چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھڑانے کا وقت آ چکا

چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھڑانے کا وقت آ چکا

اسامہ افتخار

چیمپیئنز ٹرافی میں یادگار کامیابی اور سری لنکا کے خلاف 0-5 سے سیریز جیتنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ اب کی بار قومی ٹیم سنبھل چکی ہے اور دنیا بھر میں یہ ایک سخت حریف ثابت ہوگی، لیکن دورہ نیوزی لینڈ میں 5 ایک روزہ میچوں میں وائٹ واش نے اس خیال کو چکنا چور کرتے ہوئے ایک بار پھر بیٹنگ لائن کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی۔

لگاتار فتوحات کے بعد اس بدترین ناکامی کی توقع شاید کسی کو بھی نہیں تھی لیکن ایک دہائی سے قومی بیٹنگ لائن پر بوجھ بنے رہنے والے کھلاڑیوں پر تکیہ کرنے کا نتیجہ اور کیا برآمد ہوسکتا تھا؟

نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والی ایک روزہ سیریز میں سوائے ایک میچ کے کسی بھی موقع پر مڈل آرڈر اپنا کردار ادا نہ کرسکا اور اکثر میچوں میں شاداب خان اور دیگر ٹیل اینڈرز نے نچلے نمبروں پر آکر قومی ٹیم کو معقول مجموعے تک رسائی دلائی۔

ایونٹ میں جہاں کین ولیمسن، مارٹن گپٹل اور روس ٹیلر رنز کے انبار لگاتے رہے وہیں ہماری ٹیم وکٹیں بچانے کی تگ و دو میں ہی مصروف رہی اور جب تک کھلاڑی کنڈیشنز کو سمجھ پاتے، سیریز ناصرف ہاتھ سے نکل چکی تھی بلکہ کلین سوئپ جیسا بدنما داغ بھی پاکستانی ٹیم کے دامن پر لگ چکا تھا۔

اس سیریز میں ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستانی بیٹنگ لائن کے مستقبل اور ورلڈ کپ 2019ء کی تیاریوں پر سوال اٹھنے لگے، لیکن پھر تسلی ہوئی کہ شاید پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سے ہمیں چند ایسے بلے باز ضرور مل جائیں گے جو ماضی میں چلے ہوئے کارتوسوں سے ہمیں نجاد دلا سکیں، مگر افسوس کہ یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

پاکستان سپر لیگ کا تیسرا ایڈیشن سنسنی خیز مقابلوں اور یادگار لمحات کے بعد اختتام پذیر ہوچکا ہے جہاں اس ایونٹ کو شاندار باؤلنگ کے حوالے سے ایک بہترین ایونٹ قرار دیا جا رہا ہے تو وہیں بیٹنگ کے حوالے سے یہ ٹورنامنٹ پاکستان کو کوئی خاص ٹیلنٹ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔

ایونٹ کے تیسرے ایڈیشن میں ہمیں نوجوان باؤلرز شاہین آفریدی، عثمان شنواری، محمد عرفان جونئر سمیت دیگر باؤلرز کی جانب سے چند شاندار اسپیل دیکھنے کو ملے اور لیگ میں بہترین باؤلنگ نے غیر ملکی ماہرین کو بھی داد دینے پر مجبور کردیا اور انہوں نے اسے باؤلنگ کے اعتبار سے دنیا کی سب سے مشکل لیگ قرار دیا۔

تاہم جہاں ہمیں باؤلنگ میں چند بہترین ٹیلنٹ اور مستقبل کے اسٹارز دیکھنے کو ملے، وہیں بیٹنگ کا شعبہ پریشان کن حد تک قحط سالی کی عملی تصویر پیش کرتا نظر آتا ہے۔

بابر اعظم، شرجیل خان اور فخر زمان

پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں ہمیں بابر اعظم اور شرجیل خان کی شکل میں بہترین اوپنر ملا لیکن اگلے ہی ایڈیشن میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پاکستان کے اس جارح مزاج بلے باز کو نگل گیا اور شرجیل پابندی کا شکار ہوئے۔

دوسرے ایڈیشن میں فخر زمان ابھر کر سامنے آئے اور اپنی جارحانہ بیٹنگ کی بدولت پاکستان کو چیمپیئنز ٹرافی کا ٹائٹل جتواکر عالمی منظرنامے پر چھاگئے، لیکن تیسرے ایڈیشن کا اختتام ہوچکا ہے اور ہمیں کوئی بھی ایسا نوجوان بلے باز نہیں ملا جس کی کارکردگی دیکھ کر ہم مطمئن ہوسکیں کہ ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ میں قومی ٹیم کو کوئی سہارا مل گیا ہے۔

اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو صورتحال انتہائی گمبھیر نظر آتی ہے اور بابر اعظم اور فخر زمان کے سوا کوئی بھی نوجوان بلے باز زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست کا حصہ نظر نہیں آتا۔

پاکستان سپر لیگ میں سب سے کامیاب بلے باز نیوزی لینڈ کے ریٹائرڈ وکٹ کیپر بلے باز لیوک رونکی رہے جنہوں نے 5 نصف سنچریوں کی مدد سے 435 رنز بنائے اور سب سے اہم چیز 182.00 کا اسٹرائیک ریٹ ہے جو سرِفہرست بلے بازوں میں سب سے زیادہ ہے۔

اس فہرست میں دوسرے نمبر پر گزشتہ ایونٹ کے کامیاب ترین بلے باز کامران اکمل ہیں جنہوں نے ایک مرتبہ پھر بلے سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے 425 رنز بنائے ہیں اور ان کی عمدہ کارکردگی کی بدولت ہی پشاور زلمی فائنل تک پہنچنے میں کامیاب رہی لیکن فائنل میں آصف علی کے ڈراپ کیچ نے ان کی تمام تر محنت پر پانی پھیر دیا۔

کراچی کنگز کے بابر اعظم کی صلاحیتوں کے سب ہی معترف ہیں اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر خود کو پاکستان کا سب سے بہترین نوجوان بلے باز ثابت کرتے ہوئے 5 نصف سنچریوں کی مدد سے 402 رنز بنائے۔

فہرست میں چوتھا نمبر کراچی کنگز کے ہی ایک اور بلے باز جو ڈینلی کا ہے جنہوں نے 323 رنز بنائے جبکہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے شین واٹسن 319، محمد حفیظ 298 اور فخر زمان 277 رنز کے ساتھ دیگر نمایاں بلے باز رہے۔

لیکن بابر اعظم اور فخر زمان کے سوا کوئی بھی نوجوان بلے باز متاثر کن کھیل پیش کرنے میں ناکام رہا اور ڈومیسٹک سطح پر عمدہ کھیل پیش کرنے والے نوجوان بلے باز مواقع ملنے کے باوجود بھی متاثر نہ کرسکے۔

احمد شہزاد اور عمر اکمل

پاکستان کرکٹ کے 'ینگ اینڈ ٹیلنٹڈ' کھلاڑی احمد شہزاد اور خصوصاً عمر اکمل ایک مرتبہ پھر اپنے اندر پنہاں ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں ناکام رہے لیکن یہ دونوں بلے سے کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود خبروں میں رہنے کے فن کی بدولت ایک مرتبہ بازی مار گئے۔

پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن میں عمر اکمل 335 رنز بنا کر سب سے کامیاب بلے باز قرار پائے تھے لیکن پھر ایک کے بعد ایک مسئلے میں گھرنے کی انوکھی خصوصیت کے حامل بلے باز کا بلا مکمل طور پر خاموش ہوگیا۔

لیگ کے دوسرے سیزن میں عمر اکمل ناکام ہوئے لیکن ٹیم نے ان پر اعتماد برقرار رکھتے ہوئے تیسرے سیزن کے لیے بھی انہیں اسکواڈ کا حصہ بنائے رکھا لیکن بلے باز مینجمنٹ کی توقعات پر پورا اترنے میں مسلسسل ناکام رہے اور 5 میچوں میں 64 رنز کی 'بے مثال کارکردگی' کے بعد ٹیم نے انہیں بینچ پر بٹھانے میں ہی عافیت جانی۔

عمر اکمل ناصرف بلے سے کچھ کرنے میں ناکام رہے بلکہ ان کی لاہور قلندرز کے کپتان برینڈ میک کولم سے ناراضگی کی خبریں بھی سامنے آئیں جنہوں نے انہیں ایک پیچیدہ شخصیت کا حامل بلے باز قرار دیا اور ساتھ ساتھ لیگ میں ان کی مشکوک سرگرمیوں کی بازگشت بھی جاری رہی۔

احمد شہزاد کا معاملہ بھی عمر اکمل سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ گوکہ وہ قومی ٹیم میں واپس آنے میں کامیاب رہے لیکن ان کی ناکامیوں کی داستاں بھی کچھ مختلف نہیں کیونکہ وہ بھی لیگ کے 10 میچوں میں صرف 173 رنز ہی بناسکے جہاں ان کا سب سے زیادہ اسکور 38 رنز رہا۔

ان دونوں ہی کھلاڑیوں نے بھارتی ٹیم کے موجودہ کپتان کوہلی کے ساتھ ہی اپنے سفر کا آغاز کیا تھا لیکن جہاں آج کوہلی بلاشک و شبہ دنیا کے بہترین بلے باز اور کامیاب ترین ٹیموں میں سے ایک کے کپتان ہیں، وہیں ہمارے ان دونوں 'لاڈلے بچوں' کو ٹیمیں لینے تک سے گھبراتی ہیں۔

شعیب ملک اور محمد حفیظ

اب کچھ بات پاکستان کرکٹ کے سب سے تجربہ کار کھلاڑیوں شعیب ملک اور محمد حفیظ کی، خصوصاً حفیظ کی کیونکہ بغیر کارکردگی ٹیم میں ان کی مستقل موجودگی ہمیشہ ہی حیرانی کا سبب رہی ہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں کرتے، بلکہ چیمپئنز ٹرافی سے ذکر کو چھیرتے ہیں جہاں محمد حفیظ بُری طرح ناکام رہے لیکن ٹیم کی فتح نے اس ناکامی پر پردہ ڈال دیا مگر نیوزی لینڈ میں ملنے والی بدترین شکست نے یہ پردہ چاک کردیا، جس کے بعد اگرچہ وہ ٹی 20 اسکواڈ کا حصہ تھے مگر کپتان نے ان کو کھلانا ضروری نہیں سمجھا جس کا نتیجہ بھی اچھا نکلا اور قومی ٹیم نے ٹی 20 سیریز 1-2 سے جیت لی۔ پھر اس ناکامی کا سلسلہ وہاں بھی نہیں ٹوٹا بلکہ پی ایس ایل میں بھی حفیظ کچھ زیادہ خاص نہ کر سکے۔

شعیب ملک نے ان کی نسبت کچھ بہتر کھیل پیش کیا لیکن گزشتہ کچھ میچوں میں ان کی بھی کارکردگی گراوٹ کا شکار رہی اور دورہ نیوزی لینڈ کے دوران ٹیم میں مبینہ گروہ بندی میں بھی انہی دونوں کے نام لیے گئے۔

صہیب مقصود

صہیب مقصود نے بھی احمد شہزاد اور عمر اکمل کی طرح اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو ان کا مستقبل بھی انتہائی تابناک قرار دیا جانے لگا یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے ان کا موازنہ عظیم انضمام الحق سے کرنا شروع کردیا لیکن انجری اور فٹنس مسائل کے ساتھ ساتھ ہر گزرتے دن گرتی کارکردگی نے ان کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔

صہیب مقصود نے پشاور زلمی کے خلاف 85 رنز کی جارحانہ اننگز کھیل کر امیدوں کے کچھ چراغ روشن کیے لیکن اس کے بعد شائقین کرکٹ دوبارہ ایسی اننگز دیکھنے کی حسرت کرتے ہی رہ گئے اور وہ 10 میچوں میں کُل 204 رنز بنا ہی بنا سکے۔

عمر امین

عمر امین کا مسئلہ بھی آج تک سمجھ سے بالاتر ہے۔ فرسٹ کلاس اور ڈومیسٹک میں تسلسل سے عمدہ کارکردگی کے باوجود یہ بلے باز آج تک کسی بھی موقع پر بڑے اسٹیج پر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا پھر چاہے وہ پاکستان ٹیم ہو یا پاکستان سپر لیگ۔

خرم منظور اور افتخار احمد

خرم منظور اور افتخار احمد کے نام جوڑ لیے جائیں تو یہ فہرست اور طویل ہوجاتی ہے لیکن افتخار احمد کے ساتھ واحد بدقسمتی یہ رہی کہ پی ایس ایل کے اس ایڈیشن میں انہیں زیادہ کارکردگی دکھانے کا موقع نہیں مل سکا۔

حسین طلعت

اگر نوجوان کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو اسلام آباد یونائیٹڈ کے حسین طلعت کو نسبتاً بہتر قرار دیا جاسکتا ہے جنہوں نے ایونٹ میں چند اچھی اور فتح گر اننگز کھیلیں لیکن انہیں اس لیے بھی زیادہ کھل کر کارکردگی دکھانے کا موقع نہ مل سکا کیونکہ اکثر مواقع پر ٹیم کے اوپنرز لیوک رونکی اور جین پال ڈومینی نے بہترین بیٹنگ کرکے میچ کو ٹیم کی جھولی میں ڈال دیا اور نوجوانوں کو زیادہ رنز بنانے کا موقع نہ مل سکا۔

صاحبزادہ فرحان

تاہم ایونٹ میں سب سے زیادہ مایوس نوجوان بلے باز صاحبزادہ فرحان نے کیا جن سے رواں ایڈیشن میں سب کو ہی بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن وہ کچھ خاص کرنے میں ناکام رہے۔

فائنل میں ان کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنی اننگز کو آخر تک لے کر جاتے اور ٹیم کو فتح سے ہمکنار کراتے لیکن ایک غیر ضروری شاٹ نے جہاں ان کے لیے مشکلات کھڑی کیں وہیں یہ بھی ثابت کردیا کہ انہیں ابھی قومی ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے وقت درکار ہے۔

