کوئٹہ: گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کے چیئرمین دوستان خان جمال دینی نے گوادر بندرگاہ کے حوالے سے رعایتی معاہدے پر ذرائع ابلاغ میں پیش کیے جانے والے عمومی اور غیر موثر خیالات کی تردید کردی۔

گزشتہ روز جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ریمارکس نہ صرف بندرگاہ کے اندر چین اوورسیس پورٹس ہولڈنگ (سی او پی ایچ سی) اور جی پی اے کی جانب سے شروع کیے گئے کام کو متاثر کریں گے بلکہ یہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں پر بھی اثر انداز ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ کے حوالے سے دس برس قبل 2007 میں بندرگاہ چلانے والی سابق کمپنی پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی انٹرنیشنل (پی ایس اے آئی) سے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔

انہوں نے واضح کیا کہ تعمیر کے کام کی منتقلی (بی او ٹی) کی بنیاد پر 2013 تک پی ایس اے آئی کی جانب سے بندرگاہ اور اس کا فری زون تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: گوادر کے حوالے سے حکومت اور چین کے معاہدے پر نظر ثانی کا مطالبہ

بندرگاہ چلانے والی موجودہ کمپنی سی او پی ایچ سی کی جانب سے 2013 میں معاہدے میں کسی ترمیم کے بغیر متعلقہ حکام سے تجارتی مذاکرات کے بعد بندرگاہ کا قبضہ سنبھال لیا تھا۔

لہٰذا شرائط و ضوابط سی پیک کے وجود سے قبل طے کرلی گئی تھیں۔

معاہدے کے مطابق بندرگاہ چلانے والا پورٹ کے بڑے حصے پر سامان، مشینری، سمندری چیزوں اور دیگر ضروریات کے ساتھ نئے پورٹ ٹرمنلز قائم کرے گا۔

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ کمپنی 2300 ایکڑ کے قریب حصے پر گوادر فری زون تعمیر کر رہی ہے اور یہ ابتدائی منصوبہ بی او ٹی کی بنیاد پر کمپنی کی فنڈنگ سے مکمل ہوگا جبکہ کمپنی 2048 تک رعایت کی مدت تک اس پر تقریباً 5 ارب ڈالر خرچ کرے گی۔

دوستان خان جمال دینی نے کہا کہ رعایتی مدت کے مکمل ہونے کے بعد تعمیر اور تیار کیے گئے مکمل اثاثے گوادر پورٹ اور گوادر زون میں اربوں ڈالر کے بزنس کے ساتھ جی پی اے کو منتقل کردیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ رعایتی مدت کے دوران جی پی اے بندرگاہ اور سمندری سروس کے کاروبار سے 9 فیصد جبکہ فری زون کے کاروبار سے 15 فیصدر شرح نمو حاصل کررہا ہے۔

جی پی اے کے چیئرمین نے کہا کہ پانی، بجلی اور سڑکوں کا بندرگاہ سے رابطے میں کمی کے باوجود سی او پی ایچ سی، جی پی اے کے ساتھ ہے اور وہ بندرگاہ کو نقصان میں چلا رہا ہے۔

ان تمام مشکلات کے باوجود سی او پی ایچ سی اپنے ذرائع استعمال کرنے میں فعال رہا ہے، جس میں گوادر میں مقامی کمیونٹی کے لیے ملازمت کے مواقع، صحت کے مسائل کا حل، تعلیم اور ماحولیاتی تحفظ کے پروگرام شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گوادر پورٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 91 فیصد حصہ چین لے گا

انہوں نے کہا کہ حکومت کی مضبوط رہنمائی اور قیادت کے ساتھ اور مقامی کمیونٹیز کی حمایت کے ساتھ، گوادر بندرگاہ بے مثال فوری ترقی سے لطف اندوز ہو رہا ہے

انہوں نے کہا کہ مضبوط رہنمائی اور حکومت کی قیادت کے ساتھ مقامی کمیونٹیز کی حمایت سے گوادر بندر گاہ بے مثال ترقی کی جانب گامزن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سی او پی ایچ سی اور جی پی اے کا وژن ہے کہ تمام فریقین اور شراکت داروں کو شامل کرکے گوادر بندرگاہ کو جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان کا معاشی حب بنائیں۔

جی پی اے کے چیئرمین نے کہا کہ گوادر بندرگاہ ضلع کی شہری اور صنعتی ترقی کے لیے سی پیک کا ایک اہم منصوبہ ہے جبکہ گوادر اور بلوچستان کے جنوبی حصے کی ترقی کا دار و مدار گوادر بندرگاہ پر جاری کام کی بنیاد پر منحصر ہے۔


یہ خبر 28 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں