14 دسمبر کو خود کش بم حملے سے بچ نکلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد جنرل مشرف نے پی ٹی وی کو بتایا کہ،

’(پُل) کراس کرنے کے صرف آدھے منٹ بعد ایک دھماکا ہوا، مجھے دھماکا گاڑی کے اندر محسوس ہوا، مگر میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ یقینی طور پر ایک دہشتگردی کی کارروائی تھی جس کا ہدف میں ہی تھا۔‘

جنرل مشرف 14 دسمبر کو کراچی سے راولپنڈی پہنچے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد جب جنرل مشرف کی گاڑی راولپنڈی میں 10 کور ہیڈکوارٹرز کے قریب واقع جھنڈا چیچی پل سے گزری تو عین اُسی وقت اُن پر حملہ کیا گیا۔ جھنڈا چیچی پُل پر ایک اندازے کے مطابق 250 کلو گرام دھماکا خیز مواد نصب کیا گیا تھا، یہ پاکستان کے فوجی حکمران پر ہونے والا اُس وقت کا سب سے بڑا قاتلانہ حملہ تھا۔

لیکن معاملہ یہاں رُکا نہیں بلکہ محض 11 دن بعد دھماکے کی جائے وقوعہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک بار پھر دہشتگردوں نے دو خودکش بمباروں کے ذریعے دھماکا خیز مواد سے بھری ہوئی گاڑیوں کو صدر کے قافلے سے ٹکرانے کی کوشش کی۔ اِن حملوں کو ملا کر چار بار جنرل مشرف پر قاتلانہ حملوں کی کوشش کی جاچکی تھی۔

اُنہیں سب سے پہلے 26 اپریل 2003ء کو کراچی کی شارعِ فیصل پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، دہشتگردوں نے شارع فیصل پر ایسی جگہ پر ایک کھڑی گاڑی کو بم دھماکے سے اُڑایا جہاں سے جنرل مشرف کا قافلہ گزر رہا تھا۔ جس کے بعد 14 دسمبر کو راولپنڈی میں حملہ ہوا، اگرچہ اِن حملوں میں کسی کی جان نہیں گئی تھی لیکن 25 دسمبر کے دو حملوں میں دو خودکش بمباروں سمیت 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پڑھیے: اداریہ: مشرف کو واپس آ کر عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے

ہیرالڈ نے جب سینئر سرکاری و فوجی افسران سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے فوراً اِس بات کا اعتراف کیا کہ آرمی ہاؤس اور کور ہیڈکوارٹرز کے قریب واقع انتہائی محفوظ فوجی علاقے میں ہونے والے ایسے سوچے سمجھے حملوں نے صدر کی سیکیورٹی کے حوالے سے ایک بار پھر غور و فکر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اِن ذرائع کو سب سے بڑی فکر اِس بات کی تھی کہ آخر دہشتگردوں کو کس طرح ملک کے اندر جنرل کی نقل و حرکت کے بارے میں انتہائی خفیہ معلومات حاصل ہوتی ہیں؟ حالانکہ اِن کے سفری راستوں کو کبھی ظاہر نہیں کیا جاتا۔

گزشتہ دو حملوں میں مشکوک افراد میں ایک رینجرز افسر اور ایک نیول ڈاکیارڈ کا کارکن شامل تھا، جس کا مطلب ہے کہ دسمبر حملوں میں بھی نچلی سطح کے سرکاری افسران ملوث ہوسکتے ہیں۔

یہ بات فوج کے اسپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کی کارکردگی پر سوال اُٹھاتی ہے جو جنرل مشرف کو ذاتی تحفظ فراہم کرنے کی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ حسبِ توقع، کمزوری بڑی سطح پر نوٹ کی گئی اور 18 دسمبر کو جنرل مشرف نے ملٹری انٹیلی جنس کے عہدے پر میجر جنرل طارق مجید کی جگہ اپنے ملٹری سیکریٹری میجر جنرل ندیم تاج کو تعینات کردیا۔

دوسری جانب، ابتدائی تفتیش میں چند ایسے معاملات بھی سامنے آئے کہ جہاں سیکیورٹی ناکامی حیران کن تھی۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کو 250 کلو گرام دھماکا خیز مواد کو پُل پر نصب کرنے اور اُسے ریموٹ کنٹرول سے جوڑنے میں کئی گھنٹے لگے ہوں گے۔ پُل کو اُڑانے کے لیے جس مواد کو استعمال کیا گیا اُسے سی 4 دھماکا خیز مواد کہا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی معیاری دھماکا خیز مواد ہے جسے پوری دنیا میں افواج استعمال کرتی ہیں۔

اِس دھماکا خیز مواد، جسے کسی بھی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے، کو پُل کے پہلو میں پانچ ایسی جگہوں پر نصب کیا گیا تھا جن کے نیچے پُل کا بوجھ اُٹھانے والے ستون نہیں تھے۔ دھماکا اِس قدر زوردار تھا کہ مضبوط کنکریٹ کی ایک موٹی تہہ پھٹ کر اُڑ چکی تھی.

یہ بات کافی حیران کن ہے کہ دہشتگردوں نے کس طرح ایک فوجی علاقے میں کسی کو پتہ چلے بغیر اپنا کام سر انجام دیا۔ وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات نے 15 دسمبر کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ صدر کی سیکیورٹی کے ذمہ دار لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ تحقیقات کی توجہ کا مرکز بم ہے اور یہ کہ اُس بم کو کس طرح پل کے نیچے نصب کرلیا گیا؟

پڑھیے: بیمار مشرف، طاقتور مشرف

دو قاتلانہ حملوں کے بعد صدر کے سیکیورٹی اسٹاف میں جو بے چینی پیدا ہوئی وہ ایک فول پروف سیکیورٹی منصوبہ تشکیل دینے کے مسئلے کے گرد گھومنا شروع ہوئی۔ صدر کو حاصل سیکیورٹی پروٹوکول کو دنیا کے سخت ترین سیکیورٹی پروٹوکولز میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔ صرف ایک ہی چیز کی پیش گوئی ممکن ہے، وہ یہ کہ جنرل مشرف راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کے لیے کشمیر ہائی وے تک پہنچنے کے لیے زیادہ تر رنگ روڈ کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ اِس طرح اُنہیں مصروف شہری علاقوں میں سے نہیں گزرنا پڑتا۔

لیکن اُن کے قافلے کے روانہ ہونے سے قبل پورے راستے میں سینکڑوں سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے تاکہ راستے میں ہونے والی کسی قسم کی مشکوک نقل و حرکت یا موجودگی کا جائزہ لیا جاسکے۔

چونکہ پُلوں پر بم نصب کرنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے لہٰذا اُن پر خاص طور پر نظر رکھی جاتی ہے۔ صدر کے قافلے کے ساتھ جہاں دیگر سیکیورٹی گاڑیاں اور ایمبولینسز ساتھ چلتی ہیں وہاں 20 ایس ایس جی کمانڈوز پر مشتمل ریپڈ ری ایکشن فورس کہلانے والا دستہ بھی 45 سیکنڈز کے فاصلے پر پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع کہتے ہیں کہ آخری منٹ میں جنرل مشرف خود ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کس گاڑی میں سفر کریں گے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہیلی کاپٹرز بھی معمول کے مطابق صدر کے سفری راستے کی کڑی نگرانی کرتے ہیں۔

اِس کے علاوہ صدر کے پاس محفوظ مرسیڈیز بھی ہے جسے اگر چار پہیوں پر بنا قلعہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کوئی بھی معلوم گولی اُس گاڑی کی فولادی باڈی کو چیر نہیں سکتی، بلکہ اُس وقت صدر کے زیرِ استعمال مرسیڈیز تو کیمیائی اور حیاتیاتی حملوں کو جھیلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

