وہ اُس تاریخ اور تہذیب کی تخلیق کار تھیں، عہدِ حاضر میں ہم جس سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے برِصغیر کی تہذیب اور احساسات کی مٹی سے اپنے کرداروں کو گوندھا۔ دورِ جدید کے رجحانات کو اپنایا، تاریخ، فلسفہ اور نفسیات جیسے موضوعات سے اپنی کہانیاں تراشیں۔

اردو ناول میں تہذیب کا نوحہ کہنے والے کم کم ہیں، اور وہ تو اور بھی کم ہیں، جنہوں نے اپنے لکھے ہوئے کو صرف سوچا ہی نہیں بلکہ بسر بھی کیا۔ وہ آج بھی ادبی منظرنامے پر موجود، قارئین کے دلوں میں زندہ ہیں۔ آج اُن کے جنم دن کے موقعے پر اُنہیں یاد کرنے کا بہانہ دراصل تجدیدِ محبت ہے، جو ہمیں اُن سے ہے۔ وہ قرۃ العین حیدر ہیں۔

20 جنوری، 1926ء کو ہندوستان کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں، تعلق ایک علمی خانوادے سے ہے، جو غیر منقسم ہندوستان میں یوپی کا زمیندار گھرانہ بھی تھا، جس کے کئی افراد مغل دربار کے منصب دار بھی رہے تھے۔ اُن کے پَر دادا امیر احمد علی نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں حصہ لیا، جبکہ دادا سید جلال الدین حیدر، انگریز سرکار سے رجوع کرکے سرکاری ملازم ہوئے، بعد ازاں وہ ہندوستانی شہر بنارس کے حاکم ہوئے اور اُنہیں خان بہادر کا خطاب بھی ملا۔ والد سجاد حیدر یلدرم کو اردو افسانے کی صنف میں پہلے افسانہ نگار کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ والدہ کا نام نذر سجاد تھا، وہ بھی ناول نگار تھیں۔

قرۃ العین حیدر۔
قرۃ العین حیدر۔

قرۃ العین حیدر نے کونونٹ اسکول، پھر ’ازابلاتھو برن کالج‘ اور ’لکھنؤ یونیورسٹی‘ سے تعلیمی سفر مکمل کیا۔ انگریزی میں ماسٹرز کرنے کے علاوہ ’گورنمنٹ اسکول آف آرٹس، لکھنو‘ اور ’ہیڈمیز اسکول آف آرٹس، لندن‘ سے مصوری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مختلف امریکی جامعات سمیت علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بطورِ مہمان پروفیسر وابستہ رہیں۔

1947ء میں بٹوارے کے بعد، اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چلی آئیں اور 1950ء میں وزراتِ اطلاعات و نشریات پاکستان سے بحیثیت انفارمیشن آفیسر وابستہ ہوگئیں۔ لندن میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن سے بطور پریس اتاشی بھی منسلک رہیں۔ پاکستان ایئر لائن سے بھی کچھ عرصہ وابستگی رہی۔ 60ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پاکستان کی شہریت ترک کرکے کچھ عرصہ انگلستان رہنے کے بعد واپس ہندوستان لوٹ گئیں۔ وہیں 21 اگست 2007ء کو طویل علالت کے بعد انتقال ہوا۔

قرۃ العین حیدر نے اپنی زندگی کی پہلی کہانی 6 برس کی عمر میں لکھی، جو شایع نہ ہوسکی۔ بچوں کے اخبار ’پھول‘ میں پہلی بار کہانی اشاعت پذیر ہوئی، اُس وقت اُن کی عمر صرف 13 برس تھی۔ اُنہوں نے ناول، ناولٹ، افسانے لکھے، کچھ مغربی کتابوں کے تراجم بھی کیے اور رپورتاژ بھی لکھیں۔

اردو زبان کے 10 بڑے ناولوں میں سے ایک ناول ’آگ کا دریا‘ کو مانا جاتا ہے، انہوں نے یہ ناول پاکستان میں قیام کے دوران لکھا تھا۔ اِس ناول کو دنیائے ادب میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، اور بعد میں انہوں نے خود اِس ناول کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ اِس کے بعد انہوں نے اپنا ایک ناول ’آخر شب کے ہمسفر‘ لکھا، جو انہیں بے حد پسند تھا، اِس ناول کو بھی اردو ناول نگاری میں ایک اہم ناول تصور کیا جاتا ہے۔

قرۃ العین حیدر نے کُل 8 ناول لکھے، جن میں ’میرے بھی صنم خانے‘، ’سفینہ غم دل‘، ’آگ کا دریا‘، ’آخر شب کے ہمسفر‘، ’کار جہاں دراز ہے‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’چاندنی بیگم‘، ’شاہراہِ حریر‘ شامل ہیں۔ اُن کا ناول ’کار جہاں دراز ہے‘ تین حصوں پر مشتمل اور سوانحی ناول ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے کئی ذاتی گوشوں پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔

مزید پڑھیے: مگر عینی ہندوستان کیوں گئی؟

انہوں نے 4 ناولٹ بھی لکھے، جن کے نام ’دلربا‘، ’سیتاہرن‘، ’چائے کے باغ‘، ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘ ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعوں کی تعداد 8 ہے، جن میں ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘، ’پت جھڑ کی آواز‘، ’روشنی کی رفتار‘، ’جگنوؤں کی دنیا‘، ’پکچر گیلری‘، ’کف گل فروش‘ اور ’داستان عہد گل‘ شامل ہیں۔ 5 سفرنامے جبکہ 7 مغربی ادیبوں کی کتابوں کے تراجم بھی اُن کے قلمی اشتراک کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر معروف امریکی ادیب ’ہنری جیمز‘ کے ناول ’دی پورٹریٹ آف اے لیڈی‘ کا اُردو ترجمہ اُن کے چند بہترین تراجم میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اُن کی کئی تخلیقات پر ہندوستان میں فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں جبکہ اُن کی تدریسی سرگرمیاں اِن مصروفیات کے علاوہ رہیں۔

پاکستان اور ہندوستان کے ادبی حلقوں میں اُن کے بارے میں ایک بات کا ذکر بہت ہوتا ہے، جس کا تعلق اُن کے ادبی رجحانات سے ہے۔ ناقدین کی اکثریت کے خیال میں اُن کے ناولوں میں ’شعور کی رو‘ جیسی تکنیک استعمال ہوئی، یہی وجہ ہے کہ اُن کا موازنہ مغربی ادیبہ ’ورجینا وولف‘ سے بھی کیا گیا، جبکہ مغرب کے ہی دو اور معروف ناول نگاروں ’گیبریل گارشیا مارکیز‘ اور ’میلان کنڈیرا‘ کا نام بھی سننے کو ملتا ہے، عصری اعتبار سے تو یہ دونوں قرۃ العین حیدر کے ہم عصر رہے ہیں مگر میرے خیال سے تینوں کا ایک دوسرے سے لکھنے کا انداز بے حد مختلف ہے۔

اِسی طرح پاکستان میں کئی ادیبوں کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ قرۃ العین حیدر کی کہانی نویسی سے متاثر رہے، جن میں سب سے نمایاں نام اردو کے معروف ناول ’اداس نسلیں‘ کے خالق ’عبداللہ حسین‘ کا ہے، جبکہ چند ایک خواتین ناول نگار اور افسانہ نویسوں کے بارے میں بھی یہ عام خیال ہے کہ انہوں نے قرۃ العین حیدر کے اسلوب کو شعوری طور پر اپنایا۔ اُن کے کام کو مختلف ناقدین نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا، مگر ایک عام قاری کی حیثیت سے کوئی اُن کے کام کو سمجھنا چاہتا ہے تو پاکستان کے ممتاز ادبی ناقد ’ڈاکٹر ممتاز احمد خاں‘ کی تحریریں پڑھ لے، انہوں نے تفصیل سے اُن کے ناولوں اور کرداروں کی تفہیم کی ہے۔

قراۃ العین حیدر۔
قراۃ العین حیدر۔

قرۃ العین حیدر کے تخلیقی کام میں سب سے زیادہ شہرت، انہیں ناول نگاری میں ہی ملی، ویسے وہ ادب تخلیق کرنے کے علاوہ صحافت، فلم اور مصوری کے شعبے سے بھی وابستہ رہیں۔ پاکستانی جریدے ’پاکستان کوارٹرلی‘ کی قائم مقام مُدیر رہنے کے علاوہ ہندوستان میں معروف ہفتہ وار انگریزی جریدے ’السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا‘ کی معاون مدیر ہوئیں، جبکہ اِس سے پہلے وہ ایک انگریزی جریدے ’امپرنٹ‘ کی مُدیر اعلیٰ بھی تھیں۔

پاکستان میں سکونت کے دنوں میں کئی دستاویزی فلموں کو پروڈیوس کیا جبکہ ہندوستان میں سینٹرل بورڈ آف فلمز سے بھی منسلک رہیں۔ اُنہیں مصوری سے بھی خاص شغف تھا، جس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی اظہار بھی کیا، لیکن اُن کایہ گوشہ خاصا تشنہ لب ہی رہا۔ زندگی میں بہت سارے اعزازات حاصل کیے، جن میں اُن کو ہندوستان کا سب سے بڑا ایوارڈ ’پدما بھوشن‘ ملا جبکہ دیگر اہم اعزازات میں ’ساہتیہ اکادمی ایوارڈ‘، ’گیان پیٹھ ایوارڈ‘، ’اترپردیش ایوارڈ‘ اور دیگر شامل ہیں۔

قرۃ العین حیدر نے مجرد زندگی گزاری، اُن کی زندگی میں ایک آدھ مرتبہ ایسا بھی موقع آیا، جب اُن کی شادی ہندوستان میں معروف ادیب خواجہ احمد عباس اور پاکستان میں محقق اور دانشور ابوالخیر کشفی سے ہوتے ہوتے رہ گئی۔ شادی کے بندھن سے نہ جانے کیوں خائف تھیں، بچپن میں گڈے گڑیا کے کھیل میں بھی اُن کی شادی نہیں کرواتیں، یہ انہوں نے اپنی یادداشوں میں قلم بند کیا۔ وہ مزاج کے اعتبارسے بھی کچھ سخت تھیں، لیکن جن سے دوستی ہوجاتی، اُن سے بہت فراخدلی اور شفقت سے پیش آتیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ادبی منظرنامے کی ’عینی آپا‘ بھی کہلائیں۔ پاکستان کی معروف شاعرہ ’پروین شاکر‘ نے اُن کی مجردانہ زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے ایک نظم لکھی تھی۔ جس کا قرۃ العین حیدر نے بے حد بُرا مانا، کیونکہ اُن کے خیال میں یہ نظم اُن کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کے مترادف تھی۔

پاکستان سے واپس ہندوستان چلے جانے کے متعلق معروف ادیب قدرت اللہ شہاب کی بات کو حوالہ بنایا جاتا ہے، جس کے مطابق قرۃ العین حیدر پاکستان میں جنرل ایوب کے مارشل لاء سے ادیبوں پر لگنے والی پابندیوں سے دلبرداشتہ تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اِس بات سے ہمیشہ انکار کیا۔ پاکستان کیوں چھوڑ کرگئیں، اِس پر کبھی کوئی بات نہیں کی مگر ایک عام خیال یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ جب اُن کا ناول ’آگ کا دریا‘ شایع ہوا تو پاکستان میں اِس ناول کے پلاٹ اور کہانی کی وجہ سے اُن کو آڑے ہاتھوں لیا گیا کیونکہ یہ ناول قدیم ہندوستان، بُدھ مت اور دیگر ہندوستانی روایات کی عکاسی کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے اُن سے یہ تنقید برداشت نہ ہوئی اور وہ پاکستان سے برطانیہ اور پھر ہندوستان چلی گئیں۔

قرۃ العین حیدر ایوب خان سے مصافحہ کر رہی ہیں۔
قرۃ العین حیدر ایوب خان سے مصافحہ کر رہی ہیں۔

قرۃ العین حیدر برِصغیر پاک و ہند کی وہ ناول نگار تھیں، جن کا نوبیل ادبی انعام پر حق تھا، مگر وہ اُن کو نہ ملا۔ اِس ناانصافی کے حوالے سے معروف ادیب آصف فرخی نے اپنی ایک تحریر میں تذکرہ کیا، جس کے مطابق 2008ء میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی ادیبہ ’ماری لی کلیزیو‘ نے ایک سوئڈش صحافی خاتون سے بات کرتے ہوئے کہا،

’اِس سے کہیں زیادہ اِس ادبی انعام کے مستحق بعض دوسرے ادیب تھے، جیسے فرانسیسی زبان کے ایڈورڈ گلیساں اور ہندوستانی ادیبہ قرۃ العین حیدر۔‘

اِس بات سے اندازہ ہوتا ہے اُن کی ناول نگاری کی دھوم عالمی سطح پر بھی ہے۔

اردو ناول نگاری میں تہذیب کا نوحہ کہنے والے کم کم ہیں، اور وہ تو اور بھی کم ہیں، جنہوں نے اپنے لکھے ہوئے کو صرف سوچا ہی نہیں بلکہ بسر بھی کیا۔ اِس خطے کی تاریخ ہو یا ہجرت کے مصائب، ملکوں کے درمیان کھینچی جانے والی لکیریں ہوں یا رشتوں میں پڑنے والی دراڑیں، نفسیات کی راہداریوں میں بھٹکنے والے خیالات ہوں یا پھر خواہشوں کو روک کر رکھنے صبر آزما حالات، ناانصافی پر چیخ اُٹھنے والی آوازیں ہوں یا تنہائی میں خود سے مکالمہ کرنے والی ضرورتیں، اُن سب کو قرۃ العین حیدر نے صرف محسوس ہی نہیں کیا بلکہ بسر بھی کیا۔ وہ اُس تاریخ اور تہذیب کی تخلیق کار تھیں، عہدِ حاضر میں ہم جس سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

OMMAL MEMON Jan 20, 2018 07:41pm
It is actually impressive.We,nowadays, are just focusing on english language.We have utterly forgot our national language. having thought that the slogan for prevailing national language is extremism, is of course wrong.As nations grow and survive with their language and culture.So, in such atmosphere of english imperialism, it is an eye opening article and step as well.
عمردراز گوندل Jan 21, 2018 01:43am
ایک عدد بہترین تحریر
عمردراز گوندل Jan 21, 2018 01:44am
ایک عدد بہترین تحریر