• KHI: Partly Cloudy 25.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.3°C
  • ISB: Rain 15.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 25.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.3°C
  • ISB: Rain 15.6°C

سازش فیکٹری

شائع July 10, 2013

بادامی باغ لاہور میں بلوائی ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے -- فائل فوٹو
بادامی باغ لاہور میں بلوائی ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے -- فائل فوٹو --.

دماغی امراض میں ایک ایسا مرض بھی ہے جس میں انسان کو ہر طرف دشمن نظر آتے ہیں اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا تمام جہان اسکے خلاف سازش میں ملوث ہے۔ مبارک حیدر صاحب کے مطابق پاکستانی معاشرہ بحیثیت مجموعی اس عارضے کا شکار ہے اور طب کے شعبے سے تعلق رکھنے کے باعث ہمارے ناقص خیال میں ان کی تشخیص بالکل درست ہے۔

آئے روز کوئی صاحب ملک کے خلاف سازش کے متعلق نئے سے نئے انکشاف فرما دیتے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں میں ہم بمشکل مفتی رفیع عثمانی صاحب کے خطاب کا ایک مختصر جائزہ لے کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ کسی دوست نے پیپلز پارٹی کے اشیاق بیگ صاحب کی ایک تازہ تحریر کی جانب توجہ دلائی۔

ہمارے مشاہدے کے مطابق پیپلز پارٹی والے ویسے ہی مظلومیت کی جانب مائل رہتے ہیں اور وہ اس پر شائد حق بجانب بھی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ساری دنیا انکے خلاف سازش میں مشغول ہے۔

اشتیاق بیگ صاحب نے بھی اسی اخبار میں اپنا مدعا بیان کیا جس میں مفتی رفیع عثمانی کے کلام کو جگہ دی گئی تھی۔ بیگ صاحب ’کینیڈا کا رمشا مسیح کو پناہ دینے کا فیصلہ‘ نامی مضمون میں لکھتے ہیں؛

’مغربی ممالک ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی واقعہ پیش آئے اور وہ اسے دوسرا رخ دے کر کسی طرح سے پاکستان کے خلاف استعمال کریں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے بھی واقعہ کی آڑ میں منفی پروپیگنڈا کر کے پاکستانیوں کو شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دلوائیں جس سے یہ تاثر ابھرے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے باعث اقلیتی طبقہ محفوظ نہیں۔‘

اس موقعہ پر وضاحت کرتے چلیں کہ قرارداد مقاصد جو کہ پاکستان میں اقلیتوں کے منہ پر پہلا طمانچہ تھا، امریکہ سے درآمد نہیں کی گئی تھی۔ اس قرارداد کی پیشکش کے موقعے پر قانون ساز اسمبلی میں دونوں اطراف سے دھواں دار تقاریر کی گئیں۔

بجٹ کے نام پر بلائے گئے اجلاس میں شبیر عثمانی نامی مولوی کی شہہ پر لیاقت علی خان نے 'قرارداد مقاصد' نامی فال نکالی۔ غیر مسلم ارکان پارلیمنٹ نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسے جمہوریت کے اصولوں کے مخالف قرار دیا۔ میاں افتخار الدین نے براہ راست مخالفت تو نہیں کی لیکن خدا کی حاکمیت والی شق پر واضح اختلاف کیا۔

حیران کن طور پر قرارداد کی حمایت میں سب سے متاثر کن تقریر احمدی وزیر خارجہ ظفر اللہ چوہدری کی تھی۔ بلآخر تین روز بعد قرارداد منظور ہو گئی۔

1953 میں علماۓ دین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو ایک مہینے کے اندر اندر غیر مسلم قرار دیا جائے اور ظفر اللہ کو وزیر خارجہ کے عہدے سے ہٹایا جائے ورنہ شدید احتجاج کیا جائے گا۔ حکومت نے مطالبہ مسترد کیا تو پنجاب میں ہنگامے شروع ہو گئے اور کئی احمد ی مارے گئے۔ ان واقعات میں ہندوستان، روس، برطانیہ یا امریکہ کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔

اشیاق بیگ صاحب سے ہمارا یہ سوال ہے کہ کیا مجلس احرار اور ممتاز دولتانہ کی لگائی اس آگ کے ذمہ دار مغربی ممالک تھے؟

شانتی نگر، گوجرہ اور جوزف کالونی میں آگ بھی شائد اسی لیے لگائی گئی تھی تاکہ ’دنیا میں یہ تاثر ابھرے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے باعث اقلیتی طبقہ محفوظ نہیں‘۔

