اسلام آباد: قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے ختمِ نبوت حلف نامے میں رونما ہونے والی تبدیلی کو اپنی پرانی شکل میں واپس لانے کے لیے ترمیمی بل منظور کرلیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔

ایوانِ زیریں کے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات بل حکومت کی تین سالہ محنت کا نتیجہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کا تعلق صرف حکومت سے نہیں تھا بلکہ یہ ایک متفقہ بل تھا جس کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندگان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ختم نبوت شق کے خاتمے کا سوچ بھی نہیں سکتے،وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ جب انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 پیش کیا گیا تھا تو یہ تصور بھی نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے ختمِ نبوت حلف نامے میں ترمیم ہو سکتی ہے تاہم اس غلطی کو اب درست کر لیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے مبینہ طور پر جاری ہونے والی فہرست پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ 37 اراکین پارلیمنٹ مبینہ طور پر دہشت گردوں سے رابطے میں ہیں۔

وفاقی وزیر اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے جبکہ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15 ارکانِ اسمبلی نے بھی ان کے ساتھ واک آؤٹ کیا۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ایوان میں کہا کہ آئی بی کے طرف سے سامنے آنے والی دستاویزات جعلی ہیں تاہم وفاقی وزیر قانون کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہے۔

ادھر سابق وزیر اعظم پاکستان میر ظفر اللہ خان جمالی نے حکومت اور وفاقی وزیر قانون زاہد حامد پر ختمِ نبوت حلف نامے میں تبدیلی کا الزام لگایا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نوازشریف سے منسوب جھوٹی خبرپر برہم، تحقیقات کی ہدایت

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی شاہ محمودقریشی کا ایوان سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ ہم نے دیانت داری سے یہ اہم مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا تاہم اس وقت ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس غلطی کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایوان میں حکومتی اراکین کی جانب سے واک آؤٹ نہیں کیا گیا لہٰذا ریاض حسین پیرزادہ نے جو بات کہی وہ انتہائی حساس ہے۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو کہ اب ترمیمی بل کی وجہ سے واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوجائیں گی۔

مذکورہ شقوں کے مطابق انتخابی عمل میں حصہ لینے پر بھی احمدی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسا کہ آئین پاکستان میں واضح کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ پارلیمانی لیڈروں کی جانب سے ختمِ نبوت حلف نامے پر آنے والی تبدیلی کو اپنی پرانی حیثیت پر فوری بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی اسے بطور غلطی تسلیم کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں