اسلام آباد: گھریلو ملازمہ طیبہ اور ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم کے درمیان راضی نامہ کے معاملے پر سپریم کورٹ نے طیبہ بی بی تشدد کیس ٹرائل میں تاخیر کا نوٹس لے لیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے طیبہ تشدد کیس کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی جس میں جج راجہ خرم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے طیبہ اور جج کے درمیان راضی نامہ مسترد کردیا تھا اور اب تک 6 گواہان کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم او ایس ڈی ہیں یا معطل ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ میرے موکل ضمانت پر ہیں۔

چیف جسٹس نے راجہ خرم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ضمانتیں کیسے ہوتی ہیں، ہمیں سب پتہ ہے، جب والدین ناکام ہوجائیں اور پیسے لے لیں تو پھر عدالتیں والدین کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: جج راجہ خرم، اہلیہ پر فرد جرم عائد

انہوں نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ سے طیبہ تشدد کیس کے ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ایک سال ہوچکا ٹرائل مکمل کیوں نہیں ہوا؟

چیف جسٹس نے کیس کے ٹرائل میں تاخیر کے معاملے پر سوال کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کردیا۔

سانحہ کوئٹہ پر از خود نوٹس کیس

سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ پر از خود نوٹس کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار سے متعلق کمیشن رپورٹ میں ریمارکس حذف کرنے کی استدعا کردی۔

سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ پر از خود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو رپورٹ موصول ہوئی لیکن اقدامات تو حکومت کو کرنے ہیں، رپورٹ کی سفارشات آپ کے سامنے ہیں، یہ کیس سفارشات سے متعلق ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’سانحہ کوئٹہ رپورٹ کے بعد وزیراعظم کو استعفے کی پیشکش کی‘

جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی رابطہ کمیٹی ان سفارشات پر عمل کرائے گی، نیشنل اینٹی ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے بجٹ کا معاملہ ہے لیکن صوبے ادارے سے منسلک ہیں اور نیکٹا وفاقی نہیں بلکہ قومی ادارہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سینٹرل ڈیٹا بیس اگلے سال مکمل کر لیا جائے گا جس کے بعد خیبر پختونخوا (کے پی کے) اور بلوچستان پولیس فنگر پرنٹس شئیر کرکے مطلبوبہ شخص کی شناخت کر سکیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا ک دہشتگردوں کے مالیاتی تعلقات ٹریس کرنے کے نظام کے ساتھ ساتھ بین الصوبائی سرحدوں پر ٹریفک کو چیک کرنے کا نظام بھی مرتب کیا جا رہا ہے۔

جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ لوگوں کیلئے متبادل تعلیمی نظام موجود ہونا چاہیے، جہاں جہاں مدرسے ہیں وہیں عالی شان اسکول بھی بنائیں اور سرکاری اسکولوں میں ناشتہ اور کھانا فراہم کریں۔

مزید پڑھیں: مدرسوں کے تعلیمی معیار کو جدید کرنے کی ضرورت، آرمی چیف

خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے ایڈ ووکیٹ کے پی کے نے کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران مردان کچہری دھماکے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔

رپورٹ کے مطابق سانحے میں چودہ ہلاکتیں ہوئیں جن میں 3 وکلا اور تین پولیس افسران بھی شامل تھے۔

رپورٹ کے سامنے آنے پر وکلا نے عدالت سے گزارش کی کہ وکلا کو بھی سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والوں کے برابر معاوضہ دیا جانا چاہیے۔

جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم ایسا کوئی حکم نہیں دیں گے لیکن وزیراعلیٰ کے پی کے سے امید ہے کہ وہ وکلا کا معاوضہ بڑھائیں گے۔

جسٹس دوست محمد نے استفسار کیا کہ اطلاعات ہیں کرم اور پارہ چنار میں مذہبی منافرت پھلانے کی کوشش کی جائے گی، نیکٹا کا کام ہے کہ ایسی چیزوں پر نظر رکھے۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری نثار سے بھی استعفے کا مطالبہ

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چوہدری نثار پر ذاتی نوعیت کے الزامات ہیں، جس پر بلوچستان بار کے وکیل نے عدالت میں سوال کیا کہ چوہدری نثار نے کس حیثیت سے کالعدم تنظیموں کے سربراہان سے پنجاب ہاؤس میں ملاقات کی جس پر جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہم اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ہم اٹارنی جنرل کی اس استدعا کو فیصلہ لکھتے ہوئے زیر غور لائیں گے، بعد ازاں عدالت نے اخود نوٹس میں تمام درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

پی ایم ڈی سی ازخود نوٹس

سپریم کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (پی ایم ڈی سی) کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کو 10 جنوری کو طلب کرلیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پی ایم ڈی سی کیس کی سماعت کی جس میں انہوں نے نجی میڈیکل کالجوں کو لائسنس دینے اور قوانین میں تبدیلی کرنے پر ڈاکٹر عاصم حسین سے عدالت میں پیش ہوکر وضاحت دینے کا حکم جاری کردیا۔

مزید پڑھیں: انتظامیہ کو مزید نئے میڈیکل کالجز کی منظوری سے روک دیا گیا

سماعت کے دوران پی ایم ڈی سی کی وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ نجی میڈیکل کالجوں نے صحت کی تعلیم کو یرغمال بنا رکھا ہے اور یہ ڈاکٹر عاصم کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ گڑبڑ کہاں ہے کیونکہ کسی نے جان بوجھ کر معاملات خراب کیے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم چار دن سے سوچ رہے ہیں کہ نجی میڈیکل کالجز میں تمام داخلے کالعدم قرار دیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایگزٹ کی جعلی ڈگریوں والا معاملہ قبرستان میں دفن کردیا گیا، پتہ نہیں کہ یہ جعلی ڈگریوں والا معاملہ کہاں زیر سماعت ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ہمیں تفصیلات دی جائیں کہ کتنی یونیورسیٹیوں کا قیام قانون کے مطابق ہوا اور ان میڈیکل یونیورسٹیوں سے کتنے میڈیکل کالجز منسلک ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں