اسلام آباد: فاٹا اصلاحات کے حوالے سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی مصدق ملک کا کہنا ہے کہ 70 سال گزرنے کے بعد اگر معاملے کے حل میں مزید چند روز لگ جائیں تو سب کو صبر سے کام لینا چاہیے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک نے کہا کہ ’70 سال سے فاٹا میں چلنے والے استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کی سوچ کسی کے ذہن میں نہیں آئی، لیکن اب اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا بیڑہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے اٹھایا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ستر سال کے بعد بدگمانیاں دور کرنے میں اگر ایک دو ہفتے لگ جائیں تو تھوڑا صبر کرنا چاہیے، ہماری کوشش یہ ہے کہ تمام جماعتیں بالخصوص اس علاقے کی سیاسی جماعتیں معاملے پر آن بورڈ آئیں۔‘

مصدق ملک نے کہا کہ ’فاٹا اصلاحات کے حوالے سے اس سے پہلے حکومتوں کے گمان میں کوئی بات نہیں آئی، ہمارے دور میں اس معاملے پر مشاورت کی گئی اور جرگے بھی بلائے گئے لیکن اس کے باوجود جس طرح حلقہ بندیوں کے معاملے پر لوگوں کے ذہن میں بدگمانیاں پیدا ہوئیں جنہیں دور کیا گیا، اسی روش پر ہم فاٹا کے لیے بھی چل رہے ہیں، یہ ہمارے لیے حلقہ بندیوں سے بھی زیادہ حساس معاملہ ہے اس لیے ہم یہ چاہتے ہیں کہ کسی پارٹی کے ذہن میں کوئی ابہام نہ رہ جائے۔‘

مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات پر حکومت اور جرگے کے درمیان معاملات طے نہ ہوسکے

اس دوران گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے فاٹا یوتھ جرگے کے ایگزیکٹو رکن نظام الدین خان نے فاٹا انضمام کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فضل الرحمٰن کا فاٹا سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا میرا اسلام آباد سے ہے، پختون بیلٹ سے (ن) لیگ کی ایک جبکہ فاٹا سے تین قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن فضل االرحمٰن سے کئی درجے بہتر ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) کی یہ تیسری حکومت ہے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ مشاورت کے بعد کسی بھی مسئلے کو پارلیمنٹ میں لایا جاتا ہے، یہ پارلیمنٹ میں مسئلہ پہلے لے آئے اور مشاورت بعد میں کی جار ہی ہے۔‘

نظام الدین خان کا کہنا تھا کہ ’جمہوریت صرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کا نام نہیں ہے، حکومت جب جمہوریت کی بات کرتی ہے تو صرف دو سیاسی جماعتوں کی بات کرتی ہے جو اس معاملے اس کے ساتھ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آج قومی اسمبلی میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) اور جے یو آئی (ف) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں، اس لیے اگر جمہوریت کی بات ہے تو حکومت کو اس بل کو پارلیمنٹ میں لانا چاہیے اور اس میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیں: فاٹا اصلاحات پر محمود خان اچکزئی نے نیا فارمولا پیش کردیا

واضح رہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام پر جے یو آئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ’فاٹا اصلاحات بل‘ قومی اسمبلی میں پیش نہ کرنے پر ایوان سے مسلسل بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔

دو روز قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ارکان اسمبلی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بل کے مسودے کو بدھ کو پیش کیا جائے گا، جس پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ آج کے ایجنڈے میں قانون سازی کا کوئی ذکر نہیں۔‘

تبصرے (0) بند ہیں