• KHI: Partly Cloudy 21.8°C
  • LHR: Clear 14.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 10.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 21.8°C
  • LHR: Clear 14.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 10.1°C

سندھ کے تاریخی رنی کوٹ کی دیواریں منہدم ہونے لگیں

شائع January 1, 2018 اپ ڈیٹ January 12, 2018
قلعے کی دو بڑی دیواریں گزشتہ ایک سال سے منہدم ہو رہی ہیں—فوٹو: لکھاری
قلعے کی دو بڑی دیواریں گزشتہ ایک سال سے منہدم ہو رہی ہیں—فوٹو: لکھاری

دادو: دنیا بھر میں ’گریٹ وال آف پاکستان‘ کے نام سے مشہور سندھ کے تاریخی قلعے ’رنی کوٹ‘ کی دیواریں گزشتہ ایک سال سے منہدم ہورہی ہیں، جب کہ حکومت سندھ گرتی دیواروں کو بچانے کے لیے بے بس نظر آتی ہے۔

دارالحکومت کراچی سے قریبا 300 کلو میٹر دوری پر ضلع دادو اور ضلع جامشورو کے درمیان پہاڑوں میں واقع ’رنی کوٹ‘ کو دنیا کا سب سے بڑا قلعہ بھی مانا جاتا ہے۔

کھیر تھر پہاڑوں کے دامن میں واقع ’رنی کوٹ‘ کم سے کم 20 مربع کلو میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، جس میں 29 واچ ٹاورز بنے ہوئے ہیں۔

رنی کوٹ قلعے کی دیواریں گزشتہ سال سے منہدم ہونا شروع ہوئیں—فوٹو: لکھاری
رنی کوٹ قلعے کی دیواریں گزشتہ سال سے منہدم ہونا شروع ہوئیں—فوٹو: لکھاری

قلعے کے اندر داخل ہونے کے لیے چار مرکزی دروازے ہیں، جب کہ قلعے کے اندر بھی ایک چھوٹا قلعہ بنا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پراسرار رنی کوٹ: ' دنیا کا سب سے بڑا قلعہ'

دیوار چین سے بھی بڑی دیواریں رکھنے والے اس قلعے کی 2 اہم ترین اور سب سے لمبی دیواریں گزشتہ ایک سال سے آہستہ آہستہ منہدم ہو رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود صوبائی وزارت سیاحت و ثقافت قلعے کی اہم دیواروں کو گرنے سے بچانے میں بے بس نظر آ رہی ہے۔

رنی کوٹ کی 5 کلو میٹر طویل دیوار کا 50 سے 60 فیصد حصہ گزشتہ ایک سال کے اندر منہم ہوچکا، جس وجہ سے اسی دیوار کے ساتھ نصب قلعے کا اہم ترین دروازہ ’شاہ پر‘ بند ہوچکا ہے۔

اس دیوار کے علاوہ رنی کوٹ کی ایک اور 1500 فٹ طویل دیوار بھی مختلف جگہوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جس وجہ سے اس دیوار میں نصب ’موہن گیٹ‘ بھی بند ہوچکی ہے۔

دیواریں منہدم ہونے سے قلعے کے دورازے بھی بند ہوگئے—فوٹو: لکھاری
دیواریں منہدم ہونے سے قلعے کے دورازے بھی بند ہوگئے—فوٹو: لکھاری

تاریخی قلعے کی نہ صرف طویل دیواریں بلکہ پورا قلعہ ہی خستہ حال ہوچکا ہے، مگر اس کے باوجود وزارت ثقافت ومحکمہ آثار قدیمہ و نوادرات قلعے کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھانے سے قاصر ہیں۔

ڈان کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر محکمہ آثار قدیمہ و نوادرات کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) منظور قناصرو نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس قلعے کی حفاظت کے لیے انتظامات کرنے کے لیے فنڈز موجود نہیں۔

منظور قناصرو کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ان کے پاس فنڈز آجائیں گے، وہ قلعے کے لیے حفاظتی انتظامات شروع کردیں گے۔

مزید پڑھیں: رنی کوٹ: جیتی جاگتی دیوارِ سندھ

ڈی جی محکمہ آثارقدیمہ ونوادرات نے انڈومنٹ ٹرسٹ فنڈ (ای ٹی ایف ) کا بھی شکریہ ادا کیا، جو رنی کوٹ کی گرتی دیواروں کی بحالی سے متعلق کام کر رہا ہے۔

رنی کوٹ کو گریٹ وال آف سندھ بھی کہا جاتا ہے—فوٹو: لکھاری
رنی کوٹ کو گریٹ وال آف سندھ بھی کہا جاتا ہے—فوٹو: لکھاری

انڈومنٹ ٹرسٹ فنڈ کے ریجنل ڈائریکٹر اشتیاق انصاری نے قلعے کی دیواروں کے منہدم ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ دیواروں کی بحالی پر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے تصدیق کی کہ گزشتہ ایک سال کے دوران قلعے کی 5 کلو میٹر طویل دیوار کا 60 فیصد حصہ منہدم ہوچکا، لیکن ان کے ادارے کی جانب سے اس پر حفاظتی کام جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تاریخی رنی کوٹ

اشتیاق انصاری کے مطابق 50 سے 60 مزدوروں پر مبنی عملہ دیوار کی اصل حالت میں بحالی پر کام کر رہا ہے، تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ دیواروں کی بحالی کا کام کب تک مکمل ہوگا۔

خیال رہے کہ ’رنی کوٹ‘ قلعے پر پورا سال سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے، یہاں سندھ سمیت دیگر صوبوں کے سیاح بھی آتے ہیں۔

’رنی کوٹ‘ کو تاریخی قلعوں کے حوالے سے دنیا بھر میں بھی اہم اہمیت حاصل ہے، یہاں پر محکمہ ثقافت و سیاحت کی جانب سے ریسٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے۔

قلعے کی گرتی دیواروں کو بچانے کیلئے حکومت سندھ کے پاس فنڈز نہیں—فوٹو: لکھاری
قلعے کی گرتی دیواروں کو بچانے کیلئے حکومت سندھ کے پاس فنڈز نہیں—فوٹو: لکھاری

تبصرے (1) بند ہیں

محمد وقاص Jan 01, 2018 10:04pm
حکومت کی اس بے بسی کے ذمہ دار کافی حد تک ہم شہری بھی ہیں، جو اپنے تاریخی مقامات کابلکل خیال نہیں رکھتے۔ سندھ کے محکمہ ثقافت و آثار قدیمہ کے وزیر سید سردار علی شاہ جو آج کل کافی دنوں سے خبروں سے غائب ہیں میرا خیال ہے اس وقت سے، جب انہوں نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ کراچی کا نام کلاچی رکھ دیا جائے، معزز وزیر کو چاہیے تو یہ تھا کہ کراچی سمیت سندھ کے ہر شہر کے تاریخی مقامات کی حفاظت اور بحالی کےلئے کام کرتے لیکن انہیں ایسے بیانات اور سندھ کے من پسند فنکاروں کو لاکھوں روپے خرچ کر کے لندن کی یاترا کرانے سے فرصت ملے تو وہ اس تاریخی رنی کوٹ قلعے، حیدرآباد کی شاہی مسجد پر تجاوزات اور دیگر مقامات کی بحالی کےلئے بیانات سے نکل کر اقدامات کرتے۔ سندھ حکومت سندھ فیسٹیول کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرکے سپر مین کے لوگو چرا کر اپنے رہنما کو سپرمین بناسکتی ہے لیکن تاریخی مقامات کی بحالی کیلئے صرف بیان بازی کرسکتی ہے۔ اگر یہ تاریخی قلعہ دنیا کے کسی اور ملک میں موجود ہوتا تو اس کی تصویر موجودہ تباہی سے بہت بہتر اور سیاحوں کیلئے کافی محظوظ کن ہوتی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025