پشاور: فاٹا اصلاحات پر بنائی گئی اعلیٰ سطح کی قومی عمل درآمد کمیٹی (این آئی سی) نے قبائلی علاقوں کے شمال مغربی خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس بارے میں اسلام آباد جلد ایک پالیسی بیان دینے والا ہے۔

اس بات کی تصدیق کمیٹی کے مشاورتی اجلاس میں شامل دو اہم شخصیات نے ڈان کو کی اور بتایا کہ قومی عمل درآمد کمیٹی کا گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اجلاس ہوا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فاٹا کے 23 ارکان کا انتخاب آئندہ عام انتخابات میں خیبرپختونخوا اسمبلی سے ہوگا۔

اس اجلاس میں وزیر اعظم کے علاوہ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وفاقی وزیر مملک لیفٹننٹ جنرل ( ر) عبدالقادر بلوچ، گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا، وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، فاٹا ریفارمز پر کابینہ کی کمیٹی کے چیئرمین سرتاج عزیز اور وفاقی سیکریٹری قانون نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان کے نمائندے کے طور پر شرکت کی۔

18 دسمبر کو ہونے والے اس اجلاس میں تاریخ ساز فیصلے کیے گئے تھے لیکن انہیں عوام کے سامنے نہیں لایا گیا، ساتھ ہی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشز ( ایف سی آر) کے متنازع حصوں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس بات کی اجازت دی گئی کہ جب تک قبائلی علاقوں میں ایک مکمل انصاف کا نظام قائم نہیں ہوجاتا تب تک نوآبادیاتی دور کے قوانین کے ضمنی تنازعات اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات بل: 76 تھانوں کے قیام کی تجویز

یہ ملاقات کافی اہم تھی تاہم نہ اسے عوامی سطح پر لایا گیا اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا گیا، لیکن 3 دن بعد 21 دسمبر کو وزیر اعظم نے اجلاس کے ظاہری اسباب کے حوالے سے لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کی۔

اس سے قبل وزیر اعظم اور آرمی چیف نے فاٹا اصلاحات پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی، تاہم اس بارے میں وزیر اعظم ہاؤس سے کوئی بیان جاری نہیں ہوا تھا لیکن جے یو آئی (ف) کے رہنما نے کہا تھا کہ معاملات پر مشاورت جاری رکھیں گے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق دونوں رہنماؤں جے یو آئی (ف) کے سربراہ کے فاٹا اصلاحات بل پر تحفظات دور کرنے پر راضی ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، دو جماعتیں ہیں جو فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضام کی مخالفت کرتی آئی ہیں، حالانکہ یہ دونوں جماعتیں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاسی اتحادی ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن کی مخالفت، سابق وزیر اعظم کے ذہن پر بوجھ تھا۔

اس حوالے سے ڈان نے جن افراد سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کو فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضام کے حوالے سے پالیسی بیان دینا تھا تاکہ قبائلی علاقوں میں مرکزی دھارے کے حوالے کوئی بھی ابہام کو ختم کیا جاسکے لیکن حکمران جماعت کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کو قائل کرنے کی کوششوں کے بعد اس اعلان کو روک دیا گیا۔

وزیر اعظم اور قمر جاوید باجوہ کی مولانا فضل الرحمٰن کو ایک پیج پر لانے کی کوششیں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی تھی۔

مشاورت میں شریک شخصیات کا کہنا تھا کہ فاٹا انضام کے حوالے سے کوئی بھی پیش رفت اور 2018 میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی دینا براہ راست جے یو آئی (ف) کے سربراہ کو فاٹا اصلاحات بل پر راضی کرنے سے منسلک ہوگا۔

ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ بل کے ذریعے پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی قبائلی علاقوں تک دائرہ کار کو بڑھانا چاہتے ہیں اور یہ دو مختلف معاملات سے براہ راست منسلک ہے۔

اسی حوالے سے ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت کے رہنماؤں کوامید ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے سیاست دان کو انضمام کے پلان پر حمایت کے لیے راضی کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے بیانات میں کمی آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی فاٹا اصلاحات بل کو منظور کرنے کی ہدایت

تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بات بتائی ہے کہ وہ پشاور ہائی کورٹ کی فاٹا تک رسائی کے لیے کبھی راضی نہیں ہوں گے اور اس کوشامل کرنے کا مطلب فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام ہوگا۔

خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ ہفتے سول ملٹری قیادت سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے سامنے سوال اٹھایا تھا کہ وفاقی علاقوں میں صوبائی ہائی کورٹ کا دائرہ کار کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟

قیادت کا اتحاد

مشاورتی اجلاس میں قیادت کے اتحاد کے لیے فاٹا کے ایڈیشنل سیکریٹری کے دفتر کو مجوزہ چیف آپریٹنگ افسر فاٹا کے ساتھ شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

اس کے علاوہ جب جے یو آئی (ف) کے سربراہ کی مخالفت برقرار تھی اور وفاقی حکومت اپنے فیصلے پرعمل کے لیے پالیسی بیان بنانے سے گریز کر رہی تھی، تب خیبرپختونخوا میں حکومت اور پشاور میں 11ویں کورپس نے عمل درآمد کے منصوبے کو تقریباً حمتی شکل دے دی۔

ڈان کے پاس اس مسودے کی منصوبہ بندی کی 99 صفحات پر مشتمل نقل موجود ہے لیکن پشاور میں ایک سیکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ اس کا حتمی ورژن تیار ہے اور اسے آئندہ کچھ روز میں جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) سے شیئر کیا جائے گا۔

خیبر پختونخوا حکومت اور 11 کورپس کے درمیان مشاورت سے تیار کردہ منصوبے کو اہم حصے داروں نے فاٹا اصلاحات پر کابینہ کے فیصلوں کی روشنی میں تیار کیا، جو فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام کے سلسلے میں بہت سے قانونی اور آئینی مسائل کا حل فراہم کرتا ہے، جس میں انضمام اور عدالتیں، انتظامیہ، سیکیورٹی اور ترقیاتی نظام کو ٹائم لائن کے ساتھ شامل کرنے اور اصلاحات پیکیج کے مکمل طریقہ کار پر عمل کے لیے ضروری وسائل شامل ہیں۔

سیکیورٹی اہلکار نے ایک انٹرویو میں کہا کہ فاٹا کے انضمام میں کوئی عدم اطمینان نہ ہو، ہماری منزل واضح ہوں اور ہمیں انضمام کی جانب جانا چاہیے، انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی الجھن نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قوم اور اس کی مسلح افواج نے فاٹا میں غیر معمولی اور بے مثال قربانیاں دی ہیں اور کسی بھی طرح کی تاخیر خطرات میں اضافہ کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات:70 سال بعد چند روز لگ جائیں تو صبر کرنا چاہیے،مصدق ملک

اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ سوچنا مشکل نہیں ہوگا کہ صرف اصلاحاتی بل فاٹا میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، اس کے لیے ایک واضح منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے ذریعے سرمایہ کاری کا ٹائم فریم اور عوام کی سماجی، اقتصادی حالت بہتر بنایا جاسکے۔

تاہم اصلاحات کی منصوبہ بندی کی مالی اعانت کے لیے وسائل حاصل کرنے پر کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی ہے۔


یہ خبر 26 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں