’پُتر! ایک بار پھر سوچ لے، بہت بڑا فیصلہ ہے۔‘ ابّا جی نے زمین کے کاغذات پر انگوٹھا لگانے سے پہلے اپنے بیٹے انور کی طرف دیکھا۔

’بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے ابّا جی! آپ بس انگوٹھا لگائیں، اِس تھوڑی سی زمین کے بدلے کئی ایکڑ لے کر دے دوں گا میں آپ کو۔‘ انور ابّا جی کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

’ملک صاحب تو کہہ رہے تھے کہ باہر کے ملکوں میں بھی آج کل بس یہاں والا ہی حال ہے۔ وہاں پڑھے لکھے لوگوں کو بڑی مشکل سے نوکریاں ملتی ہیں تو نے تو پاس بھی بس آٹھ جماعتیں ہی کی ہیں، تجھے بھلا کون نوکری دے گا؟ اور اوپر سے تو جا بھی تو غیر قانونی رہا ہے، کاغذ بنتے بنتے نہ جانے کتنے سال لگ جائیں۔‘

’سب جلتے ہیں ابّا جی! ملک صاحب کا اپنا بیٹا بھی تو یونان میں ہے، وہ یہاں کونسا جانے سے پہلے ڈاکٹر لگا ہوا تھا، دکان ہی چلاتا تھا ناں۔‘ انور نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’اور ملک صاحب سے پوچھنا تھا کہ اُسے ہر مہینے خرچہ آپ پاکستان سے بھیجتے ہیں کیا؟ سب ڈرامے ہیں ابّا جی! بس کسی اور کی کامیابی برداشت نہیں ہوتی اِن لوگوں سے، یہ سوچتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے منہ میں ہی ڈل جائے۔‘ وہ طیش میں آگیا تھا۔

’پُتر! تیری اور تیری بہن کی شادی کرنے کے بعد یہی بس تھوڑی بہت زمین بچی ہے ہمارے پاس۔‘ ابّا جی کا دل مطمئن نہیں ہو پارہا تھا۔ ’اور عزت سے اچھی بھلی دو وقت کی روٹی مل رہی ہے تو کیا ضرورت پڑی ہے جان جوکھوں میں ڈال کر باہر جانے کی؟ ہمیں نہیں چاہیے تیرے ڈالر۔‘

’خاک عزت سے مل رہی ہے ابّا جی! آپ کے سامنے ہی ہے سب، پورا مہینہ گدھوں کی طرح کام کرو تو پھر بڑی مشکل سے کچن چلتا ہے، اور جان جوکھوں میں ڈال کر جانے سے کیا مطلب ہے آپ کا؟ صرف ایران کا بارڈر پار کرنا ہے جیپ پر، وہاں بھی ساری سیٹنگ ہوئی ہوتی ہے پہلے سے۔ آگے تو تقریباََ سارا سفر بس جہاز کا ہی ہوگا۔‘

’وہاں جا کر بھی تو تو نے کام ہی کرنا ہے، یہیں کرتا رہ چپ کرکے۔‘ ابّا جی بولے۔

’وہاں اِس طرح کام نہیں کرنا پڑتا جیسے یہاں کرنا پڑتا ہے، سارا کام تو وہاں مشینیں کرتی ہیں۔ تھوڑا کام کرو زیادہ پیسے ملتے ہیں، اور اتنے پیسے میں یہاں ساری زندگی نہیں کما سکتا جتنے وہاں جاکر چند مہینوں میں کما لوں گا۔‘

’پتہ نہیں کیوں میرا دل نہیں مانتا۔‘ ابّا جی کاغذات پیچھے کرتے ہوئے بولے۔

’ابّا جی! آپ صرف اپنی زمین نہ بیچنے کے لیے یہ سب کہہ رہے ہیں ناں، چلیں رکھ لیں یہ زمین اپنے پاس، میں کوئی اور حساب لگا کر چلا جاؤں گا، مگر اب میں یہاں رہنے والا نہیں۔‘ انور غصّے سے بولا۔

