دارا شِکُوہ، آگرہ کے محلات سے سندھ کے ویرانوں تک

دارا شِکُوہ، آگرہ کے محلات سے سندھ کے ویرانوں تک

ابوبکر شیخ

تاج محل کے لیے یہ مشہور ہے کہ وہ انتہائی نازک، نفیس اور خوبصورت بنا ہوا ہے، لوگ جب اسے اندر سے دیکھنے کے لیے داخل ہوتے ہیں تو ایک فرحت اور سُکون کے احساس کا سحر ان کو جکڑ لیتا ہے اور وہ ممتاز محل اور شاہ جہاں کے مُتعلق سوچ کر ایک یوٹوپیائی دُنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر وہ اُن گزرے دنوں کے تصور کو اَپنی ناکام تمناؤں کی مٹی میں گوندھ کر عجیب و غریب اور رنگین دُنیا کے خیالات ذہن کی تختی پر بُننا شروع کردیتے ہیں۔

ہو سکتا ہے اس خیالی دُنیا میں آپ نے کچھ تَصور ایسے بھی بُن دیے ہوں جو حقیقت کے قریب تر ہوں۔ مگر جہاں تک میری عقل کی دوڑ ہے تو وہ تو یہ بتاتی ہے کہ ان بادشاہوں کو سُکون تب ہی نصیب ہوا ہوگا جب اُن کے سانس کی ڈوری ٹوٹی ہوگی، کیوں کہ وہ اگر ایک ماہ سکون سے گزارتے تو اُس کے بدلے پانچ برس تک اُن کے ذہن میں اتنی خرافات اور پریشانیوں نے جنم لیا ہوگا کہ انسان آدھا پاگل ہوجائے۔

نورجہاں کے بعد ممتاز محل کو مغلیہ سلطنت کی بااختیار ملکہ مانا جاتا ہے۔ شاہ جہاں کو ویسے تو اوروں سے بھی محبت تھی لیکن ارجمند بانو بیگم سے بہت زیادہ محبت تھی۔ دونوں کی عمر میں بس ایک برس کا فرق تھا۔ ارجمند بانو 1593ء کے گرم موسم میں پیدا ہوئی اور وفات بھی 1631ء کے جون کے مہینے میں ہوئی۔

شاہ جہاں 1592ء جاڑے کے موسم میں لاہور میں پیدا ہوا۔ اپنی 74 برس کی زندگی میں سے 35 برس اس نے ممتاز محل کے بغیر بتائے اور 1666ء کے جاڑے کے ٹھنڈے دنوں میں یہ جہاں چھوڑا۔ ان دونوں کی محبت کا کمال یہ ہی رہا کہ تاج محل دے گئے۔ شاہ جہاں نے جتنا تاج محل کے لیے سوچا اُتنا اگر اپنی بگڑی ہوئی اولاد کے متعلق سوچتا تو شاید اُس زمانے کا نقشہ ہی اور ہوتا۔ تاریخ کے صفحات میں ان کے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے اور بڑی فراوانی سے ملتا ہے۔

20 مارچ 1615ء کو اجمیر میں پیدا ہونے والا ’دارا شِکوُہ‘ لمبی عمر نہ پا سکا۔ وہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور اس نے طبیعت بھی اپنے بھائیوں سے کچھ مُختلف پائی تھی۔

دارا شکوہ۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین۔
دارا شکوہ۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین۔

اورنگزیب اپنے درباریوں کے ساتھ۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین۔
اورنگزیب اپنے درباریوں کے ساتھ۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین۔

اس کے نام کا پہلا حصہ تو حقیقت کے قریب ہونا ہی تھا البتہ دوسرے حصے نے اُس کی شخصیت پر کوئی خاص اثر نہیں چھوڑا۔ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب المیہءِ تاریخ میں لکھتے ہیں: ’’دارا شکوہ صوفی منش اور آزاد خیال انسان تھا، وہ شہزادے سے زیادہ عالم تھا۔ صوفی خیالات اور مسلک کے لحاظ سے وہ قادری سلسلے سے بیعت تھا جس نے ہندوستان میں ہندو مسلم اشتراک پر زور دیا۔ ملاّ شاہ قادر، جن سے دارا شکوہ بیعت تھا، کے آزادانہ خیالات کی بناء پر علماء نے ان کے قتل کا فتویٰ دے دیا تھا، لیکن دارا شکوہ کی وجہ سے وہ بچ گئے۔ دارا کو سرمد سے بھی بڑا لگاؤ تھا وہ بھی مذہبی تفرقات سے بلند ہوکر سوچتے تھے۔"

اب یہ دوسری بات ہے کہ، سرمد کو جن ٹھٹھہ کی گلیوں سے دیوانگی ملی، دارا نے اُسی شہر کو جلا دینے کا حُکم دیا تھا۔ اس زمانے میں وحدت الوجود کے خیالات تقویت پا چکے تھے، دونوں طرف سے لوگ مشترکہ مذہبی بنیادوں کی تلاش میں تھے۔ دارا شکوہ، ملا شاہ، سرمد اور محسن فانی (’دبستان مذاہب‘ کا مصنف) وہ آزاد خیال علماء تھے، جنہوں نے برصغیر میں مذہبی آزاد خیالی اور رواداری کی تحریک کو بلندی تک پہنچایا۔ دارا اس کے علاوہ ’سفینۃ الاولیا‘، ’سکینۃ الاولیاء‘، ’رسالہ حق نما‘، ’مکالمۂ بابا لال و شکوہ‘، ’مجمع البحرین‘، ’حسنات العارفین‘ کا مصنف بھی تھا۔

یہ وہ منظرنامہ ہے جو سرسری طور پر دارا شکوہ کے تعارف کے حوالے سے ہمیں ملتا ہے۔ مگر ایک اور ذاتی زندگی کی دنیا ہے جو خاص کر مغل بادشاہوں کے حوالے سے انتہائی اہم تھی اور وہاں مثبت کم اور منفی سوچوں اور عملوں کے جنگل کچھ زیادہ بستے تھے۔ وہاں رشتوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ کا قانون آپ کو اُن کے محلوں میں حقیقی طور پر نظر آتا ہے۔ بالکل اسی طرح دارا شکوہ کتنا ہی سادہ اور مثبت سوچ رکھنے والا انسان تھا مگر تھا تو ’دارا‘ ہی نا۔ تو اس کی بھی ذاتی زندگی تھی۔

ماں تو اُسے 16 برس کی عمر میں یہ جہان چھوڑ کر چلی گئیں۔ ماں کی جگہ بڑی بہن ’جہاں آراء بیگم‘ (2 اپریل 1614ء ۔ 16 ستمبر 1681ء) نے لی۔ باقی ایک چھوٹی بہن روشن آرا اور تین بھائی، سلطان شجاع، اورنگزیب اور مراد بخش تھے، جبکہ باپ شاہ جہاں تھا۔

دارا کی اس ذاتی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ، اس پر جو بھی حالات کے موسم آئے وہ شدت کے ساتھ آئے۔ خوشیاں آئیں تو ایسے آئیں جیسے گھنگور گھٹائیں آتی ہیں۔ علم اور سادگی آئی تو ایسے جیسے بہار کی موسم میں بے رنگ زمین پر چہارسو ہریالی آتی ہے۔ اور جب دُکھ آئے تو زندگی ہرے بھرے باغ میں سے تبدیل ہوکر ریگزار بن گئی جہاں ٹھنڈی چھاؤں کے درخت اُگتے ہی نہیں۔

کہتے ہیں کہ ویرانوں اور ریگزاروں کے نصیبوں میں چھاؤں کا سُکھ نہیں ہوتا۔ وہاں تپتے دنوں میں فقط بگولے اُٹھتے ہیں جن پر چلنے سے پاؤں میں آبلے پڑتے ہیں کہ آئی کو کون ٹال سکتا ہے۔

’’آپ دارا کے لیے اتنے پریشان کیوں ہیں؟ آخر اُس کے متعلق اتنا کیوں جاننا چاہتے ہیں؟‘‘

یہ سوال مجھ سے میرے ایک دوست نے کیا تھا، جب میں اس آرٹیکل کے لیے کچھ ناپید کتابوں کو ڈھونڈنے میں اپنے دوستوں کو پریشان کر رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو کوئی تفصیلی جواب نہیں دیا۔ بس اُسے فقط اتنا کہا کہ: ’’وہ اگر عام شہزادہ ہوتا تو شاید میں اتنی تگ و دو نہیں کرتا مگر وہ عام سے تھوڑا خاص تھا اس لیے مجھے اچھا لگے گا کہ اُس کے لیے میں کچھ تحریر کروں۔‘‘

دارا شکوہ کی والدہ، ممتاز محل— پینٹنگ پبلک ڈومین۔
دارا شکوہ کی والدہ، ممتاز محل— پینٹنگ پبلک ڈومین۔

شاہ جہاں، دارا شکوہ کے والد۔— پینٹنگ پبلک ڈومین۔
شاہ جہاں، دارا شکوہ کے والد۔— پینٹنگ پبلک ڈومین۔

دارا کے مُتعلق بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے، مثبت بھی اور منفی بھی۔ مگر سرسری طور پر وہ ایک اچھا بندہ تھا۔ دوسرے بیٹوں سے دارا کو اپنی ماں اور باپ کی طرف سے زیادہ پیار ملا۔ ہو سکتا ہے یہ ہی وہ مرکزی عمل ہو جس نے دارا کی شخصیت میں معصومیت کی ہریالی بو دی تھی۔ اور ہر ایک پر یقین کرنے کی بیوقوفی کی کلیاں اُس کی دل میں ہر وقت کھلنے کو تیار ہوتی تھیں۔ اور جب چاہتا جہاں چاہتا چلا جاتا اور اُس کے ہر حکم پر عمل کے گھوڑے زِین کسے تیار ہوتے۔ اس کی وجہ سے چھوٹے بھائیوں میں خود کو کم اہمیت ملنے کی وجہ سے ان کے اندر میں جَلن کی زقوم کی جھاڑی اُگ پڑی۔ کہتے ہیں کہ یہ اگر ایک بار جڑ پکڑ لے تو پھر آپ کے ساتھ قبر میں ہی جاکر سُوکھتی ہے۔ یہاں بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔

دسمبر 1629ء میں شاہ جہاں نے آگرہ چھوڑا اس لیے کہ خان جہاں لودھی کو دکن بھاگ جانے پر سزا دینی تھی، رتنبھور اور مالوہ سے ہوتا ہوا وہ یکم اپریل 1630ء کو برہان پور پہنچا اور یہاں دو برس تک قیام کیا، یہاں شہنشاہ کی بیٹی ’حُسن آرا بیگم‘ کی ولادت ہوئی۔ یہ وہ شب و روز تھے جب شاہ جہاں کے دن بڑے سُکون اور خوشحالی میں گزر رہے تھے۔ خان جہاں کا تعاقب سرگرمی سے کیا جا رہا تھا۔ بالآخر وہ سندھ میں گرفتار ہوا اور موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اس کامیابی پَر دربار میں جشن منایا گیا اور دعوتوں کا انتظام ہوا۔ مگر وقت کی تیز آنکھوں نے یہ دیکھا کہ ابھی ان دعوتوں کا اختتام بھی نہیں ہوا تھا کہ، بروز چہار شنبہ (بدھ) 18 جون 1631ء کو ممتازمحل کو ایک بچی پیدا ہوئی اور چوں کہ وہ وضع حمل کی تکلیف برداشت نہ کر سکی اور دنیا کو الوداع کہا۔

27 مارچ 1648ء کو شاہ جہاں نے آگرہ کو الوداع کہا۔ شاہ جہاں کے تولے جانے کی قمری تاریخ 8 اپریل تھی تو اس کے پیش نظر نئے محل کی رسم افتتاح بھی اسی دن ادا کی گئی۔ آگرہ جو سکندر لودھی کے عہد سے سلطنت کا دارالسلطنت بنا تھا، مگر اب نیا دارالسلطنت دہلی تھا۔ کہتے ہیں کہ، دہلی کبھی کسی سلطنت کو راس نہیں آئی، کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ، مغلیہ سلطنت کا زوال کے طرف یہ پہلا قدم تھا۔

شاہ جہاں نے ہندوستان کی چار بڑی ریاستوں پر اپنے چاروں بیٹوں کو حاکم کرکے اختیارات ان کو سونپ دیے مگر زیادہ محبتیں دارا شکوہ کی طرف تھیں۔ دارا کی بڑی بہن جہاں آرا بیگم جو اپنے باپ کے بہت نزدیک تھی وہ بھی دارا کو پسند کرتی تھیں کیوں کہ یہ دونوں بہن بھائی صوفی خیالات رکھتے تھے۔ بیماری اور قید کے دوران وہ ہی اپنے باپ کے ساتھ رہیں۔ سورت بندرگاہ کی آمدنی جہاں آرا بیگم کو ملتی تھی جو اورنگزیب کو ’سُفید سانپ‘ کہہ کر بُلاتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ سلطنت کی گدی پر ’دارا شکوہ‘ بیٹھے۔

اس حوالے سے دارا کے لیے ماحول اور حالات انتہائی سازگار تھے۔ دارا کو الہٰ آباد، پنجاب اور ملتان جیسے زرخیز صوبوں پر بحیثیت نائب سلطان بنا دیا گیا۔ اس کو عدیم المثال اعزاز 40 ہزار سوار کا حاصل تھا جبکہ تخت کے قریب ایک طلائی کرسی پر جلوہ افروز ہونے کا شرف بھی نصیب تھا۔ عہدے و اعزاز کا ہر خواہشمند شہنشاہ کے لیے اس کے توسط کا حاجت مند ہوتا۔ ہر طرح کے لوگوں کو احساس دلایا گیا تھا کہ وہ مستقبل کا بادشاہ ہے اور شاہ جہاں کے بعد اس کو مالکِ تخت و تاج بنانے کی سہولیت مہیا کی گئی ہے۔

