لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

سینیٹ نے ایک بے مثال قدم اٹھاتے ہوئے، ریاستی اداروں کے درمیان تصادم سے بچنے کے لیے بین الادارتی مذاکرات کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے چیئرمین سینیٹ آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ممبران کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے مدعو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کی پرخلوص کوششوں اور ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے اور جمہوری عمل کے استحکام کی خواہش پر کسی کو کوئی شک نہیں، لیکن جمہوری بحران کو حل کرنے کے لیے یہ بالکل بھی کوئی ٹھوس تجویز نہیں ہے۔

آرمی چیف اور چیف جسٹس کو پارلیمنٹ میں بلا کر سینیٹ چیئرمین کیا حاصل کرنے کی توقع کر رہے ہیں؟ کیا وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس قسم کے بین الادارتی مذاکرات سے اداروں کے درمیان تناؤ کی اصل جڑ کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اداروں کے درمیان طاقت کا موجودہ عدم توازن درحقیقت طاقت کے نظام میں بگاڑ کی وجہ نہیں، بلکہ بگاڑ کی ظاہری علامت ہے۔

ایک انتہائی تجربہ کار پارلیمانی ممبر، جو ایسے محترم عہدے پر بھی فائز ہیں، ان سے ایسے بھولے پن کی توقع تو نہیں تھی۔ جہاں تمام تر گفتگو کا محور آئین کی ایک متنازع شق کے تحت نواز شریف کی نااہلی پر ہے، وہاں سیاسی نظام اور جمہوری عمل کو ٹھیس پہنچانے والے اصل مسائل مکمل طور پر نظر انداز ہو چکے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ یہ اقدام حقیقی طور پر سویلین بالادستی کے قیام کے لیے ہے بھی یا نہیں۔ بلاشبہ، پارلیمنٹ کو ایسی کوئی بھی آئینی شق ختم کر دینی چاہیے جو نامناسب لگتی ہو، لیکن صرف ایک شخص کو بچانے کی خاطر نہیں۔

جمہوریت کو خطرہ سابق وزیر اعظم کے خلاف فیصلے سے نہیں بلکہ عدلیہ پر بے رحمانہ حملوں سے ہے۔ جج صاحبان پر جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی سازش کرنے کے الزامات انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم ہی تھے جنہوں نے تصادم کا راستہ اپنایا ہے۔ تو چیف جسٹس سے اب پارلیمنٹ میں کیا کہنے کی توقع ہے؟ کیا وہ پارلیمنٹ کو یہ یقین دلائیں کہ منتخب رہنما سزا سے مستثنیٰ ہوں گے بھلے ہی وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہوں یا جھوٹ بول رہے ہیں؟

بلاشبہ آئین میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، عدلیہ کا نہیں۔ قانونی برادری سے تعلق ہونے کے ناطے معزز چیئرمین سینیٹ کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ عدلیہ ریاست کی ایک الگ شاخ ہے اور یہ انتظامیہ یا پارلیمنٹ کے آگے جوابدہ نہیں ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال ملتی ہے جس میں ایک چیف جسٹس کو پارلیمنٹ بلایا گیا ہو؟

سینیٹر رضا ربانی کی بات درست ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔ لیکن انہیں اس بات احساس بھی ہونا چاہیے کہ ایک تقریباً غیر فعال پارلیمنٹ اور ادارتی فیصلہ سازی کے عمل کی غیر موجودگی کے باعث طاقت کا عدم توازن بڑھا ہے۔

