اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے نئے احتساب کمیشن سے متعلق قانون کا مسودہ مسترد کرتے ہوئے اپنے اعتراضات پارلیمانی کمیٹی میں پیش کردیئے۔

تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے احتساب کمیشن کے مجوزہ قانون پر 8 نکاتی اعتراضات کمیٹی کے سربراہ زاہد حامد کے حوالے کیے۔

تحریک انصاف نے اپنے اعتراض میں کہا کہ حکومت کا تجویز کردہ مسودہ احتساب کے عمل میں رکاوٹ کے لیے تیار کیا گیا۔

پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ احتساب کا عمل کب سے شروع ہوگا اس بات کا مسودے میں تعین ہی نہیں کیا گیا جبکہ مجوزہ تحقیقاتی ایجنسی کو چیئرمین احتساب کمیشن کے ماتحت رکھا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا احتساب قانون میں ترامیم پیش کرنے کا فیصلہ

پی ٹی آئی کا اعتراض ہے کہ کرپشن سے لوٹی رقم واپس کرنے پر سزا کم کرکے 7 سال کردی گئی ہے جبکہ احتساب کے مجوزہ قانون میں بھی رقم کی رضاکارانہ واپسی کو برقرار رکھا گیا ہے، ’جو قبول نہیں‘۔

پی ٹی آئی نے ٹرائل مکمل نہ ہونے کی صورت میں ملزم کو ایک سال بعد ضمانت پر رہا کرنے پر بھی اعتراض اٹھا اور کرپشن مقدمات کی سماعت کے لیے نیب عدالتیں برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے چیئرمین احتساب کمیشن کو ملزم کو معاف کردینے کے اختیار پر بھی اعتراض اٹھایا۔

بعد ازاں احتساب قانون کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔

اجلاس کے اختتام پر پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ زاہد حامد کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی احتساب کے نئے کمیشن کی بجائے نیب کو برقرار رکھنے پر بضد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ججوں اور جرنیلوں کو نئے احتساب قانون کے دائرہ کار میں لانے پر حکومت اتفاق نہیں کرتی اور حکومت کو اس تجویز پر تحفظات ہیں۔

زاہد حامد کے مطابق پارلیمانی کمیٹی نے اب تک احتساب قانون کے مسودے کی بیشتر شقوں پر اتفاق کرلیا تھا جبکہ تحریک انصاف نے اب اعتراضات پیش کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'سڑکوں پر آنے کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے'

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے آئندہ اجلاس میں احتساب قانون پر اپنی ترامیم پیش کرنے کا کہا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے احتساب قانون کا وفاق اور وفاقی ملازمین کی حد تک اطلاق کرنے کی تجویز دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی نے صوبوں کے اپنے احتساب کمیشن بنانے کی تجویز بھی دی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری 11 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شریک ہوئی تھیں اور انہوں نے حکومت کا پیش کردہ مسودہ یکسر مسترد کرتے ہوئے پارٹی کی جانب سے نئی ترامیم لانے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس سے قبل مذکورہ کیمٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی پیش ہوتے رہے۔

پی ٹی آئی میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ مذکورہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب شاہ محمود قریشی کی جگہ رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کو پارٹی کا نیا وائس چیئرمین منتخب کیا گیا۔

واضح رہے کہ نیب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور اہلخانہ کے خلاف ریفرینسز کی سماعت سے قبل پی ٹی آئی کی قیادت نے احتساب قانون کو مسترد کیا تھا اور نئی قانون سازی پر زور دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں