بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کی حالیہ سیاست، سیاست سے کہیں زیادہ اُس سلسلہ وار کہانی کی شکل اختیار کرچکی ہے جس میں بیک وقت جذباتیت، سطحیت، مزاح، حماقت، یوٹرن اور نجانے کیا کیا شامل ہوچکا۔

پاکستان بنانے والے پڑھے لکھے مہاجروں کی نئی نسل کی سیاست دیکھ کر اب بہت افسوس ہوتا ہے کہ کیا تھے، کیا ہوگئے۔

گزشتہ تین چار روز میں ہونے والی تبدیلیوں کے بابت کراچی کے صحافتی حلقوں میں پہلے سے ہی بات ہورہی تھی کہ اب پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے، چاہے وہ پاکستان کے نام سے ہوں، پاک سرزمین پارٹی یا دبئی میں بیٹھے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد، سب کو ایک ہی منزل کا راہی بن جانا ہے۔

بدھ کی سہ پہر جب مختلف نشریاتی اداروں کی اسکرینز پر سرخ پٹیاں چلنے لگیں کہ فاروق ستار نے اہم پریس کانفرنس بلُا لی ہے تو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کا جمِ غفیر پلک جھپکتے پریس کلب پہنچ گیا جہاں فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال نے ایک اور تاریخی پریس کانفرنس کرنی تھی۔

دھماکہ خیز پریس کانفرنسوں کا طویل تجربہ پیپلزپارٹی کے سابق رہنماء ذوالفقار مرزا بھی رکھتے ہیں، خیر۔

متحدہ و پی ایس پی کی مشترکہ پریس کانفرنس سے ایک ہی بات سمجھ آئی کہ جو کچھ ہوا بہت تیزی اور کچھ بھونڈے انداز سے ہوا ہے، جلد بازی کا عنصر بتارہا تھا کہ دیگ وقت سے پہلے ہی اتر گئی اور بہت سے دانے کچے رہ گئے ہیں، یہی وجہ تھی کہ پریس کانفرنس میں بیک وقت اتحاد و انضمام کی بات ہوئی اور پھر یہی بات اس قدر آگے بڑھی کہ فاروق ستار جیسے صلح جو لیڈر نے اپنے بانی و قائد کی روش پر چلتے ہوئے سیاست و پارٹی قیادت سے الگ ہونے کا چند گھنٹوں کا فیصلہ کرلیا۔

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ان کی غیر موجودگی میں ہوا اور اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ یہ سیاسی اتحاد ہے نہ کہ انضمام۔

شاید یہی بات فاروق ستار سیدھا دل پر لے گئے اور پارٹی سے روٹھ کر اپنے گھر چلے گئے، بعدازاں رابطہ کمیٹی ان کی رہائش گاہ پہنچیں اور بقول فاروق ستار کہ ان کی والدہ کے پیر پکڑ کر متحدہ پاکستان کی قیادت نے انہیں دوبارہ سیاست میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔

کہانی کا یہ جذباتی لمحہ بھی مکمل ہوا اور دو دن پہلے پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ ایک منشور و نشان کے تحت الیکشن لڑنے کا اعلان کرنے والے فاروق ستار نے نوید دی کہ ایم کیو ایم کا نام و نشان برقرار رہے گا، اب موجودہ صورتحال کب تک رہتی یہ الگ معاملہ ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے ایم کیو ایم و پی ایس پی کے اشتراک کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بے جوڑ نکاح دراصل ڈرامہ بازی اور جہیز کو لوٹنے کی ایک کوشش ہے، جسے تسلیم نہیں کرتے۔

پاکستان کے دیگر شہروں میں بسنے والے لوگوں اور بالخصوص سیاسی کارکنوں میں یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ مہاجر سیاست کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور 2018 کے عام انتخابات میں کس جماعت کو اپنی نمائندگی سونپے گا؟

سچی بات تو یہی ہے کہ اردو بولنے والوں کی اکثریت کا ووٹ اس وقت بھی ایم کیو ایم لندن سے جُڑا ہوا ہے اور اس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان سے، الطاف حسین سے اردو بولنے والوں کے اس تعلق کی الگ وجہ ہے جسے تلاش کرنے کے لیے ایوب خان کے دور اور بعدازاں سندھی اردو تنازعے، اور پھر کوٹہ سسٹم نے اس خلیج کو مزید تقسیم کیا، کے ابواب کھولنے پڑیں گے۔

الطاف حسین سے بطور مہاجر شناخت پانے والی قوم بتدریج قومی سیاست سے لسانیت اور نسل پرستی کی سیاست کی اسیر ہوگئی اور بدقسمتی سے اب تک اس سے نہ نکل سکی، اس دوران کچے و پکے قلعے کے سانحات اور 12 مئی جیسے واقعات نے صورتحال کو تبدیل کیا اور گزشتہ برس پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر الطاف حسین نے سیاسی صورتحال کو مکمل طور پر تبدیل کرلیا۔

یہ الگ موضوع ہے کہ الطاف حسین کی نظریاتی ایم کیو ایم کیسے بھتے اور قتل و غارت گری کی جانب متوجہ ہوئی اور لیاقت آباد میں رہنے والی غریب قیادت ڈیفنس کے پوش بنگلوں میں منتقل ہوئی؟ ممکن ہے کہ الطاف حسین یہاں ہوتے اور انہیں لندن میں اخراجات کے واسطے بھاری رقوم درکار نہ ہوتیں تو شاید مہاجر سیاست اپنے علاقوں میں رہتی اور شاید کرپشن اس درجے کو نہ پہنچتی اور نہ ہی شہری ادارے یوں برباد ہوتے۔

کراچی میں جاری آپریشن نے ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کو کمزور کردیا، جس کا ٹیسٹ کیس نائن زیرو چھاپے اور صولت مرزا کی پھانسی کے بعد شہر کھلا رہنا اور ایک گملا بھی نہ ٹوٹنا تھا، اعصاب کی اس جنگ میں ایم کیو ایم کو شکست ہوئی لیکن انتخابی میدان میں وہ ابھی بھی ایک حقیقی چیلنج ہے جس کا مقابلہ پاک سرزمین پارٹی کرنے میں ناکام رہی ہے، البتہ 2013 کے عام انتخابات میں کراچی والوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دے کر الطاف حسین کو سرپرائز دیا تھا لیکن خود تحریک انصاف ہی اپنی طرف آنے والے ووٹ کو سنبھالنے سے قاصر رہی جس کی وجہ سے یہی ووٹ دوبارہ ایم کیو ایم پاکستان کی طرف جاچکا، کراچی کی سیاست پلٹ ضرور رہی ہے مگر فی الحال اس میں جوہری تبدیلی کا امکان نہیں ہے کیونکہ ووٹر بہرحال ایم کیو ایم کے ساتھ ہے اور وہ تقسیم کچھ یوں ہے۔

ایم کیو ایم العالمی

ایم کیو ایم المقامی

ایم کیو ایم الحقیقی

ایم کیو ایم الزمینی

یعنی لندن پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان ہی رہے گا، اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ووٹ مہاجر نظریے ہی کا ہے، مگر کسی قدر ترمیم کیساتھ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں