چوکنڈی قبرستان: شہرِ خموشاں بھی اور دیارِ فن بھی

چوکنڈی: شہرِ خاموشاں بھی اور دیارِ فن بھی

ابوبکر شیخ

اِس زمین پر ایسا کوئی وجود نہیں جس کا ماضی نہ ہو۔ ہر ایک شے نے مختلف ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد اپنی موجودہ شکل اختیار کی ہے۔

ہم اپنے ماضی کی پرچھائیوں میں سے جنم لیتے ہیں اور پھر جس طرح ہم کسی کا تسلسل برقرار رکھنے کا بہانہ بنے بالکل ویسے ہی ہم بھی اپنے نشانات و آثار پیچھے چھوڑ جائیں گے جو ہمارا تسلسل گردایا جائے گا۔ آپ اِس سلسلہءِ تسلسل کو ذمہ داری بھی کہہ سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو اعزاز بھی پکار سکتے ہیں، کیونکہ سلسلے کی کڑی بننا بھلا عام بات ہے؟

یہ جو انگنت مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے ہیں وہ یقیناً اچانک تو نہیں نمودار ہوگئے، بلکہ اِن کا جنم بھی تاریخ کی گواہی میں چلتے ایک تسلسل کا ثمر ہے، جس نے ان کو خُوب سے خُوب تر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید یہ بڑے بڑے خوبصورت شہر، راستے، گلیاں، باغات اور رنگوں کی شوخی سے بھرے گُلستان نہ ہوتے، اور بھی نہ جانے کتنے رنگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتے۔

چلیے میں آپ کو زیادہ نہیں 200 برس پہلے کی ایک مختصر سی بات بتاتا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں مُسلمان عورتیں فارسی اور عربی میں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ کیا زمانہ تھا کہ نمک کا اُونٹ ایک روپے میں ملتا، چاول دس آنے کا ایک من ملتا اور ڈھائی من گندم ملتے ایک روپیے کے۔ اور میر صاحبان جو حاکم تھے اُن کے پاس کراچی میں 30 کے قریب سمندری جہاز اور ایک سو کے قریب بیوپاری کشتیاں ہوا کرتیں۔ کراچی کا شہر 40 ایکڑ سے زیادہ وسعت میں نہیں تھا ہاں البتہ شہر پناہ ضرور تھا۔ ہماری اصلی کہانی کراچی شہر کے مضافات میں کہیں ہے اِس لیے میں نے ماضی کے کراچی کی ایک آدھ جھلکیاں آپ کے تخیل میں نقش کرنے کی کوشش کی۔

ہم آج جس سفر پر نکل پڑے ہیں اُس کے تسلسل کی ڈور 650 برس کی طویل پگڈنڈی پر بچھی ہوئی ہے۔ کراچی کے مرکز سے ملیر کے کالابورڈ کی طرف چلنا شروع کریں اور پھر ٹھٹھہ کو جاتا راستہ لیں تو 18 کلومیٹر کے فاصلے پر رزاق آباد سے پہلے مرکزی راستے سے شمال کی طرف ایک ٹوٹا پھوٹا سا لِنک روڈ نکلتا ہے، یہاں صدیوں پرانی مزاریں ہیں۔

آپ جیسے ہی شُمال کی طرف مُڑتے ہیں تو زرد پتھروں کا ایک قبرستان نظر آتا ہے۔ اصل نام تو نہ جانے کیا ہوگا مگر یہ 'چوکنڈی' کے نام سے مشہور ہے۔ عرصہ دراز سے محققین اِس تحقیق میں مصروف ہیں کہ یہ نام ’چوکنڈی‘ آخر پڑا کیسے؟

چوکنڈی قبرستان—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی ایک مخصوص قسم کی تعمیر کا نام ہے—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی ایک مخصوص قسم کی تعمیر کا نام ہے—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان پر آویزاں بورڈ—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان پر آویزاں بورڈ—تصویر ابوبکر شیخ

چند محققین کا خیال کچھ یوں ہے کہ، چوکنڈی ایک قدیم تعمیر کے ایک قسم کا نام ہے، یہ بناوٹ جہاں بھی ہوگی اُسے چوکنڈی کہا جائے گا۔ کسی کا خیال ہے کہ چوکنڈی سے مُراد قبر ہے۔ چند کا خیال ہے کہ جن قبروں پر جہاں چھتری بنی ہوئی ہو مگر چھت نہ ہو اُسے اِسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر کئی روایات اور تحقیقات بھی دستیاب ہیں۔

چوکنڈی قبرستان میں قبر پر بنی ایک چھتری—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان میں قبر پر بنی ایک چھتری—تصویر ابوبکر شیخ

ایک رائے کے بارے میں کلمتی صاحب لکھتے ہیں کہ،

’عام لوگ لفظ چوکنڈی کو لے کر کچھ خاص پریشان نہیں، وہ قبر اور اُس قبر کے اوپر بنی ہوئی چھتری (Canopy) کو ہی چوکنڈی پکارتے ہیں، بلکہ لوگ تو اِن قبرستانوں کے لیے بھی اسی نام کو استعمال کرتے ہیں، جیسے وہ اِس چوکنڈی کے مقام کو جام مُرید جوکھیو کے مقام (قبرستان) کے نام سے جانتے ہیں۔‘

یہ بات ہمیں حقیقت کے ذرا قریب لے آتی ہے کہ چار کونوں کے تھلے پر بنی ہوئی تعمیر کو چوکنڈی کہا جاتا ہے، بھلے ہی اُس پر اگر ستون 4 ہوں، 6 ہوں یا اُس سے زائد ہیں تو بھی چوکور شکل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مرنے والے کی شان و شکوت ظاہر کرنے کے لیے قبروں پر مختلف اشکال نقش کندہ کیے جاتے تھے—تصویر ابوبکر شیخ
مرنے والے کی شان و شکوت ظاہر کرنے کے لیے قبروں پر مختلف اشکال نقش کندہ کیے جاتے تھے—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان —تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان —تصویر ابوبکر شیخ

قبروں کے جیومیٹریکل اور فلورل ڈیزائن—تصویر ابوبکر شیخ
قبروں کے جیومیٹریکل اور فلورل ڈیزائن—تصویر ابوبکر شیخ

قبروں کے جیومیٹریکل اور فلورل ڈیزائن—تصویر ابوبکر شیخ
قبروں کے جیومیٹریکل اور فلورل ڈیزائن—تصویر ابوبکر شیخ

آپ جب پہلی بار یہاں پہنچتے ہیں تو حیرانگی کی فاختائیں آپ کے ذہن کے آسمان پر اُڑتی ہیں۔ آپ کے سامنے زرد پتھر کی خوبصورت تراشیدہ قبروں کا ایک جنگل سا اُگا ہوا ہے اور جن کی جڑیں صدیوں کے شب و روز میں کہیں پیوستہ ہیں۔ گزرے ہوئے وقت کی یہ ہی ایک خاصیت ہے کہ وہ اسراروں سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ ہی خاصیت شاید اِس کے سحر کو لاکھوں کروڑوں برسوں سے سنبھالے ہوئے ہے۔ یہاں بھی پُراسرار اِسراروں کی ایک دُنیا آباد ہے جو ہمیں کھینچ کر یہاں لاتی ہے۔

ایک ایسا قبرستان جہاں وقت گزارنے کو جی چاہے۔ چھوٹی بڑی اور تراشیدہ ہزاروں قبریں ہیں اور ہر قبر کے پاس اپنی داستانوں کی گٹھڑی ہے جو وہ سُنانے کے لیے بے تاب ہے کہ، اُن قبروں پر سے ساڑھے 6 سو برس کے جاڑوں، بہاروں، بارشوں اور تپتی دوپہروں کے موسم کیسے گزرے ہیں اور اُن زرد پتھروں پر تراشے ہوئے پھولوں کی آنکھوں نے نہ جانے اپنے آس پاس کیا کیا مناظر دیکھے ہوں گے۔ چلیے اُن گزرے دنوں کی تلاش میں ہم بھی اِس قبرستان کی خاموشی میں پنہاں دنوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

چوکنڈی قبرستان —تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان —تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان میں سنگتراشی کا صدیوں پرانا کام—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان میں سنگتراشی کا صدیوں پرانا کام—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان میں سنگتراشی کا صدیوں پرانا کام—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان میں سنگتراشی کا صدیوں پرانا کام—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان میں قبروں پر دیدہ زیب نقوش کندہ کیے گئے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان میں قبروں پر دیدہ زیب نقوش کندہ کیے گئے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

اب تک جو بھی آرکیالاجی کے ماہر اور محققین یہاں آئے ہیں اُن میں سے 'ہینری کزنس'، 'ایم اے غفور' اور 'ممتاز حسین' کا یہ کہنا ہے کہ یہ بلوچوں کے قبرستان ہیں۔ جبکہ 'بینرجی' اور دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ قبرستان جوکھیوں کا ہے۔ اِس حوالے سے 'مرزا کاظم رضا بیگ' تحریر کرتے ہیں کہ،

’چوکنڈی کے قبرستان کے کتبوں کو اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہاں متعدد قبائل کے لوگوں کی قبریں ملتی ہیں۔ جیسے: داد خان جوکھیو، مسمات اجازا، ساحر جوکھیو، جام رادھو جوکھیو، بخار بن چاٹو جوکھیو وغیرہ۔ اِس کے علاوہ ’جام‘ بھی نام سے پہلے لکھا ہوا ملتا ہے جیسے: جام مُرید بن جام حاجی، میران بن جام رادھو، دودو بن جام مہر علی وغیرہ جو ’سمہ‘ خاندان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اِس قبرستان میں ’نومڑیوں‘ (بُرفتوں) کی بھی قبریں ہیں، اِس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ قبائل جو گرد و پیش میں رہتے تھے اُن کے لوگ یہاں دفنائے گئے ہوں گے جیسے جوکھیے، کلمتی بلوچ، برفت وغیرہ۔‘

اِس حوالے سے تحقیق کرنے والے محترم گُل حسن کلمتی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ،

’کوہستان، ملیر، منگھوپیر، گڈاپ اور حب کے علاقے زراعت سے وابستہ تھے جہاں کلمتی، جوکھیا اور بُرفت قبیلے موجود تھے۔ وہ زراعت کے ساتھ گلہ بانی بھی کرتے جس کی وجہ سے اُن کے معاشی حالات کافی بہتر تھے۔ 15ویں صدی میں ’بالاکوٹ‘ کے مَلکُوں میں سے ملک حاجی خان ولد میر نوتق‘، بڑچھوں کو شکست دے کر ملیر سے گھارو تک کا پورا علاقہ اپنے قبضے میں کیا اور ملیر ریاست کی بُنیاد رکھی جو حب سے میرپور ساکرہ کے مغرب میں واقع اراضی میں قائم رہی۔‘

تاریخ مظہر شاہجہانی‘ کے یوسف میرک تحریر کرتے ہیں،

’ساکرہ پرگنو کی طرف کرمتی (کلمتی) بلوچ اور جوکھیو قبائل کے لوگ رہتے ہیں، اِن کی تعداد پیادوں اور گھڑ سواروں سمیت 3 ہزار کے قریب ہے۔ یہ لگان کے طور پر ٹھٹھہ حکومت کو اُونٹ اور دُنبے دیتے ہیں۔ یہ قبائل جھگڑالو ضرور ہیں مگر خوامخواہ نہیں لڑتے۔ یہ وقفے وقفے سے ’سیہون‘ کی طرف والوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ البتہ اِن کی بُرفتوں سے دشمنی شروع سے چلی آرہی ہے۔ مگر بُرفت تعداد میں زیادہ ہیں اور طاقتور ہیں۔‘

چوکنڈی قبرستان میں میدانِ جنگ میں زندگی کی بازی ہارنے اور طبعی موت مرنے والوں کی قبریں موجود ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان میں میدانِ جنگ میں زندگی کی بازی ہارنے اور طبعی موت مرنے والوں کی قبریں موجود ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان کے ستونوں پر کندہ دیدہ زیب نقوش —تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان کے ستونوں پر کندہ دیدہ زیب نقوش —تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان کی ایک قبر—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان کی ایک قبر—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان کی ایک قبر—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان کی ایک قبر—تصویر ابوبکر شیخ

'جنت السندھ' کے مصنف رحیمداد مولائی شیدائی اس بات کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ،

’اورنگزیب 1649ء میں جب مُلتان کا نائب تھا تب اُس نے اپنی سیاسی چالبازیوں سے بُرفتوں، نوحانیوں، ھوتوں، جوکھیوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کردیا۔‘

مولائی شیدائی آگے چل کر لکھتے ہیں،

’اورنگزیب نے اپنی حکومت کے دنوں میں بلوچوں کی فوجی چوکیاں قائم کروائیں، اُن دنوں کلمتی سرداروں کو دہلی دربار سے، میرپور ساکرہ میں جاگیریں ملنے کے سوا سالانہ 960 روپیے کا وظیفہ بھی ملتا تھا۔ دہلی حکومت نے کلمتیوں کی طرح نومڑیوں سے بھی رعائیتیں کیں۔ پہلے وہ زمینوں پر لگان دیتے تھے لیکن پھر ٹھٹھہ سے کوٹری اور سیہون جانے والے قافلوں سے محصول وصول کرنے پر مقرر ہوئے۔‘

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سمندری کنارہ، کراچی کے قرب و جوار سے لے کر حب تک جن قبائل کے نام ہمیں ملتے ہیں، اُن میں کلمتی بلوچ، جوکھیا اور بُرفت نمایاں نظر آتے ہیں۔ اُن کی اکثر آپس میں کبھی نہیں بنی۔ یہ دوسروں سے تو یقیناً لڑ پڑتے تھے جس طرح ہم پڑھ آئے ہیں مگر آپس میں بھی لڑ پڑتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُن میں لڑائی ہوجاتی۔ مگر ایک بات جو اِن قبائل کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ، اِن کی کہیں نہ کہیں آپس میں کیمسٹری ضرور ملتی تھی۔ اِن کے قبرستان اکثر ساتھ ہیں، اِن کی قبروں کی بناوٹ بھی تقریباً ایک جیسی ہے۔ یہ قبائل جہاں جہاں آباد ہوئے ساتھ ساتھ ایک اراضی میں آباد ہوئے۔ اب اِن ساری حقیقتوں کا محرک یہ بھی ممکنات میں آتا ہے کہ یہ ایک جیسے معروضی حالات سے آئے اور اِن کا ذریعہ معاش بھی تقریباً ایک جیسا ہی رہا اور یقیناً طبیعتاً بھی کوئی بڑا فرق نہیں ہوگا، اِس لیے یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ اکثر رسم و رواج بھی ایک جیسے ہوتے ہوں گے۔

چوکنڈی قبرستان—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان—تصویر ابوبکر شیخ

علی احمد بروہی صاحب لکھتے ہیں،

’16ویں صدی کے آخر تک ملیر کے علاقے میں کلمتی بلوچوں اور بُرفتوں کے نام کا سِکہ چلتا تھا، جوکھیوں کا قبیلہ جو اِس وقت چوکنڈی قبرستان کا اپنے کو مُتولی سمجھتا ہے، وہ کوہستان سے اِن دونوں قبیلوں سے بہت بعد میں آکر یہاں آباد ہوا تھا اور جلد ہی اِن میں چپقلش کی ابتدا ہوئی اور پھر اِن کی آپس میں جو لڑائی ہوئی اُس کا سبب اور کچھ نہیں بس قبروں پر بنی سنگتراشی کی خوبصورتی تھی۔ کسی نے کہا ہوگا کہ، اِس قبر پر کتنے خوبصورت پھول بنے ہیں یا یہ کہ ہماری قبر پر کتنا خوبصورت گھڑ سوار بنا ہے، تو دوسرے قبیلے والے نے اُس کے برعکس بات کی ہوگی، اور یوں باتوں میں باتوں میں جنگ لگ گئی اور آپس میں لڑ پڑے۔ کہتے ہیں کہ اُس جنگ کے بعد کلمتی، میمن گوٹھ ملیر میں ’تھدھو‘ ندی کے کنارے آکر آباد ہوئے اور یہ قبرستان جوکھیوں کے حوالے ہوا اور جوکھیوں کے کئی سردار یہاں اِسی قبرستان میں دفن ہیں۔‘

ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ یہ قبیلے کھیتی باڑی کرنے کے ساتھ گلہ بانی بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے اِن کے معاشی حالات انتہائی مُستحکم تھے۔ وہ خانہ بدوش ضرور تھے مگر اپنے بہادروں اور بڑوں کی عزت کرنا خوب جانتے تھے۔ وہ اپنے بڑوں کی قبروں کو منفرد بنانے کے لیے اخراجات کی پرواہ نہیں کرتے تھے، جہاں بھی رہے، جہاں جنگ کا میدان لگا وہیں پر قبرستان بنا اور پھر وہاں اِس طرز کی قبروں کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ راج ملک جاتی (سجاول) سے لے کر پوری ساحلی پٹی اور کوہستان تک سینکڑوں ایسے قبرستان ہیں جو اپنے اندر سنگتراشی کی ایک وسیع دُنیا رکھتے ہیں۔

اِن قبروں پر تحقیق کرنے والے محترم گل حسن کلمتی سے پوچھا کہ اِن قبروں پر کئی تصاویر اور نِشانیاں نظر آتی ہیں جیسے، پَرندے، اُونٹ، مور، فاختہ، عورتوں کے زیورات وغیرہ کی تو اُن کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا،

’آپ نے دُرست فرمایا، اِن قبروں پر جو پُھول بوٹے اور تصاویر اور عورتوں کی قبروں پر جو زیورات اتنی نزاکت اور نفاست سے بنائے گئے ہیں وہ اُس زمانے کی ثقافت اور روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں کا پتہ دیتے ہیں۔ کچھ قبروں پر بُدھ اور جین مت کی نشانیاں بھی کندہ ہیں، اصل میں یہ نشانیاں وادئ سندھ کی تہذیب کی باقیات ہیں، کیونکہ وادئ سندھ کی تہذیب مختلف مذاہب کی آماجگاہ رہی ہے، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے وہ نشانیاں سنبھال کر رکھیں جو اُنہیں بھا گئیں اور اپنی ثقافت میں خوبصورتی کے لیے شامل کرلیا اور اِن نشانیوں کو اپنے سوئی دھاگے کے کام میں پھول بوٹوں اور دوسری نشانیوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جب جب موقعہ ملا انہوں نے اُن نشانیوں کو اپنے اظہار کے لیے استعمال کیا۔ یہ قبرستان بھی اِس اظہار خیال کا ایک اچھا ذریعہ بنے اور اُن لوگوں نے سنگتراشی کا فن رومن کی طرح مذہبی میدان سے نکال کر کُھلی فضاؤں میں لے آئے جس کی وجہ سے ہم یہ شاندار قبرستان دیکھ پا رہے ہیں۔‘

عورتوں کی قبروں پر نقش زیورات—تصویر ابوبکر شیخ
عورتوں کی قبروں پر نقش زیورات—تصویر ابوبکر شیخ

قبروں پر وادئ سندھ کی تہذیب کی قدیم نشانیاں بھی نظر آتی ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
قبروں پر وادئ سندھ کی تہذیب کی قدیم نشانیاں بھی نظر آتی ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان ایک اہم ثقافتی ورثہ ہے—تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی قبرستان ایک اہم ثقافتی ورثہ ہے—تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی قبرستان کی قبروں پر نقوش شاندار فن سنگتراشی
چوکنڈی قبرستان کی قبروں پر نقوش شاندار فن سنگتراشی

اِس قبرستان کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کے لیے ضروری تھا کہ ہم اُن لوگوں کے ماضی کے مُتعلق اچھی طرح جان سکیں کہ وہ کِن موسموں، سیاسی حالات، معروضی حالات اور کِن کامیابیوں اور ناکامیوں سے اُلجھتے رہے۔ مگر اُن کے اپنے پیاروں کی جب کسی بھی سبب سانس کی ڈوری ٹوٹی، چاہے گھر کے آنگن میں ٹوٹی ہو یا جنگ کے میدان میں، پر انہوں نے اپنے خونی رشتوں کو بڑے تقدس، عزت و احترام سے مٹی کی گود میں لٹادیا اور اُس بچھڑنے والے وجود کی تکریم میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پھر اُسے ہمیشہ یاد رکھنے کیلئے اِن شاندار قبروں کی تعمیر کا خیال اِن کے ذہن میں آیا اور اُس خیال کو جب عملی جامہ پہنایا گیا تو وہ اُس سادہ سے پتھر میں اندر کی کیفیتوں کی سنگتراشی کے روپ میں ایسے رنگ اور خوبصورتی تراش دی گئی جس کو بے وفا وقت کی بے رحمی کی کم ہی پرواہ ہے۔

اِس لازوال خوبصورتی کو نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ کلیم لاشاری صاحب نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ،

’پتھر پر پگڑی کو تراشنے کا یہ رواج اس سنگتراشی کے فن کے وسیلے ایک دور کی تاریخ، تہذیب، روزمرہ کی زندگی اور ثقافت ہمارے سامنے عیاں ہوجاتی ہے۔ اُس زمانے میں پڑھنے لکھنے کا رواج زیادہ نہیں تھا اِس لیے اِن پتھروں پر پھول پتیوں اور مُختلف تصاویر اور تصورات کے ذریعے اپنی تاریخ کو آنے والی نسلوں تک ایک بہتر انداز میں پہنچانے کا کام اِن قبرستانوں نے بڑی ہی خوبصُورت انداز سے انجام دیا ہے۔‘

یہ یقیناً ہمارا ایک اہم ثقافتی ورثہ ہے جو اِس ’چوکنڈی‘ (جام مُرید جوکھیو قبرستان) کے سوا اور ایسے 50 سے زائد قبرستانوں کی صورت میں بکھرا ہوا ہے اور جس میں توسیع کا عمل رُک گیا ہے۔ اِس نازک و نفیس کام کی نزاکت گزشتہ برسوں کے گرد و غُبار میں کہیں کھو سی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں کلمتی صاحب کا کہنا ہے،

’میرے خیال میں اِس کے دو اسباب ہیں ایک تو قبائلی لڑائیوں، خطرناک قحط، بیماریوں اور بڑھتی آبادی نے اِن لوگوں کی معیشت کو شدید طریقے سے متاثر کیا، خوشحالی کا زمانہ جب اپنے اختتام کو پہنچا تو یہ لوگ اپنے قبرستانوں کے بنانے کی روایت کو تسلسل کا پانی نہ دے سکے جس کی وجہ سے اِس فن سے جو وابستہ لوگ تھے وہ اِس سنگتراشی کے ہنر کو ترک کرکے دوسرے روزگار کی تلاش میں نکل پڑے۔ اِس طرح یہ فن زمانے کی اِسی معاشی بے دردی کی اِس اتھل پتھل میں کہیں گُم ہوگیا۔‘

چوکنڈی یا اِس طرز کے دیگر قبرستانوں کی قبروں پر کیے گئے سنگتراشی کے کام کے حوالے سے یہ تحریر ایک چھوٹی سی کوشش ہے مگر اِس حوالے سے انتہائی وسیع پیمانے پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ جو اِن حوالوں سے کام کرنا چاہتے ہیں اُن کے پاس وسائل نہیں ہیں، اور جن کے پاس وسائل ہیں اُن کو اِن ثقافتی ورثون پر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر اِس روش کو بدلنا ہوگا۔ اگر یہ روش نہ بدلی تو وقت بہت کچھ بدل دیتا ہے کہ وہ سب سے بڑا منصف ہے۔

حوالہ جات:

۔ ’کراچی سندھ جی مارئی‘۔ گُل حسن کلمتی

۔ ’سندھ جا قدیم آثار‘۔ ہینری کزنس۔مترجم: عطا محمد بھنبھرو

۔ ’تاریخ مظہر شاہجہانی‘۔ یوسف میرک۔ مترجم: نیاز ہمایونی

۔ مرزا کاظم رضا بیگ۔ آرٹیکل:’چوکُنڈی جو تاریخی قبرستان‘

۔ ’تصویر سندھ‘۔ ایم ایچ پنھور


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