• KHI: Partly Cloudy 20.1°C
  • LHR: Fog 9.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 20.1°C
  • LHR: Fog 9.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C

دھنک بکھیرنے والا، سرور سکھیرا

شائع July 8, 2013

sarwar sukhera 670
۔ —. فوٹو بشکریہ سرور سکھیرا

حضرتِ سرور سکھیرا دنیا میں ’دھنک‘ بکھیرنے آئے ہیں اور بکھیرتے جارہے ہیں۔ جو بھی انہیں جانتا ہے، ان کے قدموں میں بیٹھنا چاہتا ہے اور نہیں جانتا تب بھی ان کی معصومانہ بزرگی دیکھ کر ان کے لیے اپنی نشست خالی کردیتا ہے۔

 ہمیں یقین ہے کہ اگر سکھیرا صاحب کسی حلقے سے کھڑے ہوجائیں تب بھی ان کے چہرے اور بالوں سے ٹپکتی شرافت دیکھ کر عوام انہیں فوراً بٹھا دیں گے۔

حضرتِ سرور سکھیرا نے زندگی میں کئی عظیم کام انجام دئیے علاوہ چمچہ گیری اور خوشامد پسندی کے۔ آپ نے صحافت اور عشق کا فریضہ حقوق العباد سمجھ کر ادا کیا۔ بچپن میں جب لڑکے، لڑکیوں کے گھروں کے سامنے کرکٹ کھیلتے ہوئے گیندیں اور لائن مارا کرتے تھے آپ ”محبت نامے“ لکھ کر لڑکیوں اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو پوسٹ کیا کرتے تھے کیونکہ لکھنے اور محبت کرنے کا جذبہ یکساں شدت سے موجود تھا۔

 علم سے اتنی محبت تھی کہ کتاب اور لڑکی ساتھ ساتھ دھری ہوتی تھی مگر مجال ہے کہ کبھی کتاب کو چھوا ہو۔

بڑے ہوئے تو کمانے کے علاوہ ایک جریدہ بھی نکالا۔ آپ کا یہ جریدہ ”دھنک“ ایک ٹرینڈ سیٹر میگزین کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس جریدے کو ایلیٹ کلاس اپنے ڈرائنگ روم میں اور قاری اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا تھا۔ سیاست، کھیل اور شوبز کی دھاندلی اور ناپاکی کو حضرتِ سرور سکھیرا نے اپنے قلم اور ادارتی تیکنیک کے ذریعے پاک کرنے کی سالہا سال تک کوششیں کیں۔ پاکی کے اس عمل کو پڑھتے ہوئے قاری مسکراتا یا پھر قہقہے لگاتا تھا۔

آپ کا جریدہ ”دھنک“ سائز میں اتنا بڑا ہوتا تھا کہ والدین اسے بچوں سے اور بچے والدین سے چھپا نہیں پاتے تھے اور یوں اسے فیملی میگزین کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ اس پرچے میں اُس دور کے ہر سیاستدان اور فلمسٹار کے کارٹون اور کرتوت چھپتے رہے ۔ لوگ ان دنوں گناہ کرنے سے پہلے آس پاس نظر دوڑاتے تھے کہ کہیں حضرتِ سرور سکھیرا نوٹ تو نہیں لے رہے ہیں۔ اگر سکھیرا صاحب ایک بار قلم سے نوٹ لکھ لیں تو کوئی کتنا ہی بھی بڑا کرنسی نوٹ لے آئے، آپ اپنا لکھا نہیں کاٹتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ آپ کو کاٹنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

حضرت سرور سکھیرا مالدار آدمی تھے اور شوقِ صحافت میں اتنے غریب ہوگئے کہ اب سونے کی بجائے چاندی کے چمچوں سے کھانا کھاتے ہیں۔ ہم نے جب کورس کی کتابوں کے علاوہ کچھ اور پڑھنا سیکھا اس وقت تک ”دھنک“ اپنی اشاعت کو داغِ مفارقت دے چکا تھا۔ ان دنوں یہ کباڑیوں کے پاس الگ سے سینت کر رکھا جاتا تھا اور دیگر رسائل کے مقابلے میں تھوڑی زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاتا تھا۔ دھنک پڑھ کر ہم نے طنز و مزاح کی قدر جانی اور بعدازاں پطرس، ابنِ انشاء سے لے کر مشتاق احمد یوسفی کے مداح بنے۔

دھنک سے ہی ہمیں سیاست دانوں، کھلاڑیوں، فلمسٹاروں، ادیبوں، شاعروں اور نام نہاد سماجی خدمت گاروں کے تاریک کارناموں سے آگاہی حاصل ہوئی۔

سکھیرا صاحب اس دور کے مقبول عوامی اخبار ”مساوات“ کے ایڈیٹر بھی رہے اور اتنی مساوات برتی کہ اعلیٰ طبقے میں دشمن کے طور پر مشہور ہوگئے۔ وردی والوں نے انہیں کارِ خیر سمجھ کر نشانہ بنایا اور مجبوراً سکھیرا صاحب کو عملی طور پر صحافت اور ملک چھوڑنا پڑا۔

سکھیرا صاحب آج بھی جب باتیں کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ مساوات کی سرخی چیخ رہی ہے، ذیلیاں بول رہی ہیں۔ ترنگ میں ہوں تو پورا کالم رقم ہورہا ہوتا ہے۔ ہمیں ٹورنٹو میں گھٹیا سردی کی ایک رات اس عظیم دانشور سے ملنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ ٹم ہارٹنس کی کافی کی مہک کے ساتھ ہم نے ان کی گفتگو سنی جو اُن کے زیر طبع ناول کی طرح دلچسپی اور معلومات سے بھرپور تھی۔

سکھیرا صاحب نے دھنک میں جن لوگوں کو موقعہ دیا تھا آج وہ ملک کے مشہور شعراء، ادیب اور صحافی ہیں۔ آج ان میں سے بیشتر کا خون سفید ہے اور وہ خود سیاہ کرتوتوں میں مصروف ہیں کیونکہ ان کی نگرانی کے لیے کوئی سرور سکھیرا موجود نہیں۔

جب ہم پاکستان سے کینیڈا کوچ کر آئے تو موقع پاکر سرور سکھیرا صاحب نے ایک اردو روزنامے  میں اپنی طرز کے ایسے منفرد، چلبلے اور بامعنی کالم لکھ ڈالے کہ اگر ہم وہاں ہوتے تو ان کالموں کا ری مکس ضرور کرتے اور شاید آج کل کئی نامور کالم نگار یہی کررہے ہیں۔ ان کے ان کالموں پر مشتمل ایک کتاب بھی چھپی ہے جس کا نام جمیل خان فیس بک پر اتنی بار لے چکے ہیں، جتنی بار کہ عمران خان کےچاہنے والے اُن کا نام مستقبل کے وزیراعظم کی حیثیت سے لے رہے تھے۔ کتاب کا نام ہے "سنو گجر کیا گائے۔"

 دیگر کتابوں کے برعکس اس کتاب کا نام دیر سے اور اس کے مضامین بہت جلدی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ اس کا ایک نسخہ ہمیں اس پہلی ملاقات میں ہمارے روحانی صحافتی استاد نے دیا تھا اور اب تک میں اور بیگم اسے چھینا جھپٹی کے ساتھ باری باری پڑھتے رہتے ہیں۔ انسان بوڑھا ہوجائے تو کتابیں ہی پڑھتا ہے۔

وضعداری اور خاندانی شرافت کو اگر آج بھی دیکھنا ہو تو حضرتِ سرور سکھیرا کی تصویر سامنے رکھ لیں، کارٹون تو آپ کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔


Mirza Yasin Baig  مرزا یاسین بیگ شادی شدہ ہونے کے باوجود مزاح اور صحافت کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہیں اور گلے سے لگائے رکھتے ہیں ۔ کینیڈا اور پاکستان کی دوہری شہریت ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔

مرزا یٰسین بیگ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025