بھلے ہی گاڑی کے ٹائروں سے پورا ربڑ اکھڑ جائے پھر بھی یہ گاڑی بھاگنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اُس کے ساتھ اُس پر لگا پانچ انچ موٹا بکتر اُسے راکٹ سے داغے گئے گرینیڈ سے بھی محفوظ رکھ سکتا ہے۔ لیکن دسمبر میں جنرل مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے بعد اِن تمام تر سیکیورٹی انتظامات پر سوالیہ نشان اُٹھنے لگے ہیں۔

تفتیش تک دسترس رکھنے والے افسران نے ہیرالڈ کو بتایا کہ تفتیش کار اِس بات پر قائل دکھائی دیتے ہیں کہ 14 دسمبر کو جس واحد سیکیورٹی انتظام نے کام دکھایا وہ تھا وی آئی پی 2 بومبر رینجر۔ یہ انسدادِ دہشتگردی کا ایک انتہائی جدید اور مہنگا آلہ ہے، جو کہ بنیادی طور پر ریمورٹ کنٹرول سے منسلک ڈیوائسز کے ریڈیو سگنلز کا پتہ لگانے اور اُنہیں جام کرنے کے کام آتا ہے۔

جیمر کے کام کرنے کا طریقہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ ایک مقناطیسی لہر خارج کرتا ہے جو ریموٹ فریکوئنسیز اور ٹائمرز کے سگنلز کو بلاک کردیتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وی آئی پی 2 کے باعث ہونے والی 55 سیکنڈز کی تاخیر ہی تھی جس کی وجہ سے صدر کی زندگی بچ گئی۔

چونکہ یہ ثابت ہوگیا کہ موجودہ سیکیورٹی انتظامات نامناسب ہیں، اور اِس حد تک نامناسب ہیں کہ دہشتگرد ایک بار نہیں بلکہ دو بار صدر کے قافلے کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، تو لہٰذا اب طویل اور پیچیدہ کشمیر ہائی وے پر کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز میں مرکزی مانیٹرنگ روم بنایا گیا جہاں سے جنرل مشرف کی صبح راولپنڈی سے اسلام آباد روانگی سے لے کر ہر نقل وحرکت کی نگرانی شروع کی گئی۔

پڑھیے: ہم نے مشرف کو لندن یونیورسٹی میں خطاب سے کیسے روکا

وفاقی دارالحکومت کے آس پاس گھنے درختوں سے گھرے علاقوں سے گزرنے والے اِس طویل راستے کی نگرانی کرنے کے لیے ایجنسیوں نے درختوں پر بھی کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ مری کو جاتی سڑک کے ساتھ اسلام آباد کے آس پاس کے علاقوں میں ہونے والی ہر نقل و حرکت کو ریکارڈ کیا جاسکے۔

اِس کے علاوہ ہیرالڈ کو یہ بھی پتہ چلا کہ صدر کی سیکیورٹی ٹیم نے کشمیر ہائی وے پر صدر کے راستے کی نگرانی کے لیے ایک انتہائی جدید ایس ایس آر 2000 ریڈار امیجنگ سسٹم بھی نصب کرنے کی تجویز دی ہے۔

ایس ایس آر 2000 ایک جدید ڈیٹیکشن سسٹم ہے جو بم اور اسلحے کا پتہ لگانے میں مدد کرتا ہے، چاہے بم یا اسلحے کو دیواروں، فرش، الماریوں یا پھر 10 انچ موٹی کنکریٹ کی دیوار جیسی کسی مشکل جگہ کے اندر ہی چھپایا گیا ہو۔

نئے سیکیورٹی پروٹوکول میں ایک سے زائد صدارتی قافلے ہونے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اِس کا مقصد یہ ہے کہ قافلے کے باہر کسی کو بھی پتہ نہ چل سکے کہ صدر کس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں، یوں حملے کا خطرہ بھی کم ہوجائے گا۔

صدارتی سیکریٹریٹ اور جی ایچ کیو کی فضائی حدود ہر قسم کی کمرشل فضائی ٹریفک کے لیے بند رہتی ہیں۔ جنرل مشرف عام طور پر اپنے ساتھ ایک پسٹل رکھتے اور میٹل شاک پلیٹس والی بلٹ پروف جیکٹ پہنتے تھے، جو ہر قسم کی چھوٹی گولیوں اور چھرّوں سے محفوظ رکھنے کے لیے خاص طور پر بنائی گئی ہے۔

ایسی بھی خبریں تھیں کہ ممکنہ طور پر جنرل مشرف اپنے اضافی تحفظ کے لیے 'ڈبلز' (ہم شکل) کا بھی استعمال کرنا شروع کریں۔ خودکش بمبار جیسے خطرے سے بچنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے، اِسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنرل مشرف کو غیر ضروری طور پر عوام کے درمیان جانے یا کسی سے گلے لگنے، حتیٰ کہ ہاتھ ملانے سے بھی گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

پڑھیے: مشرف فرار

جہاں تک تعلق ہے میزائل حملے کا، تو صدر کے طیارے کو جدید ترین اینٹی میزائل سسٹم سے لیس کرنے کے منصوبے پر غور کیا جارہا تھا جس سسٹم میں طیارے پر نصب لیزر ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جس کے ذریعے میزائل کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی ہوا میں نشانہ بنا کر تباہ کردیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم بلندیوں سے بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جیسے ہی فضاء میں میزائل اپنی رفتار بڑھاتے ہیں ویسے ہی یہ سسٹم اُن میزائلوں کو ٹریک کر لیتا ہے۔ ہدف متعین کرنے کے بعد جلد ہی میزائل پر طاقتور لیزر شعاعوں سے حملہ کردیتا ہے اور یوں میزائل اپنے ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی ہوا میں پھٹ جاتا ہے۔

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر کے طیارے پر میزائل حملے کی بات کو نہایت سنجدیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان دو بار طیارہ حادثوں کے نتیجے میں سینئر عہدوں پر فائز فوجی افسران کو کھو چکا ہے۔ 17 اگست 1988ء کو بہاولپور کے قریب جنرل ضیاء الحق کا سی 130 جہاز فضاء میں ہی تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں فوج کی اعلیٰ قیادت سمیت اُس وقت پاکستان میں تعینات امریکی سفیر بھی ہلاک ہوگئے تھے۔ تقریباً 15 برس بعد، 20 فروری 2003ء کو کوہاٹ کے قریب ایک پُراسرار جہاز حادثے میں ایئر فورس کے سربراہ مصحف علی میر سمیت کئی فوجی افسران اپنی جان کھو بیٹھے تھے۔ شاید اُسی وجہ سے امریکی سیکیورٹی ماہرین سے جب گیارہ ستمبر کے بعد کی صورتحال پر مشاورت کی گئی تو اُنہوں نے بلا تاخیر صدر کے ہوائی جہاز کے لیے اینٹی میزائل سسٹم نصب کرنے کی تجویز دے دی۔

جنرل مشرف نے اُن کے مشورے پر رضامندی دکھائی حالانکہ اُس میں بہت زیادہ لاگت شامل تھی۔ ایک اور جو متنازع مسئلہ تھا وہ اِس سسٹم کی تنصیب سے متعلق تھا۔ اب چونکہ پاکستانیوں کے پاس مناسب صلاحیت کی کمی تھی، اور دوسری طرف جنرل کے سیکیورٹی مشیر اِس سسٹم کی تمام تر تنصیب امریکیوں کے ہاتھوں کروانے کے تصور پر مطمئن نہیں تھے، لیکن اِس کے باوجود یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اینٹی میزائل سسٹم کو نصب کیا جائے جس پر پاکستان کو تقریباً 15 ملین ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔

سیاسی مشاہدہ کاروں کا خیال ہے کہ تمام اضافی سیکیورٹی اقدامات سے قطع نظر، انتہاپسندوں کے ہاتھوں صدر مشرف کی جان کو لاحق خطرہ وقت کے ساتھ کم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں، کیونکہ اُن کے دشمن اپنے ایجنڈے کو وسعت دینے کے لیے غیر روایتی طریقے استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، لہٰذا کوئی بھی جدید سے جدید ٹیکنالوجی بھی اُن کی مکمل سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔

یہ ایک جدید ٹیکنالوجی اور خوش قسمتی ہی تھی جس کی وجہ سے دسمبر 2003ء میں پاکستان ایک اور بڑے سیاسی ہنگامہ خیزی سے بچ گیا۔ 11 دنوں کے وقفے کے ساتھ جنرل مشرف پر ہونے والے دو حملوں کے معاملے پر تحقیقات کرنے والے اب اِن تمام نکات کو ملانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ انتہائی پیچیدہ اور الجھی پہیلی کی طرح ہیں۔

14 دسمبر کو ہونے والے حملے کی جائے وقوعہ سے اکٹھا کیے جانے والے شواہد، جن میں پانچ ڈیٹونیٹرز، ایک کنٹرول باکس اور دھماکا خیز مواد سے جوڑنے والی سپلائی لائن شامل ہیں، کا معائنہ کرنے کے بعد تحقیقات کرنے والے چند نکات کو ملانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انتہائی قریبی ذرائع نے ہیرالڈ کو بتایا کہ حملے میں چند القاعدہ کارندوں کے شامل ہونے کے مضبوط امکانات ہیں، جو کہ شاید خفیہ طور پر چند مقامی دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہوں۔

پاکستانی انٹیلی جنس نیٹ ورک میں موجود ذرائع کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ 14 دسمبر کا حملہ اُن دھمکیوں کی ایک کڑی ہو جو چند ماہ قبل القاعدہ کے سب سے بڑے رہنما نے مشرف کو دی تھیں۔ اسامہ بن لادن کے نائب، ڈاکٹر ایمن الظواہری نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو اسلام سے دغا کرنے پر جنرل مشرف کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اِس مطالبے کو عربی چینل الجزیرہ پر 10 ستمبر کو نشر ہونے والے پیغام کے ذریعے پہنچایا گیا جبکہ 28 ستمبر کو ایک بار پھر العربیہ پر ایک پیغام کے ذریعے یہی مطالبہ پہنچایا گیا۔ دو چینلوں کے مطابق اُنہیں ایک نامعلوم فون کال کے ذریعے الظواہری کا پیغام موصول ہوا، جو ممکن ہے کہ پاکستان سے ہی کیا گیا تھا۔ دسمبر حملوں کی تحقیقات کرنے والوں کا ماننا ہے کہ الظواہری کا پیغام نشر ہونے کے بعد القاعدہ پاکستان میں اور بھی زیادہ سرگرم ہوگئی۔

اُن کی اطلاعات کے مطابق، ایف بی آئی کو سب سے زیادہ مطلوب القاعدہ کے کارندوں میں سے ایک ہادی العراقی، اس وقت امجد فاروقی نامی ایک پاکستانی کے ساتھ شمالی وزیرستان ایجنسی سے کام کر رہا ہے۔ امجد فاروقی امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں مشتبہ طور پر شامل تھا۔ اُن لوگوں کا ماننا ہے کہ ممکن ہے ہادی مختلف پاکستانی شہروں، یہاں تک کہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے جنوبی ترین شہر کراچی تک آچکا ہو۔

ذرائع کے مطابق، وہ عرب ہونے کے باوجود بھی روانی سے پشتو اور کسی حد تک اردو بھی بول لیتے ہیں، اور خود کو پٹھان ظاہر کرتے ہوئے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔ ذرائع یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اِسی طرح ہادی ہی 14 دسمبر کے حملے کی منصوبہ بندی کرنے راولپنڈی آئے ہوں۔

