لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس اور میتھمیٹکس پڑھاتے ہیں۔
لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس اور میتھمیٹکس پڑھاتے ہیں۔

ان دنوں پاکستان کے پروفیسرز کے پاس کتب بینی کے لیے بالکل بھی وقت نہیں کیوں کہ وہ اپنا وقت، وہ چیزیں جنہیں وہ 'تحقیقی’ مقالے پکارتے ہیں، چھپوانے میں اور اپنے طلبا کو پی ایچ ڈی ڈگریاں دلوانے میں صرف کر رہے ہیں۔

مثلاً گزشتہ ماہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی فیکلٹی آف مینیجمنٹ سائنسز نے ایک عالمی ریکارڈ نما کامیابی حاصل کی جب فنانس سے سائیکولوجی تک کے شعبوں کے اندر قلیل وقت میں ایک کے بعد ایک 5 پی ایچ ڈی ڈگریاں دی گئیں — وہ بھی صرف ایک ہی شخص کی نگرانی میں جس نے پانچ برس قبل ایک مقامی یونیورسٹی (محمد علی جناح یونیورسٹی) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

دوسری طرف تدریس کا معیار بتدریج زوال پذیر ہے۔ میتھمیٹکس، فزکس، کیمسٹری اور انجینیئرنگ جیسے ہارڈ سائنس مضامین میں یہ زوال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان مضامین کے اندر طلبہ کی کارکردگی کے اشاریے تباہ حالی کی داستان بنے ہوئے ہیں۔

امریکا کی بہترین سائنس اور انجینیئرنگ یونیورسٹیوں کے گریجوئیٹ ڈپارٹمنٹس میں ہندوستانی اور چینی طلبہ تو بھرے ہوئے ہیں مگر پاکستانیوں کی قلت ہے کیوں کہ زیادہ تر پاکستانی ان اداروں میں داخلے کے لیے مطلوب جی آر ای ٹیسٹ کے مقررہ معیار پر پورے ہی نہیں اتر پاتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر معمولی حد تک ذہین طلبا کہیں بھی بیٹھ کر اپنے طور پر کچھ بھی پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر باقی کے ایسے طلباء اپنے گھر تک بھی محدود رہتے تو کوئی فرق نہ پڑتا۔ ان کے پروفیسرز کے پاس متاثرکن ڈگریاں تو ہیں مگر اپنے مضمون کا علم کچھ بہتر نہیں اور اسی لیے وہ بہتر ٹیچرز بھی نہیں بن پاتے۔ کیوں کہ ان ٹیچرز کو ان کے ٹیچرز نے بھی ایسے ہی پڑھایا تھا۔

اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ سیاسی اور ثقافتی وجوہات کی بنا پر ہندوستان سے موازنہ کریں تو جو علاقے اس وقت پاکستان کا حصہ ہیں وہ ماضی میں تعلیمی میدان میں پیچھے تھے۔ 1947 میں پاکستان میں صرف ایک یونیورسٹی اور چند کالجز تھے۔ ہجرت کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں نے اپنے کچھ سب سے بہترین فیکلٹی ممبران کھو دیے کیوں کہ ان میں زیادہ تر ہندو تھے۔

پاکستان کسی قابل ذکر غیر معمولی تعلیمی روایت کا حامل نہیں رہا مگر اس کے باوجود کولونیل نظام سے آزادی پانے والی دیگر ریاستوں کی طرح پاکستان نے بھی آہستہ آہستہ جدید یونیورسٹی نظام کو اپنانا شروع کیا۔ اگرچہ معیار عام طور پر پست تھا، لیکن کہیں کہیں بہترین تعلیمی معیار بھی نظر آ جاتا تھا۔

1973 میں جب میں اسلام آباد یونیورسٹی (جس کا نام بعد میں قائد اعظم یونیورسٹی رکھ دیا گیا) میں جونیئر لیکچرر تعینات ہوا، تب وہاں کچھ شعبے متوسط معیار کی امریکی یونیورسٹیوں سے موازنے کے قابل تھے۔ اگرچہ سال بھر میں صرف چند ہی پی ایچ ڈی ڈگریاں عطا کی جاتیں اور ریسرچ پیپرز کا بھی فقدان تھا، لیکن معیار بہتری کی جانب گامزن تھا۔

معیار میں سب سے بڑی گراوٹ 2002 میں آئی جب تحقیق اور پی ایچ ڈی ڈگریوں کو فروغ دینے کی خاطر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ترقی، تنخواہوں اور دیگر مراعات کو یونیورسٹی ٹیچرز کے شائع ہونے والے ریسرچ پیپرز کی تعداد سے منسلک کر دیا۔ تدریسی کام نے ایک غیر متعلقہ حیثیت اختیار کر لی۔ آپ کی تنخواہ وہی رہے گی چاہے آپ اچھا پڑھائیں یا برا، یا بھلے ہی آپ اپنے مضمون پر عبور رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔

دیکھیے کہ کس قدر فروغ حاصل ہوا: 1980-1970 میں 15 سے 20 سال کے تجربے کے ساتھ ایک فل پروفیسر بننے کے لیے آپ کو 12 ریسرچ پیپرز درکار ہوتے تھے۔ ان دنوں اس تعداد کو خوفناک حد تک کثیر سمجھا جاتا تھا۔ میرے کئی ساتھی بغیر ترقی ملے 60 کی عمر تک پہنچ کر ریٹائر ہو گئے۔ وہ بہت ہی بااخلاق، بااصول لوگ تھے جو کتابیں پڑھتے تھے۔

لیکن ایک بار جب لوگوں کو پیسوں سے بھری پوٹلی کی بھنک لگی تو پرانا نظام اور اس کے تمام اخلاق ہی غائب ہو گئے۔ اب کسی کو کوئی حیرانی نہیں ہوتی جب اسی یونیورسٹی میں ایک طالب علم پی ایچ ڈی کورس کے دوران 10 سے 15 یا اس سے زائد پیپرز شائع کروا دیتا ہے۔ ایچ ای سی کی نئی شرائط نے تعلیمی جرائم کو نفع بخش بنا دیا۔

جس طرح شکاگو میں منشیات فروش گینگز ہوتے ہیں، اسی طرح پاکستانی اعلیٰ تعلیم پر زیادہ تر قبضہ کوسا نوسٹرا جیسے خاندانوں کا ہے۔ ہر مافیا خاندان کا باس اگر مکمل پروفیسر نہیں بھی تو کم از کم ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ضرور ہے۔

ہر باس کے اپنے اپنے ذاتی علاقے مخصوص ہیں تا کہ دیگر باسز سے تنازعات پیدا نہ ہوں، اور ہر باس اس سرپرستانہ کھیل کو بڑے ہی ماہرانہ انداز سے کھیلتا ہے۔ کبھی کبھار ان کے پاس ایک ماتحت باس (چھوٹا) بھی ہوتا ہے جو فیکٹری مزدوروں، یعنی پی ایچ ڈی اور ایم فل طلبہ کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ فیکٹریاں ایسی جعلی تحقیقیں تیار کرتی ہیں اور ان میں اصل تحقیق کی اس خوب انداز میں پردہ نشینی کر دی جاتی ہے کہ آپ اس نقل کو پکڑ ہی نہیں پاتے۔

لہٰذا حقیقی اساتذہ، جو اپنا پیشہ ورانہ معیار برقرار رکھتے ہیں اور جھوٹ یا فریب سے انکاری ہیں، اس کے تباہ کن اثرات بھگتے آ رہے ہیں۔ خاص طور پر، جب نا اہل ساتھی ترقیوں، بے کار پیپرز کی اشاعت کے لیے کثیر مالی معاوضوں کے حصول، انتظامی عہدوں پر ترقی، اور قومی اعزازات اور تحائف کے لیے نامزدگی کی ریس میں آگے ہوں تو کئی نوجوانوں کے دل ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔

اس دھوکے بازی کو یونیورسٹی تعلیم سے جڑے افراد کی جانب سے ذاتی طور پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنی 2002 کی پالیسی پر پشیمان ہے لیکن یہ ادارہ ان طاقتور مافیاؤں کے خوف کے ہاتھوں مفلوج ہے، جن میں کئی یونیورسٹی وائس چانسلرز، ڈینز، شعبے کے سربراہ، سینیئر اور جونیئر پروفیسرز، پی ایچ ڈی طلبہ، ایچ ای سی ممبران، سائنس کی اکیڈمیاں، علمی تنظیمیں، اور قومی اعزازات جیتنے والے شامل ہیں۔ ان میں سے چند کمیٹیوں کی صدارت کرتے ہیں اور تعیناتیوں اور برطرفیوں کے فیصلے کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے۔

اس جرائم پیشہ گروہ کا اثر پیپرز کے فروغ کے بجائے تدریسی اہلیت کو مضبوط کرنے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ہی یونیورسٹی میں اس کے ایک شعبے کے اندر ہر ایک کے تدریسی معیار کو پرکھنا مشکل ہے۔ مذہبی، مسلکی، نسلی اور دوستیوں کی بنیاد پر ترجیحات سے ایسی سیلیکشنز بے معنی ثابت ہوں گی اور ایک نئی گروہ بندی کو جنم دیں گی۔ اسی طرح یونیورسٹی سطح پر پڑھانے کا کون اہل ہے اس کا تعین کرنا بھی متنازع ہے۔ بلاشبہ معیار کا کوئی ایک پیمانہ اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہر ایک شعبے سے دوسرے شعبے، اور ہر ایک جگہ سے دوسری جگہ، سوالوں کے جوابات کافی مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔

لیکن اگر کوئی سب سے بہتر جواب نہ بھی ہو، تب بھی اس اہم نکتہ میں شک کی کوئی گنجائش نہیں: ایک پروفیسر وہ چیز نہیں پڑھا سکتا جو نہ اسے پتہ ہے اور نہ ہی جس میں اس کی دلچسپی ہے۔ تدریسی کام کے لیے ایسے انتہائی نااہل افراد کو اداروں سے نکالنے کا کوئی نظام بنایا جائے۔

جہاں اینتھراپولوجی یا سائیکولوجی جیسے شعبوں میں ’علمی معیار’ کے تعین کا کوئی واضح طریقہ موجود نہیں، وہاں ہارڈ سائنسز کے مضامین میں کم از کم (بنیادی) اہلیت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر استعمال کی جانے والی بہترین نصابی کتب کی ایک کثیر تعداد ہے جس میں ہر ایک باب کے آخر میں پرابلمز اور مشقیں دی ہوئی ہیں، لہٰذا ہم ان کتب کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ ان سوالوں کے مناسب حد تک درست حل کرنے کو علمی معیار پرکھنے کا ایک طریقہ بنایا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے اس سے بھی بہتر دیگر طریقے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً، ہائیر ایجوکیشن کمیشن یونیورسٹی سطح پر تدریسی عہدوں کے لیے درخواست دینے والوں کو مناسب ڈسٹینس لرننگ کورسز (MOOCS) کے لیے مطلوب امتحان کو پاس کرنے پر زور ڈالے، جیسے وہ کورسز جنہیں کورسیرا (Coursera)، اسٹینفورڈ یونیورسٹی یا ایم آئی ٹی تیار کرتی ہے۔ بائیو میٹرک چیکنگ اور امتحان کی مناسب نگرانی کے ساتھ یہ طریقہ امیدوار کی اہلیت کو پرکھنے کا ایک سستا، غیر جانبدارانہ، اور غیر متعصبانہ طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مقامی سطح کا کوئی پیمانہ قطعی طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیاں مضحکہ خیز ترجیحات کو تبدیل کرتے ہوئے اس سمت میں جائیں جو ان کی بنیادی ذمہ داری ہے، یعنی پڑھانا۔ زیادہ سے زیادہ ریسرچ پیپرز اور پی ایچ ڈیز کو نفع بخش بنانے سے کرپشن کو فروغ ملا۔ ایچ ای سی کو اپنی اس بے وقوفانہ پالیسی کو لازمی طور پر واپس لے لینا چاہیے بھلے ہی پروفیسر مافیا اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے۔

ایسا نہ ہوا تو پھر وہ زمانہ دور نہیں کہ جب پاکستانی یونیورسٹیوں میں دی جانے والی حقیقی ڈگریوں کا معیار بھی ایگزیکٹ کی ڈگریوں جتنا ہو جائے گا۔

یہ مضمون یکم جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (6) بند ہیں

Sheri Jul 10, 2017 03:54pm
Yea that's right. Now a days all universities are not well recognised in European counties or in west. So we have to take good steps in this field.
mueed mirza Jul 10, 2017 06:16pm
Always reasonable. One can feel his pain. Good piece Dr Hoodbhoy. I hope things will get better.
محمد انیس رشید Jul 10, 2017 11:14pm
اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ پی ایچ ڈی میں داخلہ مل جانے کے بعد طالب علم کئی سال تک رلتا رہتا ہے اور اسے مقالہ کے موضوع کے انتخاب اور اس کی منظوری کے مراحل طے کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کردینا پڑتا ہے اور پھر آخر میں بولاجاتا ہے جلدی کرو ٹائم نکلا جارہا ہے۔
فرخ نور Jul 12, 2017 01:08pm
یہ مسئلہ یونیورسٹیز سے پہلے پبلک سکولز کی سطح پر بھی موجود ہے۔ تعلیمی معیار میں بہتری واسطے گنتی کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ انسان کی تعلیم کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہوتا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں ماسٹرز ہولڈر اور گریجویٹ کی گفتگو میں تمیز کرنا مشکل ہے۔ ہمارے خطے میں گرو اپنے چیلے کو ساتھ رکھ کر سکھاتا تھا تب تک جب تک گرو مطمئن نہ ہوپاتا۔ پچاس برس پہلے تک عملی مشقوں پر زور دیا جاتا تھا۔ اب عمومی روش میں تھیوری باقی ہے جبکہ مشق خالی ہے۔ مختلف سطحوں پر ہمارا معاشرہ خود بھی قصوروار ہے۔ تنقید ہم سب کرسکتے ہیں مگر اصلاح کا پہلو زیادہ اہم ہے۔ استاد کا مشاہدہ اور شاگرد کی خوب مشق زیادہ بہتر ریسرچ کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ترقیوں کو گنتی سے ہٹا کر معیار پر مقرر کیا جائے۔ معیار طے کرنے والے وہ ہوں جن کا اپنا کوئی معیار ہو۔ ہمارے ہاں عموماً معیار وہ طے کرتے ہیں جن کا اپنا کوئی معیار طے نہیں ہوتا۔ اکبر کا منصبداری نظام اپنے زمانے اور ضرورت کے لحاظ سے ایک اچھا نظام تھا مگر بے جا ترقیوں نے منصبداری نظام اور مغل سلطنت کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
Muhammad Kazim Ali Jul 14, 2017 02:41pm
I am 100% agree with this article. I am serving a gov. sector university, after my PhD, in 2015, I have hardly 5 papers, in which I tried to publish true and pure data, but my colleagues have published 15 papers, I don't know how, but I realized that HEC criteria of no. of publication for appointment and progress is responsible for this.
Siraj Jul 14, 2017 06:23pm
We find problems, we only know how to criticize, we don't want to put valid solution to it. We criticize Pakistani people, because our elders are happy on this. Why we are not criticizing Journals, their editors, reviewers who are publishing the substandard articles. Most of editors of journals have PhD from advanced countries. There is not a single article criticizing their knowledge of subject . These are the people and systems need to be tuned.