آئے روز اہل تشیع، خصوصی طور پر ہزارہ افراد کا خون بھی شائد اسی لیے بہایا جاتا ہے۔ شانتی نگر ہو یا کوئٹہ کے ہزارہ، مجرم ہمیشہ پاکستانی مسلمان ہی کیوں نکلتا ہے؟ کیا یہ بھی کوئی عالمی یہود و نصاریٰ کی سازش ہے؟

بیگ صاحب مزید لکھتے ہیں:

’مغربی ممالک خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں جبکہ حقیقت اسکے بر عکس ہے۔ کچھ سال قبل بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ پیش آنے والی زیادتی کو مغربی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا جس کے بعد برطانیہ نے ڈاکٹر شازیہ کو پناہ دی تھی۔ مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ جب منظر عام پر آیا تو اسے امریکہ لے جایا گیا اور وہاں اس نے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ناروا سلوک کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ خدشہ ہے کہ رمشا مسیح کو بھی پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا‘۔

پاکستانی خواتین جس جنت میں رہ رہی ہیں، اسکا علم بیگ صاحب کو تو ہے، ہمیں ہرگز نہیں ہے۔ شائد بیگ صاحب پاکستان کے اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتے ورنہ اس قسم کی واہیات بات لکھنے سے پرہیز کرتے۔

نام نہاد غیرت کے نام پر قتل اس ملک کا معمول ہیں اور عورت کو چادر اور چار دیواری میں رہنے کا سبق ملّا سے لے کر الیکشن کے ریٹر نگ افسر تک سناتے رہتے ہیں۔

یہ وہ ملک ہے کہ جس کے مقبول ڈرامے ابھی تک اپنی مرضی سے شادی کرنے والی لڑکی کو فاحشہ کے کردار میں اور والدین کے آگے سر تسلیم خم کرنے والی لڑکی کو فاخرہ کے کردار میں پیش کرتے ہیں۔ اور بیگ صاحب چلے ہیں آزادیء نسواں کا علم بلند کرنے؟

ڈاکٹر شازیہ کے متعلق انکے الفاظ سے یوں لگتا ہے گویا وہ اس بات سے خوش نہیں کہ ڈاکٹر شازیہ برطانیہ کیوں چلی گئی، وہ یہاں کیوں نہ رہی، اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ زیادتی ہونے پر واویلا کرے! مختاراں مائی کے متعلق بھی محترم کے خیالات مشرّف سے ملتے جلتے ہیں، یقیناً یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ خواتین بیرون ملک کے ویزوں کے لیے اجتماعی زیادتی جیسے واقعات میں جان بوجھ کر ملوث ہوتی ہیں۔

اسی مضمون میں جناب نے عدلیہ کی آزادی کا ذکر بھی کیا ہے۔ عدلیہ تو جناب اتنی آزاد ہے کہ مختاراں مائی کے واقعے میں ملوث ملزمان آج آزاد پھر رہے ہیں۔

عدلیہ اتنی آزاد ہے کہ ملعون ممتاز قادری کو سزا سنانے والا جج ابھی تک روپوش ہے۔

عدلیہ اتنی آزاد ہے کہ ملک اسحاق جیسے مذہبی جنونی کھلے عام گھوم رہے ہیں۔

مضمون کے اختتام پر حضرت لکھتے ہیں کہ؛

’توہین رسالت یا توہین قرآن کے واقعات میں آج تک کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی‘۔

اس  سادگی  پہ  کون  نہ  مر  جائے  اے  خدا!  وہ پچاس  افراد  جو  توہین  کے  الزام  میں  جیل  گئے  اور  انکو  وہاں  قتل  کر  دیا  گیا،  کیا  ان  کے  ساتھ  کوئی  زیادتی  نہیں  ہوئی؟

جائداد  کے  جھگڑوں  کے  باعث  توہین  کے  الزام  میں  ملوث  ہونے  والے  عیسائی  اس  بات  کی  تردید  کرنا  پسند  کریں  گے۔  جوزف  کالونی  اور  گوجرہ  کو  تاش  کے  پتوں  پر  جاری  جوئے  میں  ہار  کے  باعث  توہین  کی  آڑ  میں  جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے اور آپ  مصر  ہیں  کہ  کوئی  زیادتی  نہیں ہی ہوئی!

آسیہ  بی بی  کو  پینے  والے  پانی  سے  شروع  ہونے  والے  جھگڑے  کی  بنیاد  پر  موت  کی  سزا  سنائی  جاتی  ہے  اور  یہ  صاحب  ہیں  کہ  انہیں  کوئی  زیادتی  نظر  نہیں  آتی۔

یہ  کوئی  پہلی  یا  آخری  دفعہ  نہیں  کہ  اس  طرز  کی  علمی  بد  دیانتی  کی  گئی  ہو۔  'سینئر صحافی' سلیم  صافی  صاحب  نے  اسی  اخبار  میں  ایک  اول  جلول  قسم  کا  مضمون لکھا جس  کے  چند  اقتباس  ملاحضہ  کریں؛

’وہ  الگ  بات  ہے  کہ  پاکستان  کے  اندر  ملالہ  کے  ایشو  کو  کس  طرح  کچھ  لوگوں  نے  سیاست  یا  صحافت  چمکانے  کے  لیے  استعمال  کیا  اور  کس  طرح  مغربی  ممالک  اور  لابیاں  ان  کو  مسلمانوں  یا  پھر  طالبان  کے  خلاف  ہتھیار  کے  طور  پر  استعمال  کرنے  کی  کوشش  کر  رہے  ہیں‘۔

یعنی  ایک  بارہ  سالہ  نہتی   بچی  پر  طالبان  اسکے  خیالات  کی  وجہ  سے  حملہ  کرتے  ہیں  اور  بورژوا  کے  پسندیدہ  کالم  نگار  مصر  ہیں  کہ  وہ  بچی  طالبان  کے  خلاف  کوئی  قدم  نہ  اٹھائے،  نہ  ہی  دنیا  کو  سچ  سے  آگاہ  کرے  کیونکہ  سچی  بات  قومی  مفاد  یا  مذہب  سے  زیادہ  اہم  تو  نہیں  ہوتی۔

مزید  لکھتے  ہیں:  ’میرے  احتجاج  کرنے  پر  ان (ملالہ  کے  والد)  کا  کہنا  تھا  کہ  وہ  چوکنے  رہیں  گے  اور  پوری  کوشش  کریں  گے  کہ  کتاب (جو  ملالہ  لکھ  رہی  ہے) میں  ایسی  کوئی  بات  نہ  آئے  جسے  مغربی  طاقتیں  اسلام  یا  پاکستان  کے  خلاف  پروپیگنڈے  کے  لیے  استعمال  کریں‘۔

یہ  چند  نسخے  اس  بات  کا  ثبوت  ہیں  کہ  اس   ملک  میں  جہالت  کا  ذمہ  دار  صرف  ملّا ہی نہیں بلکہ  پڑھے  لکھے  افراد  بھی  اپنی  استعداد  کے  مطابق  اس  کار  خیر میں خوب حصہ  ڈال  رہے  ہیں۔


majeed abid 80 عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (7) بند ہیں

shakir merani Jul 11, 2013 02:59am
khoob likha hay apnay----------is mulk e khuda dad mein itna such lekhnay-------------ki revayat naheen hay -----------apnay sath dushmani na karin--
nasir Jul 11, 2013 08:32am
Bhai Mukhtara Mai ka case drama he tha... GEO walo nay khud is pay aik documentary banayi hai. Aur Baba Europe aur USA mein kitnay RAPES hotay hai.. Kabi wahi ki auratona nay apna k khalif bola hai???? Nahi?? So why pakistan ki Auratein USA, Canada aur UK chali jati aur apni hi mulk ko gunda karti hai...!!???
Meesum Zaidi Jul 12, 2013 08:53am
Iss mulk mai to Khwateen marne ke baad qabro mai bhi mehfooz nahi
ہینکرز پھینکرز کے ٹوپی ڈرامے | Dawn Urdu Jul 27, 2013 06:59pm
[…] پاکستانی  میڈیا  کے  ایک  اور  سورما  سلیم  صافی  اور  انکی  گری  ہوئی  سوچ  کے  بارے  میں  ہم  پہلے  تفصیل  سے  بات  کر  چکے  ہیں۔ […]
To Javed Chaudhry and Talat Hussain -Siasi Tv Jul 31, 2013 05:50am
[…] سوچ کے بارے میں ہم پہلے تفصیل سے &#157…۔ غیرت برگیڈ کے […]
To Javed Chaudhry and Talat Hussain. | PkDebate Daily Pakistani Talk Shows And Much More... Jul 31, 2013 06:03am
[…] اور سورما سلیم صافی اور انکی گری ہوئی سوچ کے بارے میں ہم پہلے تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔ غیرت برگیڈ کے دو نامور کارکنان کے بھی چند افکار سن […]
عمران زاہد Oct 29, 2013 02:31pm
لالیو یہ تو بتا دو کہ بدنام زمانہ مختاراں مائی کیس کا فیصلہ کیا ہوا تھا عدالتوں میں؟

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025