اِسی طرح، جنرل پرویز مشرف پر 25 دسمبر کو ہونے والے دو خودکش حملوں کی ابتدائی تفتیش کے مطابق حملوں میں بریگیڈ 313 کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے، بریگیڈ 313 پانچ دہشت گرد تنظیموں، جیش محمد، حرکت الجہاد الاسلامی، لشکر طیبہ، لشکرِ جھنگوی اور حرکت المجاہدین العالمی پر مشتمل ایک اتحاد ہے۔ جب اکتوبر 2001ء میں امریکہ نے افغانستان پر بمباری شروع کی تو اُس کے کچھ عرصے بعد ہی یہ اتحاد عمل میں آیا۔ اِس اتحاد نے عزم کیا کہ اُن تمام اہم پاکستانی رہنماؤں کو نشانہ بنایا جائے گا جو اُن کے مطابق ’پاکستان میں امریکی ایجنڈے‘ کو آگے بڑھانے کی خاطر ’جہاد کے مقصد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘

تحقیقات کاروں کے مطابق، 25 دسمبر کے حملوں کے ذمہ دار دو خود کش بمباروں کی شناخت محمد جمیل، جو کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے جیش محمد کے کارکن ہیں، اور حاضر سلطان، جو کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے حرکت الجہاد الاسلامی کے کارندے ہیں، کے طور پر ہوئی ہے۔ 23 سالہ جمیل تورارہ (پولیس اسٹیشن اندروت) ضلع پونچھ آزاد کشمیر کا رہائشی تھا۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ اُس شخص کی شناخت اُن شناختی کارڈ کے ذریعے ثابت ہوئی جو تفتیش کاروں کو جائے وقوعہ پر بکھرے ملے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ جمیل عسکری تربیت حاصل کرنے کے مقصد سے جنوری 2001ء میں آزاد کشمیر کے کپڑوں کا کاروبار کرنے والے ایک شخص کے ذریعے براستہ تورخم جلال آباد گئے تھے۔ بعد ازاں وہ کابل منتقل ہوگئے اور افغان دارالحکومت کے مضافاتی علاقے دارالامان میں رہنا شروع کردیا۔

راولپنڈی میں فوجی اہلکار جنرل مشرف کے قافلے میں شامل تباہ حال گاڑیوں کے قریب کھڑے ہیں۔
راولپنڈی میں فوجی اہلکار جنرل مشرف کے قافلے میں شامل تباہ حال گاڑیوں کے قریب کھڑے ہیں۔

لیکن، محمد جمیل شدید زخمی تھے اور جب طالبان کے زوال کے بعد شمالی اتحاد کابل میں داخل ہوا تو اُن کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ اُنہیں کابل ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ 15 دن تک زیرِ علاج رہے۔ پاکستان اور افغانستان حکومتوں کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت اُنہیں پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔ جمیل کو دیگر 30 دہشتگردوں کے ہمراہ فوجی جہاز کے ذریعے پشاور لایا گیا۔ اُنہیں زیرِ حراست رکھا گیا اور غیر قانونی سکونت کے الزامات عائد کیے گئے۔ مگر اپریل 2002ء میں تفتیش کے بعد جب جمیل کے خلاف کسی قسم کے ٹھوس شواہد نہیں ملے تو اُنہیں رہا کردیا گیا۔

دوسرے خودکش بمبار، 42 سالہ حاضر سلطان حرکت الجہاد الاسلامی سے منسلک تھے اور اُن کا تعلق افغانستان کی وادئ پنج شیر سے تھا۔ انٹیلی جنس اداروں نے حاضر سلطان کے پانچ قریبی ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ اُن سب نے اُن کی لاش کی شناخت کی ہے۔ حاضر جنوبی وزیرستان ایجنسی میں قیام پذیر تھے اور 2 اکتوبر کے آپریشن کے دوران بھی وہیں موجود تھے۔ تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ وہ 25 دسمبر کے حملے سے چند دن قبل ہی راولپنڈی منتقل ہوچکے تھے، تاکہ قاتلانہ حملے کے منصوبے کو آخری شکل دی جاسکے۔

جمیل اور حاضر کی شناخت کے بعد تفتیش کاروں نے اپنی توجہ کا رخ بریگیڈ 313 کے دیگر عناصر کی طرف موڑ دیا۔ پہلے سے زیرِ حراست عسکریت پسندوں کی مختلف تفتیشی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد اُنہوں نے کڑی سے کڑی جوڑنا شروع کیا۔

لشکر جھنگوی کے زیرِ حراست رہنما اکرم لاہوری نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا کہ مئی 2002ء میں حرکت الجہاد الاسلامی کے 100 سے زائد ممبران نے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم اُٹھائی کہ وہ کسی بھی قیمت پر جنرل مشرف کو جان سے مار دیں گے۔ لاہوری کے اِس انکشاف کے بعد کراچی میں جنرل مشرف پر ہونے والے 26 اپریل کے حملے میں مبینہ طور پر ملوث حرکت کے تین سرگرم کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں محمد عمران، محمد حنیف اور شیخ محمد احمد شامل تھے۔

25 دسمبر کے خود کش حملے کے اگلے دن، سیکیورٹی افسران نے مولانا مسعود اظہر کے چھوٹے بھائی اور غیر فعال جیش کے نائب چیف، مفتی عبدالرؤف کو بھی راولپنڈی سے گرفتار کرلیا۔

دیگر معاملات کے ساتھ، انٹیلی جنس اداروں نے بریگیڈ 313 کے مختلف عناصر کے پیدا کردہ خودکش بمباروں کی تعداد کا تعین کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ اِس حوالے سے انہوں نے جیش محمد کے کم از کم پانچ ممبران اور جماعت الفرقان کے خود کش بمباروں کی تلاش کے عمل کو مزید تیز کردیا ہے۔ اُن میں سبی کے عباس حیدر، بکھر کے نعیم اور سفیر، اور میلسی کے عادل اور طاہر شامل ہیں۔ اُن کے پانچ ساتھی 2000ء میں اسلام آباد، مری اور ٹیکسلا میں خود کش حملوں کے دوران مارے گئے تھے۔ یہ حملے پاکستان میں مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کیے جانے والے پہلے بڑے خودکش حملوں میں سے ایک تھے، اِن حملوں کی بڑی وجہ 11 ستمبر کے بعد پاکستان کی پالیسی میں ہونے والی تبدیلی تھی۔

تفتیش کاروں کا اب ماننا تھا کہ خودکش بمبار ہی پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اُس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد 25 دسمبر سے ہی اپنے بیانات میں جنرل مشرف پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی ممکنہ شناخت کے حوالے سے متعدد بار بتا چکے تھے۔

وزیر کے مطابق، ممکن ہے کہ جنرل مشرف کو قتل کرنے کی خاطر کشمیری اور افغان عسکریت پسند ایک ہوگئے ہوں۔ اُن کے مطابق اُن کا نیٹ ورک اِس قدر وسیع ہے کہ جس کی شاخیں کشمیر سے افغانستان تک پھیلی ہیں۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اُن دہشتگردوں کا تعلق پاکستان سے باہر بھی ہوسکتا ہے۔ بریگیڈ 313 میں شامل پانچ تنظیموں میں سے ایک حرکت الجہاد الاسلامی خالصتاً افغانستان کی تنظیم تھی لیکن بعد میں جب اکتوبر 2001ء میں افغانستان میں امریکی بمباری شروع ہوئی تو اِس تنظیم کے رہنما قاری سیف اللہ اختر قندھار سے فرار ہوگئے۔

حرکت نے ابتدائی طور پر افغان رہنما نبی محمدی سے اتحاد کیا لیکن طالبان کے عروج کے بعد یہ قندھار کی ایک سب سے نمایاں عسکریت پسند تنظیم بن گئی۔ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں، چیچنیا اور وسطی ایشیاء کی دیگر جگہوں پر لڑائی میں مصروف مسلم عسکریت پسند گروہوں کو حرکت نے ہی پاکستانی جنگجو فراہم کیے تھے۔ قاری اختر قندھار چھوڑ کر پاکستان آکر بس گئے جہاں وہ بالآخر بریگیڈ 313 کے رکن بن گئے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر ہیرالڈ میگزین کے جنوری، 2004 کے شمارے میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Dec 14, 2017 07:33pm
اس مضمون کا اب کیا فائدہ! میرے تو سر میں درد ہوگیا۔