آصف علی

ٹورنامنٹ میں بلے بازی میں سب سے بڑی دریافت آصف علی کو قرار دیا جاسکتا ہے جن کے بڑے بڑے چھکوں نے ملکی اور غیرملکی ماہرین کرکٹ اور سابق کرکٹرز کو یکساں متاثر کیا، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ حسین طلعت کے ہمراہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی20 سیریز کے لیے قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔

تاہم مجموعی طور پر ہمیں کوئی ایسا بلے باز نہیں مل سکا جسے ہم پاکستان کرکٹ کا مستقبل قرار دے سکیں جبکہ ساتھ ساتھ انتہائی اہم سوال بھی ہم سب کے لیے چھوڑ گیا کہ کیا ٹیلنٹ کی پرکھ اور قومی ٹیم میں جگہ بنانے کا واحد ذریعہ اب پاکستان سپر لیگ ہی ہے؟

بہتر کیا؟ پاکستان سپر لیگ یا قائدِاعظم ٹرافی؟

پی ایس ایل سے قبل پاکستان میں کرکٹ کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کو تصور کیا جاتا تھا اور برسوں سے یہ ٹورنامنٹ پاکستان کرکٹ کو بہترین کھلاڑی فراہم کرتا رہا ہے لیکن پاکستان سپر لیگ کے آنے کے بعد سے یہ دیکھا گیا ہے کہ قومی ٹیم میں شمولیت کی واحد سیڑھی یہ ٹی20 ٹورنامنٹ بن گیا ہے۔

سعد علی، افتخار احمد، محمد سعد اور فواد عالم

سعد علی، افتخار احمد، محمد سعد، فواد عالم نے قائد اعظم ٹرافی میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا خصوصاً فواد عالم تو عرصے سے ڈومیسٹک میں کارکردگی دکھاتے آ رہے ہیں اور ان کا ڈومیسٹک ریکارڈ دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین کھلاڑیوں کا ہم پلہ ہے لیکن اس کے باوجود قومی ٹیم میں ان کی عدم شمولیت ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

سعد علی سمیت قائد اعظم ٹرافی میں رنز کے ڈھیر لگانے والے بلے بازوں کی قومی ٹیم میں شمولیت کی بات تو درکنار، کئی لوگ ان کے نام تک سے واقف نہیں اور نہ ہی ان کی ٹیم میں شمولیت کی بات کی جاتی ہے۔

مانا کہ ٹی20 کرکٹ کا اپنا ایک لطف اور مزہ ہے اور اس میں کارکردگی دکھانے والے بھی قومی ٹیم میں جگہ پانے کے حقدار ہیں لیکن کیا یہ ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکتے ہیں؟

اگر حقیقت پسندی سے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز اور نیوزی لینڈ سے ون ڈے سیریز کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں جواب ’ناں‘ میں ہی ملے گا اور خصوصاً نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ جہاں اکثر مواقعوں پر ہمیں پورے اوورز کھیلنے کے ہی لالے پڑگئے تھے۔

صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان سپر لیگ سے قبل ایک ریجنل ون ڈے کپ کھیلا گیا اور اس میں بھی شان مسعود، افتخار احمد سمیت متعدد کھلاڑیوں نے رنز کے ڈھیر لگائے لیکن نتیجہ جوں کا توں نظر آتا ہے۔

اس لیے ضرورت تو یہی ہے کہ جہاں ہم پاکستان سپر لیگ میں سامنے آنے والے نوجوانوں کو موقع دیں وہیں پاکستان میں کھیلی جانے والی ڈومیسٹک کرکٹ پر بھی نظر رکھیں جہاں مستقل بنیادوں پر نوجوان اچھا کھیل پیش کررہے ہیں۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے تب تک ہمیں شعیب ملک، احمد شہزاد، عمر اکمل اور محمد حفیظ جیسے چلے ہوئے کارتوسوں پر تکیہ کرنا پڑے گا، اور جب تک ہم ایسا کرتے رہیں گے تب تک قومی ٹیم کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار رہے گا۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں سلیکٹرز نے حفیظ کو ڈراپ کرکے ایک اچھا اقدام اٹھایا ہے اور کامران اکمل کو نہ لینے کا فیصلہ بھی درست ہے کیونکہ واقعی مکی آرتھر کا یہ کہنا غلط نہیں کہ کامران اکمل فیلڈنگ کہاں کریں گے؟

لہٰذا اب وقت آچکا ہے کہ سخت اقدامات کرتے ہوئے ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز کے لیے بھی اُن کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے جو سالوں سے ڈومیسٹک سطح پر رنز کے انبار لگا رہے ہیں ورنہ شاید ہم پاکستان سپر لیگ کو تو برانڈ بنالیں لیکن ایسا کرنے سے ہمارا اصل برانڈ 'پاکستان کرکٹ' بتدریج دم توڑ جائے گا۔


اسامہ افتخار ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