جب سیاسی رہنما اپنے ایسے مسائل بھی اعلیٰ عدلیہ لے کر پہنچتے ہیں جو پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، تو ایسے میں عدلیہ پر الزام عائد کرنا انتہائی غیر مناسب ہے۔ پاناما گیٹ کیس بھی اس کی ہی ایک مثال ہے۔ چیف جسٹس کو طلب کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کو اپنی کوتاہیاں ختم کرنے پر دھیان مرکوز کرنا چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سول ملٹری تعلقات ملک میں جمہوری عمل کو متاثر کرنے والے مسائل کی ایک بڑی وجہ رہے ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ایک جمہوری نظام میں سویلین بالادستی نہایت ضروری ہے۔ بلاشبہ طاقت کا موجودہ توازن فوج کے حق میں ہونا ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجوہات میں سے ایک ہے۔

لیکن انتظامیہ اور پارلیمنٹ کو مؤثر بنانے کے لیے سیاسی نظام کے اندر چند بنیادی اصلاحات کے بغیر صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مسئلہ آرمی چیف اور پارلیمنٹ کے درمیان مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کی بات ہے کہ موجودہ بحران پر اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ نظر ثانی کرنے کے بجائے صرف نااہلی سے جڑے معاملات پر دھیان دیا جا رہا ہے۔

کوئی حیرانی نہیں ہوئی جب سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم نے بلاتاخیر سینیٹ چیئرمین کے ارادے کا خیر مقدم کیا، مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ آیا وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں پائیں گے۔ نواز شریف اب خود کو ایک ’انقلابی’ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے آئین کو بدلنے کا بھی عہد کیا ہے۔

لیکن کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کس قسم کے انقلاب کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ پانچ ججوں نے لوگوں کے مینڈیٹ کی توہین کی ہے۔ مکمل طور پر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جی ٹی روڈ پر اپنی سیاسی طاقت کے مظاہرے کو انہوں نے اپنے خلاف عدالتی فیصلے کی مستردی کے طور پر پیش کیا۔ نواز شریف کے عدلیہ پر وار 1997 کے اس واقعے کی یاد دلاتے ہیں جب ان ہی کی پارٹی کے لوگوں نے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا تھا۔

یہ دیکھ کر کافی حیرت ہوئی کہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم کو اس بات کا افسوس ہے کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ لیکن ایک بات وہ لوگوں کو نہیں بتا رہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران وہ خود بھی چند وزرائے اعظم کو عہدے سے ہٹانے میں پیش پیش رہے تھے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی منتخب رہنما نے سویلین اداروں کو اتنی ٹھیس نہیں پہنچائی ہوگی جتنی نواز شریف نے اپنے تین ادوار میں پہنچائی ہے۔ وہ یہ بات بھی قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتے کہ صرف انہیں ہی عہدے سے فارغ کیا گیا ہے، جبکہ ان کی پارٹی اب بھی اقتدار میں ہے اور نئے وزیر اعظم کے ماتحت کام کر رہی ہے۔

یہ تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پارلیمنٹ اپنے پانچ سال مکمل کرے گی۔ آئین پارلیمنٹ کی مدت تو متعین کرتا ہے لیکن وزیر اعظم کی نہیں۔ یہ بھی واضح نظر آ رہا ہے کہ وہ صرف ذاتی سیاسی بقا کی خاطر جمہوریت اور سویلین بالادستی کی بات کر رہے ہیں۔

بلاشبہ جمہوری استحکام کے لیے سیاسی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لیے ہمیں بین الادارتی مذاکرات درکار نہیں بلکہ ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے جو قانون کی بالادستی کی ضمانت دے اور جس کے تحت تمام ریاستی ادارے آئین کی سختی کے ساتھ پیروی کریں۔

سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ جمہوریت کو خاندانی حکمرانی کا تسلسل قائم رکھنے کا ذریعہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ عوام کا مینڈیٹ منتخب رہنماؤں کو قانون سے بالاتر نہیں کر دیتا۔ جب سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہان بھی رائے دہندگان کے اعتماد کا پاس رکھتے ہیں صرف تب ہی جمہوریت زندہ رہ پاتی ہے۔

یہ مضمون 16 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

MAlik USA Aug 18, 2017 08:11pm
One of the best analysis on current affairs. Eye opener article.