کراچی: ناردرن بائی پاس پر ایک پولیس رضاکار کی ٹارگٹ کلنگ کے صرف 4 روز بعد ہی گذشتہ روز اسی مقام پر تین نامعلوم افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

پولیس کے مطابق ان تینوں افراد کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق جائے وقوع سے ملنے والے ایک پمفلٹ میں ان تینوں افراد کے قتل کو پولیس قومی رضاکار کے قتل کا ’بدلہ‘ قرار دیا گیا۔

جائے وقوع سے ملنے والے پمفلٹ پر ایک نئی جہادی تنظیم 'انصار الشریعہ پاکستان' (اے ایس پی) کا نام درج ہے جبکہ اس میں ’دہشت گردوں‘ کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ پاکستان مخالف ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی ایماء پر پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں کے قتل سے باز نہیں آتے تو نہ صرف ’دہشت گردوں‘ بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔

پمفلٹ میں مزید کہا گیا کہ پوکیس اہلکاروں اور رضاکاروں کو ٹارگٹ کرنے والوں نے دشمنوں اور غیر ملکی فورسز کو اپنا ’ایمان‘ بیچ دیا ہے جو اپنے ’غیر اسلامی مقاصد‘ کو پورا کرنے کے لیے ’جہادی تنظیموں‘ کے نام کا غلط استعمال کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: فائرنگ سے پولیس رضاکار جاں بحق، ساتھی زخمی

واضح رہے کہ اے ایس پی نامی یہ تنظیم ماضی میں خود بھی سیکیورٹی اہلکاروں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے جبکہ مبینہ طور پر اس تنظیم کے پمفلٹس میں یہ کہا گیا تھا کہ شہر میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا قتل ’اِن کاؤنٹرز‘ (پولیس مقابلوں) میں مارے جانے والے جہادیوں کے قتل کا ’بدلہ‘ ہے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار احمد کے مطابق اس واقعے میں اے ایس پی تنظیم نے تینوں نامعلوم افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’نامعلوم افراد کی جانب سے پھینکی جانے والی تینوں لاشیں ناردرن بائی پاس پولیس چیک پوائنٹ کے نزدیک سے برآمد ہوئیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ لاشوں کی تلاش کے دوران ہی پولیس کو انصار الشریعہ پاکستان کا پمفلٹ ملا۔

سائٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل پولیس کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) انار خان نے ڈان کو بتایا کہ یہ تینوں لاشیں اُسی مقام سے ملیں جہاں چار روز قبل پولیس رضاکار رانا جمشید کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں فائرنگ: ڈی ایس پی ٹریفک اور کانسٹیبل شہید

ایس ایچ او کے مطابق اب تک تینوں افراد کی شناخت نہیں کی جاسکی ہے تاہم قتل ہونے والے تینوں افراد کی لمبی داڑھیاں تھیں۔

پیر (21 اگست) کی شام پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302 اور 34 کے تحت ریاست کی مدعیت میں تینوں افراد کے قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ان افراد کی لاشیں قتل کیے جانے کے چند گھنٹوں بعد صبح 7 بجے برآمد ہوئیں، قتل ہونے والے افراد کی عمریں 30 سے 40 سال کے درمیان ہیں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ان افراد کو مارنے سے قبل اغواء کرکے کسی اور جگہ قتل کیا گیا جس کے بعد لاشیں ناردرن بائی پاس کے نزدیک پھینک دی گئیں۔

ایف آئی آر میں ان افراد کے قتل کی وجہ ’نامعلوم دشمنی یا جھگڑا‘ درج کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ’3 دہشت گرد‘ گرفتار

واضح رہے کہ تینوں افراد کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پولیس سرجن ڈاکٹر اعجاز کھوکھر نے ڈان کو بتایا کہ ہلاک افراد کو سر اور سینے میں متعدد گولیاں ماری گئیں۔

جہادی تنظیموں میں تقسیم؟

اس سوال کے جواب میں کہ کیا لاشوں کے قریب سے ملنے والا پمفلٹ اے ایس پی کے جہادیوں میں اختلاف کی نشاندہی کرتا ہے، ایس ایچ او انار خان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مرحلے پر پولیس یہ نہیں بتا سکتی کہ ہلاک ہونے والے ’جہادی‘ تھے جنہیں دوسرے ’جہادیوں‘ نے قتل کیا کیونکہ ابھی ان افراد کی شناخت کی کوششیں جاری ہیں۔

واضح رہے کہ حالیہ چند ہفتوں میں اسی جہادی تنظیم کی جانب سے کئی مقامات پر پمفلٹس کے ذریعے پولیس اہلکاروں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی جاچکی ہیں، جن میں سائٹ پر 4 پولیس اہلکاروں کا قتل، عزیز آباد میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ٹریفک پولیس اور ان کے ڈرائیور کا قتل جبکہ ناردرن بائی پاس پر پولیس رضاکار کے قتل کے واقعات شامل ہیں۔


یہ خبر 22 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں