کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ گھاس کا ہوتا ہے۔ مگر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) فرنچائزوں کی لڑائی دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے اس نے تو پورے کا پورا جُھنڈ ہی زخمی کردیا ہے اور بے چاری گھاس کا حشر نشر ہوچکا ہے۔

شاید ہمیں اب پی ایس ایل کو ’پاکستان سپر لیکس‘ پکارنا چاہیے، کیونکہ صورتحال ہی کچھ ایسی ناقابلِ فہم ہے کہ ایک صحافی بھی ایسی خفیہ ٹھیک ٹھیک معلومات حاصل کرسکتا ہے جو کہ کسی متعلقہ ذمہ دار یا تمام فائلوں تک رسائی رکھنے والے شخص نے کبھی فراہم ہی نہیں کی۔

اِن لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ 6 میں سے 5 فرنچائزوں نے اپنی سالانہ فیس ادا ہی نہیں کی ہے جبکہ کھلاڑیوں کی ایڈوانس فیس کی مد میں 6 لاکھ ڈالرز بھی ادا کرنے ہیں۔

لیکن کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ معلومات پی سی بی نے جان بوجھ کر خود فراہم کی ہے۔ شاید ایسا ہو بھی۔

مگر سوال یہ ہے کہ پی سی بی ایسے عین موقع پر فرنچائزوں کے ساتھ اپنے جھگڑے کو میڈیا میں لاکر آخر کیوں پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن کو خطرے میں ڈالے گا؟

اگرچہ پی سی بی کا کہنا ہے کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں اور پی ایس ایل 3 کا انعقاد ضرور ہوگا۔ لیکن کبھی آپ نے 'بیڈ کاپ، گڈ کاپ‘ سنا ہے؟

عقلمند آدمی جانتا ہے کہ جب کبھی بھی خبر بریک ہوگی تو یہی سوال پوچھا جائے گا کہ، ’اس معلومات کا منظرِ عام پر آنے کا فائدہ کس کو ہے؟‘ اس کیس میں فرنچائزوں کو تو بالکل بھی نہیں ہے۔ وہ تو اپنے مداحوں اور ان اسپانسرز کے سامنے کافی شرمندہ ہیں جن سے وہ بھاری رقوم وصول کرچکی ہیں۔

اگر ایک یا ایک سے زائد فنانس مینیجرز زیادہ رقوم وصول کرنے کی پاداش میں تھے، تو تھوڑے بہت ہوشیار اسپانسرز پی سی بی کی فرنچائزوں کو اپنے اختیار میں لیے جانے کی دھمکی پر عمل درآمد کیے جانے تک انتظار کرسکتے ہیں۔

کیونکہ ہر فرنچائز کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی ایک شق کے مطابق اگر فرنچائز وقت پر ادائگیاں نہیں کر پائی تو پی سی بی اسے اپنے اختیار میں لینے اور مارکیٹ قیمت پر دوبارہ بیچنے کی مجاز ہوگی۔ ایک بار فرنچائز کو اپنے اختیار میں لینے کے بعد نقصان دہ قرضوں کا سہارا لینا شاید پی سی بی کی ترجیح نہ ہو، خاص طور پر تب جب ان کے پاس ایک ایسی فرنچائز ہو جس کی مالیت پہلے کے مقابلے دگنی ہوچکی ہو۔

تو فائدہ کس کو ہے؟ جہاں پی سی بی متاثر کے طور پر سامنے آیا، وہیں اسپانسرز کے سامنے فرنچائزوں کی ساکھ بھی بہت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔

میں خود بھی کئی برسوں سے ایک اسپانسر رہا ہوں، جب بھی اسپورٹس آرگنائزیشن کی مینجمنٹ میں کسی تبدیلی کا اندیشہ ہو تو میں ہمیشہ اگلی اقساط کی ادائیگی روک لیتا ہوں اور اگر میں سرمایہ کاری کرنے بھی لگوں تو پھر ایسوسی ایشن اور پیرنٹ باڈی کے درمیان بے چینی کی خبریں آتی ہیں جو مجھے دیگر آپشنز پر غور کرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔

فرنچائز کو ویسے ہی اسپانسرز ڈھونڈنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ چونکہ اسپانسرز جانتے ہیں کہ ڈیڈلائن متعین کی گئی ہے جس سے پہلے پہلے فرنچائز کو اسپانسرز حاصل کرنے ہوں گے، اسی لیے شاید انہیں اسپانسرز مل جائیں۔

شاید یہ لوگ فرنچائز کی مایوس کن صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش اور امید کر رہے ہیں کہ چھوٹی سی رقم میں ہی ان کا کام تمام کیا جائے۔

تو سوال یہاں ایک بار وہی اُٹھتا ہے کہ آخر فائدہ کس کو ہوا؟ میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ فرنچائزز جنہوں نے ادائیگی نہیں کی ہے ان کی کوئی غلطی نہیں۔ فرنچائز کے تمام مالکان کاروباری ہیں جو کہ بدتر سے بدتر صورتحال کو ذہن میں رکھ ہی ڈیلز کرتے ہیں، اور انہیں اپنے پیسوں سے اچھا خاصا منافع حاصل ہوا ہے کیونکہ گزشتہ دو ایڈیشن کو شائقین کی ایک بڑی تعداد نے دیکھا۔

لیکن بہرحال، چوں کہ اب خطرہ ختم ہوچکا ہے، تو فرنچائزیں معیشت کی طرف نکتہ چینی کرسکتی ہیں جس نے کارپوریٹس (یعنی حالیہ اور متوقع اسپانسرز) کو گزشتہ چند ماہ میں ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے جس سے کاروبار پر آنے والے اخراجات بڑھے ہیں۔ ایندھن مہنگا ہوا ہے جس سے ترسیل کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے مجموعی طور پر یوٹیلیٹیز اور مہنگائی کے سبب بھی اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ چنانچہ کرکٹ کو اسپانسر کرنے کی عیاشی سے زیادہ اپنا کاروبار جاری رکھتے ہوئے آمدنی برقرار رکھنا پہلی ترجیح ہے۔

فرنچائزیں بھی کاروباری افراد کے ہاتھوں میں ہیں جنہیں لگتا ہے کہ اسپانسر اتنا ساتھ نہیں دے رہے جتنا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا، اس لیے ان کے پاس کھلاڑیوں کو ایڈوانس فیس دینے کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ ایک مہنگے ڈالر نے پی سی بی کو واجب الادا رقم میں بھی اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے فرنچائزوں کے انفرادی بجٹ شدید دباؤ کا شکار ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ یہ پی سی بی کی جانب سے دباؤ کا حربہ ہو تاکہ اس دیوالیے پن کو عوام میں لایا جائے، تاکہ فرنچائز مالکان پر ادائیگی کے لیے دباؤ بڑھے۔ مگر جب ایک دفعہ گولی چل گئی، تو فرنچائز مالکان کے پاس اب گنوانے کے لیے اور کیا ہے؟ پھر موٹی کھال والے مالکان عدالت جاکر پی سی بی کی ملکیت میں جانے کے خلاف حکمِ امتناع لے سکتے ہیں، جس میں وہ اپنے بس سے باہر موجود عوامل کا بہانہ بنائیں گے۔

مثال کے طور پر ٹی 10 لیگ کو حاصل پی سی بی کی حمایت۔ اس نے یقینی بنایا کہ پاکستان کے اول درجے کے کھلاڑی اس لیگ کے لیے دستیاب ہوں۔

اسی وجہ سے ٹی 10 فرنچائزوں کی جانب اتنے اسپانسر کھنچے چلے آئے جو ممکنہ طور پر پی ایس ایل کی فرنچائزوں میں سرمایہ کاری کرسکتے تھے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک پی ایس ایل فرنچائز کے ایک غیر ملکی اسپانسر (جی پی) بھی ٹی 10 لیگ میں تھے۔ اس سے پہلے وہ ایک پی ایس ایل فرنچائز چھوڑ چکے تھے۔

اِس لیے ہمیں اِس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ٹی 10 لیگ کو ملنے والی پی سی بی کی اچانک حمایت سے پی ایس ایل اسپانسرز کے آپشن کو نقصان ہوا ہے جو پاکستان اور بیرونِ ملک اشتہارات کے حصول کے لیے مہمات چلا رہی تھیں۔

اگر ٹی 10 لیگ نہ ہو رہی ہوتی تو ان میں سے کچھ غیر ملکی اسپانسرز صرف خلیج سے ہی نہیں بلکہ ہندوستان جیسی بڑی مارکیٹ میں بھی اپنے منافع کے لیے پی ایس ایل کی جانب دیکھتے۔

اِس لیے الزام سارا پی سی بی پر ہے۔

لہٰذا ٹی 10 لیگ کی حمایت کے لیے پی سی بی حکام کی نیتیں جتنی بھی نیک ہوں، مگر کچھ پی ایس ایل فرنچائزیں اس فیصلے پر سوالات اٹھا رہی ہیں۔

اگر پی سی بی اور فرنچائزوں کے درمیان ملکیت کی منتقلی پر جنگ چھڑ گئی، تو پی سی بی کو اپنی ہی لگائی آگ میں جلنے سے شاید پھر کوئی نہیں روک سکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں