واہ یا آہ ؟
راجہ جی چلو مغل فرمانروا اکبرنے1581 ء میں اپنے امیر راجہ مان سنگھ کو اٹک کی عارضی نگہبانی سونپی۔ بادشاہ کےحکم پر وہ جرنیلی سڑک پر چلتے چلتے آج کے ایبٹ آباد کے قریب واقع واہ کینٹ کے اس مقام جگہ پہنچ گئے جہاں سرسبز پہاڑی سلسلے میں ٹھنڈے پانی کے چشمے رواں تھے۔ یہ جگہ انہیں بہت پسند آئی۔ راجہ نے چشموں کے کنارے پُر لطف شامیں اور ساحرانہ راتوں کا مزہ لوٹنے کے لیے بارہ دری بنوا ڈالی۔
ماموں کی کارستانیاں برسوں بعد اکبر کی جگہ پرجہانگیر کی تصویر لگی۔ جہانگیر ٹہرے راجہ مان سنگھ کے بھانجے۔ جب وہ اس مقام سے گزرے تو دیکھنے چلے آئے کہ ماموں یہاں کیا گُل کھلا کر گئے ہیں، پہنچے تو پہلے ہی منظر پر نگاہ پڑتے ہی 'واہ' کی داد دی۔ اگر کہیں کہ داد نہ دی بلکہ نام رکھا تو غلط نہ ہوگا، کیونکہ پھر یہ علاقہ 'واہ' کہلایا اور صدیوں بعد آج بھی حسن ابدال کا یہ مقام 'واہ' ہی کہلاتا ہے۔
مچھلیوں کی ناک میں لونگ انتیس اپریل،1607ء کی دلفریب شام میںحوض کے کنارے شہنشاہِ ہند نے اپنی خود نوشت (تُزکِ جہانگیری) میں لکھا'' حسن ابدال میں قیام کیا۔ تالاب کنارے راجہ مان سنگھ نے ایک مختصر سی عمارت بنوائی ہے۔ تالاب میں چوتھائی گز لمبی مچھلیاں بکثرت ہیں۔ اس دلکش مقام پر تین دن قیام رہا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے جال ڈال دس، بارہ مچھلیاں پکڑیں اور ان کی ناک میں موتی پرو کر پھر انہیں پانی میں چھوڑ دیا۔
حکمِ شاہی اور معمار لاہوری شاہجہاں نے 1639ء میں کابل جاتے ہوئے یہاں پہلی بار مختصر قیام کیا۔ انہیں یہ 'پڑاؤ' اس قدر بھایا کہ اپنے مرکزی محکمئہ تعمیرات کے ماہرین کو بلوا کرعمارتوں کی ازسرِ نو تعمیر کا حکم دیا۔ اُس دور کے ممتاز ماہرِ تعمیرات احمد معمار لاہوری نے یہاں کے باغوں، بارہ دری، محلات اور سرائے کے نقشے تیار کیے اور دوسال کے اندر اس کی تعمیرِ نو کرڈالی، جس میں لاہور کے شالامار باغ کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔
شاہی خلوت گاہیں سرخ چپٹی اینٹوں والی بارہ دری کے اندرونی حصے میں مصالحے سے استر کاری کی گئی تھی۔ دیواروں کو پھول پتیوں اور پچی کاری کے دلکش نمونوں سے سجایا گیا۔ محراب دار برآمدے تعمیر کیے گئے جبکہ شاہی خاندان کے افراد کے حسب مراتب ان کی خلوت گاہیں تعمیر کی گئیں۔
شاہی حمام کے زمیں چور بارہ دری کے پہلو میں شاہی خاندان کے لیے شاہی حمام تعمیر کیا گیا۔ جس میں چھوٹا سا ایک حوض تعمیر کیا گی تھا اور محراب دار نالیوں سے اس میں ٹھنڈے اور گرم پانی کو شامل کرنے کے کا اہتمام تھا۔ پردے کے لیے چار دیواری بنائی گئی تھی اور اس کے باہر پہرے داروں کی چوکیاں قائم تھیں۔ چار دیواری محکمہ آثارِ قدیمہ نے پھر تعمیر کی ہے، لیکن اس بار یہ حفاظتی اقدام زمین چوروں سے اسے بچانے کے لیے ہے۔
بنا ستون کے گنبد ماضی کی منزل گاہ کہیں یا آج کا مغل گارڈن، ایک چیز کھلی حقیقت ہے، وہ یہ کہ ماضی کا یہ خوبصورت فنِ تعمیر تیز رفتار سائنسی دنیا میں ناپید ہوتا جارہا ہے۔ بارہ دری کا ایک کمرہ جس میں بغیر ستونوں کے عام چپٹی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا یہ گنبد، خوبصورت ہوادان اور طاقچے نہ صرف فنِ تعمیر کے نادر نمونے ہیں بلکہ اس فن کے ذریعےقدرتی ماحول کے سرد و گرم سے بچنے کا موثر ذریعہ بھی رہے ہیں۔
شاہی پڑاؤ کا آخری شہنشاہ شاہی خاندان کی گذرگاہ اور ان کے یہاں پڑاؤ کے سبب اس جگہ کو ’منزل گاہ، بھی کہا جاتا رہا ہے۔ شہنشاہِ ہند شاہجہاں اپنے عہدِ حکومت میں چار مرتبہ کابل گیا اور ہر مرتبہ آتے جاتے ہوئے یہیں ٹہرا۔ بعد کے ادوار میں اورنگزیب عالمگیر آخری مغل فرمانروا تھا جو حسن ابدال میں ڈیڑھ سالہ قیام کے دوران یہاں فروکش ہوا۔
درانیوں اور سکھوں کا غصہ عالمگیر کے بعد اس مقام کی رونقوں کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ درّانیوں اور ان کے بعد پنجاب پر سکھوں کے دورِ حکومت کے دوران اس باغ کو کافی نقصان پہنچایا گیا اور اس کے فنِ تعمیر کا حسن خاصا دھندلاگیا۔ لیکن تباہیوں کا یہ سلسلہ صرف یہیں پرختم نہیں ہوا، بلکہ آج بھی جاری ہے اور بدقسمتی سے اس بار بھی دشمن کی صف میں سرکار ہی نظر آتی ہے۔
شاہی سے نوابی تک مغلیہ دور رخصت ہوا تو شاہی تخت کی طرح شاہی عمارتوں کی کنجی بھی تاجدارِ برطانیہ کے وفاداروں نے سنبھال لی، لیکن حکمرانی کی مصروفیات کی بنا پر سمندر پار کے حاکموں نے مغل باغ کو1865ء میں واہ کے نواب حیات خان کی تحویل میں دے دیا۔ باغ کے عقب میں ان کے محلات آج بھی موجود ہیں۔
واہ کہیں یا آہ بھریں! مدتوں بعد تاریخی اہمیت کے نام پر یہ باغ حکومتِ پاکستان نے محکمئہ آثارِ قدیمہ کے سپرد کردیا۔ ایک عشرے پہلے اس کی آرائش کے منصوبے پر عمل بھی ہوا، لیکن اگر درّانی اور سکھوں نے اس عمارت کو مغل دشمنی کے باعث نقصان پہنچایا تو محکمے کی منصوبہ بندی نادان دوست کی دوستی ثابت ہوئی۔ فوارے کی یہ تصویر اس کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ مقام دیکھ کر جہانگیر نے ’واہ، کہا تھا مگر آج ہم صرف ’آہ، ہی بھر سکتے ہیں۔
مختار آزاد کالم نگار، ادیب اور مصنف ہیں۔/ تصاویر بشکریہ مصنف۔





















لائیو ٹی وی
تبصرے (7) بند ہیں