں، جس کے شمالی امریکا کی یونیورسٹیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ایچ ای سی نے بھی ایسا ہی 'چھاپو یا چُھٹی کرو' کا طریقہ اپنایا ہوا ہے اور شمالی امریکا کی نقل کرنے سے جو نتائج برآمد ہوئے وہ ہمارے سامنے ہیں۔

جانیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار

زیادہ سے زیادہ ریسرچ پیپرز لکھنے پر توجہ مرکوز کرنے سے سنجیدہ مسائل کو نظر انداز ہو جاتے ہیں، جیسے ٹیچنگ کی مالی طور پر حوصلہ افزائی کی ضرورت، سبجیکٹ اسپیشلسٹ کی تیاری کرنا، فیکلٹی میں موجود انفرادی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا اور ان میں بہتری لانا۔

پاکستانی یونیورسٹیوں کو ٹیچنگ، خالص ریسرچ، اپلائیڈ ریسرچ اور انٹرپرینیورشپ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اور صرف ایک ہی پہلو پر توجہ مرکوز کرنے سے ہماری یونیورسٹیوں کی افادیت متاثر ہوگی جو ہمارے تعلیمی نظام کے لیے قطعی ٹھیک نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


اگر آپ پاکستانی یونیورسٹیوں سے وابستہ ہیں اور تعلیمی و تحقیقی معیار کی بہتری کے حوالے سے تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا مضمون [email protected] پر ارسال کریں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Hafez Jul 24, 2017 05:53pm
ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے سنجیدہ بحث دیکھ کر خوشی ہوئی۔
Raif Jul 24, 2017 06:42pm
بہت خوب محمد عمیر عارف۔
zulfiqar Jul 25, 2017 09:27pm
appreciable efforts by dawn .... more and more people should engage in this positive discussion