’زمین کی کس کمبخت کو پرواہ ہے، مجھے تو تیری پرواہ ہے۔ ایسا کر تو یہ زمین بیچ لے، جو پندرہ لاکھ روپے ایجنٹ کو دینے ہیں اُس سے یہیں پر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلے۔ ملک صاحب کہہ رہے تھے کہ وہاں غیر قانونی طریقے سے جانے والوں کو کوئی کام دیتا ہے نہ رہائش اور پکڑے جائیں تو فوراََ اپنے ملک ۔۔۔‘

’پھر وہی ملک صاحب؟ ابّاجی آپ اُن سے آخر مشورے لیتے ہی کیوں ہیں؟‘ وہ غصّے سے ابّا جی کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

پڑھیے: یورپ کی میٹھی جیل

’ایجنٹ بتا رہا تھا کہ یہ پندرہ پندرہ لاکھ تو تم لوگ پہلے چھ مہینوں میں ہی پورے کرلو گے، آگے تو بس موج ہی موج ہے۔ آپ خود بتائیں کیا اتنے پیسوں میں یہاں کوئی ایسا کاروبار ہوسکتا ہے جس میں اتنا زیادہ منافع ہو؟ اور ہم نے کونسا سارے پیسے ایک ساتھ دینے ہیں جو ہمیں کوئی ڈر ہو، آدھے سے زیادہ رقم تو وہاں پہنچنے کے بعد دینی ہے تو ڈر کیسا؟‘

’آپ کیوں ضد باندھ کر بیٹھ گئے ہیں؟ ایک ہی ایک تو بیٹا ہے ہمارا، اگر ہم سے دور جانے میں ہی اِس کی خوشی ہے تو زمین بیچ کر دے دیں پیسے اِسے، یہ اپنے خواب پورے کرلے۔‘ امّی دوپٹے سے آنسو پونچتے ہوئے بولیں۔

’سب کی بھلائی کے لیے ہی جا رہا ہوں، امّی!‘

’تیرا دل نہیں کانپے گا اِن معصوموں کو اکیلاچھوڑ کر جاتے ہوئے۔‘ ابّا جی انور کی پانچ سالہ بیٹی فاطمہ اور دو سالہ بیٹے ثاقب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے، وہ کسی بھی طرح انور کو جانے سے روکنا چاہتے تھے۔

’ابّو! سدرہ کہہ رہی تھی کہ اُس کے ابّو جب باہر جائیں گے تو اُس کے لیے بولنے والی گڑیا لائیں گے، آپ بھی میرے لیے باتیں کرنے والی گڑیا لاؤ گے ناں؟‘ ننھی فاطمہ نے معصومیت سے پوچھا۔

’ہاں بیٹا پہنچتے ہی بھجوا دوں گا۔‘ انور فاطمہ کے گال تھپتھپاتے ہوئے بولا۔

’اب عارف نے پچھلے دو ماہ سے اپنا مکان بیچنے پر لگایا ہوا ہے مگر کوئی ڈھنگ کا گاہک نہیں مل رہا، ہم تو خوش قسمت ہیں کہ ہماری زمین اتنی اچھی قیمت پر بِک رہی ہے وہ بھی اتنی جلدی۔‘ انور فاطمہ کی سہیلی سدرہ کے ابّو کا حوالہ دیتے ہوئے بولا جو اُس کا دوست بھی تھا اور اُسی کی طرح غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔

ابّا جی نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی، مگر انور پر نہ تو ابّا جی کی کسی دلیل کا اثر ہوا اور نہ ہی امّی کے آنسوؤں کا۔ اُسے نہ ماننا تھا اور نہ وہ مانا۔

پڑھیے: 'ترکی بھیجے جانے سے مر جانا بہتر ہے' — یونان میں پھنسے پاکستانیوں کی حالتِ زار

زمین بِک گئی اور وہ ایجنٹ کو طے شدہ رقم ایڈوانس دے کر یورپ کے لیے چل پڑا، باقی کی رقم اُس کے بخیر و عافیت یورپ پہنچ جانے پر ادا کی جانی تھی۔ بلوچستان پہنچنے تک تو وہ خود ہی فون کرکے گھر والوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دیتا رہا اور بعد میں چند دن تک اُس کی خریت کی اطلاع ایجنٹوں کے ذریعے ملتی رہی مگر پھر یہ سلسلہ رک گیا۔ اب گھر والے اِس انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہ کب یورپ پہنچ کر فون کرے گا اور خیر خریت سے پہنچ جانے کی اطلاع دے گا۔

اور پھر آخر کچھ دن بعد انور کی کال آہی گئی۔ ’میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں یورپ، آپ باقی پیسے بھی دے دیں، میں بعد میں فون کروں گا، یہاں کال بہت مہنگی ہے۔‘ بس اتنی سی بات کرکے اُس نے کال کاٹ دی۔

’اُس نے تو یہ بھی نہیں پوچھا کہ ہمارا اُس کے بغیر حال کیسا ہے۔‘ ابّا جی کے لہجے میں درد تھا۔ شام کو ایجنٹ آکر باقی کی رقم بھی لے گیا۔

اب سارے گھر والے اُس کی دوسری کال کے انتظار میں تھے، اور فاطمہ اپنی باتیں کرنے والی گڑیا کے۔ مگر انتظار انتظار ہی رہا، نہ تو انور کی کوئی کال آئی اور نہ ہی فاطمہ کی گڑیا۔ ابھی یہ انتظار نہ جانے اور کتنا طویل ہوتا اگر کچھ دن بعد کچھ پولیس والے انور کی گولیوں سے چھلنی لاش لے کر گاؤں نہ پہنچتے۔ جسے گھر والے یورپ میں سمجھے بیٹھے تھے وہ بیچارہ تو پاکستان کا بارڈر کراس کرنے سے پہلے ہی قتل کرکے ویرانے میں پھینک دیا گیا تھا۔

’لیکن اُس نے تو خود فون کرکے بتایا تھا کہ میں یورپ پہنچ گیا ہوں۔‘ ابّا جی نے روتے ہوئے پوچھا۔

’بزرگو! وہ بڑے پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں، ڈرا دھمکا کر ایسی کالیں کروانا تو اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔‘ ایک سپاہی ابّا جی کو تسلی دیتا ہوا بولا۔

’آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ کے بیٹے کی لاش مل گئی اور اُس کی جیکٹ کی جیب سے نکلی موبائل سم کی مدد سے اس کی شناخت ہوگئی ورنہ بچی کھچی زندگی بیٹے کے انتظار میں تڑپتے گزر جاتی۔ اِس طرح کے کئی جوان ہیں جن کی میتیں سرد خانوں میں پڑی ہیں مگر اُن کے وارثوں کا پتہ نہیں چل رہا، آپ پر تو اللہ نے مہربانی کردی ہے۔

’اوئے پتر! تجھے سمجھایا تھا ناں کہ نا جا۔ ہمیں نہیں چاہیے لاکھوں روپے۔ مگر تو نے نہیں سُنی۔ اب دیکھ ہمارا حال۔ کیسے بے سہارا ہو کر رہ گئے ہیں۔‘ ابّا جی تابوت سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار رو رہے تھے۔ انور کی ماں اور بیوی کی چینخیں سننے والوں کا کلیجہ چیر رہی تھیں۔

پانچ سالہ فاطمہ اپنی سہیلی سدرہ کے ساتھ ایک طرف سہمی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ ’سدرہ! اپنے ابّو سے کہہ دو کہ مجھے نہیں لینی بولنے والی گڑیا، نہیں تو تمہارے ابّو بھی مَرجائیں گے میرے ابّو کی طرح۔‘

تبصرے (3) بند ہیں

ALI BHUTTO Nov 21, 2017 12:29pm
WOW AMZAING STORY A/C TO MY OPINION.
ALI BHUTTO Nov 21, 2017 12:30pm
AMAZED
Princess Nov 23, 2017 11:22pm
I wish all media people do the same effort to educate people. Good job