جب لاہور کی سڑک پر انسانیت ماتم کناں تھی

21 اکتوبر 2017
اُس بیچارے کے دل پر کیا قیامت بیت رہی ہوگی جب اُس کی بیوی نے چلتی سڑک پر لوگوں کی بھیڑ میں ایک بچے کو جنم دیا ہوگا—تصویر ڈان نیوز
اُس بیچارے کے دل پر کیا قیامت بیت رہی ہوگی جب اُس کی بیوی نے چلتی سڑک پر لوگوں کی بھیڑ میں ایک بچے کو جنم دیا ہوگا—تصویر ڈان نیوز

17 اکتوبر، عملے کے انکار کے باعث رائیونڈ تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال لاہور کے باہر سڑک پر بچے کی پیدائش، میڈیا کا شور، مخالفین کی سیاسی بیان بازیاں، وزیرِ اعلیٰ کا نوٹس، ذمّہ داران معطل، حکومت کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی قائم۔

20 اکتوبر یعنی ٹھیک تین دن بعد، گنگا رام ہسپتال لاہور کے لیبر روم کے باہر فرش پر بچے کی پیدائش، میڈیا کا پھر وہی شور، پھر سیاسی مخالفین کی وہی بیان بازی، صوبائی وزیرِصحت کا ہسپتال کا دورہ، ایک مرتبہ پھر ذمّہ داران معطل اور ہمیشہ کی طرح حکومت کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی قائم۔

گویا بدلا تو کچھ بھی نہیں، یہ سب کچھ تو شاید چند ماہ پہلے اُس وقت بھی ہوا تھا جب جناح ہسپتال لاہور کے ننگے فرش پر ایک بزرگ خاتون وارڈ میں جگہ نہ ملنے کے باعث سخت سردی میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گئی تھی، اُس افسوسناک سانحے پر ہونے والی حکومتی کارروائی کی حقیقت اِن پے در پے دو واقعات نے کھول دی ہے۔

پڑھیے: پمز والوں سے بس ایک سوال، ’میرے بچے کا کیا قصور تھا؟‘

ہم میں سے اکثر کے لیے بس یہ بھی دوسری خبروں کی طرح محض ایک خبر ہی ہوگی مگر ایسے معاشرے میں جہاں ایک شوہر اپنی حاملہ بیوی کے ساتھ باہر نکلنے میں جھجھک محسوس کرتا ہے، وہاں آپ خود کو اُس غریب شخص کی جگہ رکھ کر تو ذرا سوچیے کہ اُس وقت اُس بیچارے کے دل پر کیا قیامت بیت رہی ہوگی جب اُس کی بیوی نے چلتی سڑک پر لوگوں کی بھیڑ میں ایک بچے کو جنم دیا ہوگا۔

دوران حمل ایک حاملہ عورت زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑی ہوتی ہے اور اُس وقت عورت کو احتیاط اور نگہداشت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، لیکن لاہور میں ایک حاملہ عورت سرے عام انسانیت کا تماشا بنتی ہے۔ اُس وقت شرم و حیا اور اخلاق کے درس اُس عورت کے درد کو مزید بڑھا رہے ہوں گے، اُس وقت انسانیت ماتم کناں ہوگی۔ ایک ماں کا وہ درد اور اُسے برداشت کرنے کی صلاحیت ہی ہے جو جنت کو اُس کے قدموں میں رکھ دیتی ہے۔ لیکن اُس ماں کی یہ کیسی جنت ہے کہ جس کی قیمت ایک تماشا بنی ہے۔

اُس نے کیسے اُن بے حس لوگوں کی نظروں کا سامنا کیا ہوگا جو تماش بین بنے کھڑے ہوں گے، جنہوں نے سامنے کھڑے اپنے اپنے موبائل فون میں اُس درد اور تکلیف دہ عمل کو قید کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہوگی۔ ذرا سوچیے تو صحیح جناب، کل کلاں آپ کے گھر میں موجود کسی خاتون کو خدا رحمت یا نعمت عطا کرسکتا ہے، ذرا سوچیے کہ آپ کس طرح اُسے ایک قدم چلنے پر بھی احتیاط کی نصحیتیں کرتے نہیں تھکتے، لیکن لاہور میں تارکول کی سڑک پر ایک خاتون ایک بچے کو جنم دیتی ہے، ایسے معاشرے کے بطور ایک فرد، ضمیر کا ملال سننے کی کوشش کریں۔

حیرت کیوں ہو بھلا اب تو یہ اخبار کی دو کالموں پر مشتمل ایک دلچسپ خبر بن چکی ہے جو چائے چسکیوں کے ساتھ اور بھنویں چڑھائے پڑھی جاتی ہے اور پھر خبر پڑھ کر اخبار لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔

پڑھیے: اگر کچھ بچے مر گئے تو کیا ہوا؟

سرکاری ہسپتالوں کی تاریخ ایسی بے حسی اور لاپرواہیوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کبھی کلیوں جیسے نونہالوں کو آکسیجن کی سپلائی بند ہوجانے کی وجہ سے وہ بن کھلے ہی مُرجھا جاتے ہیں، کبھی مائیں طبّی عملے کی غفلت کا شکار ہوکر بچے کی پیدائش کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجاتی ہیں، کبھی غلط خون لگا کر کسی سے اُس کی زندگی چھین لی جاتی ہے تو کبھی غلط انجکشن لگا کر۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے جب ایک بیڈ پر چار چار مریض پڑے کراہ رہے ہوتے ہیں، جہاں سہولیات اور ڈاکٹر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔

اِن ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا رویّہ بھی کچھ ایسا جارحانہ اور حقارت آمیز ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنی خدمات کی تنخواہ نہیں لیتے بلکہ ہم پر کوئی احسان کر رہے ہوتے ہیں، مگر اُن سے باز پُرس کرنے والا کوئی نہیں، کوئی ہو بھی کیسے؟ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات بنیادی سہولیات نہیں بلکہ انفراسٹرکچر کے بڑے بڑے منصوبے ہوتے ہیں، ظاہر ہے جناب انتخابی مہم میں بنیادی سہولیات کو گنوانے کا رواج تو اب ختم ہوچکا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف صاحب! آپ لمبی چوڑی سڑکوں کے چاہے جتنے مرضی جال بچھا دیں، جگہ جگہ فلائی اوورز اور انڈر پاسز بنا دیں، تیز ترین ٹرانسپورٹ سسٹم متعارف کرادیں، شہروں کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کے منصوبے بنالیں، لیکن اگر عوام صحت جیسی بنیادی سہولت سے ہی محروم رہے تو یہ ساری ترقی کس کام کی؟

پڑھیے: سندھ شدید بیمار ہے سائیں

ہمیں معلوم ہے کہ معاشی ترقی اہم ہے اور سڑکوں کے جال بہت ضروری ہیں لیکن گزارش بس اتنی سی ہے کہ ہسپتالوں کے بھی جال بنوائیے کہ اِس کی ضرورت شاید سب سے زیادہ ہے۔ ایک عام آدمی کو صحت کی سہولیات فراہم کریں، صحت مند لوگ ہی ایک بہتر افرادی قوت بنتے ہیں جو معیشت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

آپ خود بتائیے کہ کیا فائدہ اُن کشادہ سڑکوں کا جو صرف ہسپتالوں سے اپنے پیاروں کی میتیں گھر لے جانے یا صرف بچے جننے کے کام آئیں؟ آپ بھوک سے مرتے شخص کو کھانا دینے کے بجائے عالی شان محل دے کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ نے اُس کی ضرورت پوری کردی، اُسے تو آپ تاج محل بھی تحفہ میں دے دیں تو وہ اُسے ٹھوکر مار کر گزر جائے گا۔

اِسی طرح اگر آپ نے اِس اہم شعبے کو صرف اپنے وزیروں مشیروں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا تو پنجاب کی عوام بھی اگلے الیکشن میں آپ کے اقتدار کو ٹھوکر مار کر گزر جائیں گے، جب اپنے بچھڑتے ہیں تو بڑے بڑے منصوبوں کو بھولنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگتی۔

اِن واقعات کے بعد لازم ہے کہ پنجاب کے ساتھ ملک بھر میں شعبہ صحت میں ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ ماں کی عظمت کو اب مزید پامال نہ کیا جائے۔

تبصرے (2) بند ہیں

I. M. KHAN Oct 22, 2017 03:11pm
us se bada unfortunate, unlucky budqismat koee nahi jo Pakistan main ghareeb, kamzor aur bayWaseela paida ho !!!!
Pathan Oct 22, 2017 05:11pm
We people will again vote for these (sheer, sheer)!!!!