شاہ جہاں کے دیگر بیٹے اورنگزیب، مراد بخش، اور شاہ شجاع— پینٹنگ پبلک ڈومین
شاہ جہاں کے دیگر بیٹے اورنگزیب، مراد بخش، اور شاہ شجاع— پینٹنگ پبلک ڈومین

دارا شکوہ ملاّ شاہ قادر اور حضرت میاں میر کے ساتھ۔— پینٹنگ پبلک ڈومین
دارا شکوہ ملاّ شاہ قادر اور حضرت میاں میر کے ساتھ۔— پینٹنگ پبلک ڈومین

برنیئر یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’اگرچہ دارا مذہبی اُمور میں وسیع الخیال تھا، فلسفہ وحدت الوجود کا معتقد تھا لیکن متلون مزاج، مغرُور، چڑچڑا اور بے عمل تھا۔ وہ خوشامد پسند تھا۔ دربار کی زندگی اور شہنشاہ کی بے پناہ محبت نے اس کو برباد کرکے رکھ دیا اور تسخیر قلوب کے فن سے بیگانہ کردیا، اس لیے مزاج و ترتیب کے لحاظ سے وہ اس کا اہل نہیں تھا کہ کسی سخت آزمائش کا مقابلہ کر سکے۔‘‘

یہ سارے تجزیے ایک طرف مگر حقیقت یہ تھی کہ، باپ، بیٹے اور بہن کا پلڑا بھاری تھا۔ اور اس بھاری پلڑے نے تینوں بھائیوں، شجاع، اورنگزیب، مراد اور چھوٹی بہن روشن آرا کو ایک کر دیا۔ روشن آرا کی مخالفت کی خاص وجہ یہ تھی کہ، وہ اپنی بڑی بہن جہاں آرا بیگم سے کم خوبصورت تھی، اور محل میں اہمیت بڑی بہن کو حاصل تھی، اس لیے وہ بڑی بہن اور بھائی دارا کی شدید ترین مخالف تھی اور چاہتی تھی کہ تخت و تاج اورنگزیب کو ملے۔

ایسا ہی ہوا مگر نفرت اس حد تک بڑھ گئی کہ آخری ایام میں بھی وہ دارا شکوہ کو جلد سے جلد قتل کروانا چاہتی تھی۔ اب یہ دوسری بات تھی کہ جس اور عالمگیر کے لیے اُس نے یہ سب کچھ کیا اُسی بھائی نے ہنستے کھیلتے اپنی بہن کو زہر دے کر مار ڈالا۔

1653ء میں شاہ جہاں پر بھرے دربار میں جسروپ مراٹھیا نے قاتلانہ حملہ کیا جس سے شہنشاہ بال بال بچا۔ اسی برس مارچ میں دارا کے بیٹے اکبر سلیمان شکوہ کی شادی راؤ امراؤ سنگھ کی بیٹی سے ہوئی۔ 1656ء میں دسمبر کے مہینے میں دہلی میں وبا پڑی تو شاہ جہاں نے فیض آباد میں رہنا پسند کیا۔ اپنے اور دارا کے لیے یہاں خوبصورت محل بنوائے اور ایک شاندار دربار بھی رکھا تھا۔ یہ دربار شاید آخری شاندار دربار تھا کیوں کہ اس کے بعد فطرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کیوں کہ کچھ برسوں میں خاندان دو حصوں میں بٹ گیا تھا، اور کہتے ہیں کہ جب ایک آنگن کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو پھر وہاں نفرتوں کے سُوکھے کیکروں کے جنگل اُگتے ہیں، اور ان سوکھے جنگلوں کو فقط ایک معمولی سے چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

شاہ جہاں نے اس چنگاری کو روکنے کی کوشش تو بڑی کی مگر ناکام رہا اور آخر وہ وقت آں پہنچا۔ اپریل 1657ء میں شاہ جہاں دہلی واپس لوٹ آیا اور 6 ستمبر بروز جمعرات وہ بیمار پڑ گیا۔ اس کو پیشاب میں تکلیف اور قبض کی شدید شکایت ہوگئی۔ بادشاہ بیماری کے بستر پر لیٹا تو بیٹوں نے فوجیں اکٹھی کرنی شروع کردیں۔ ہر ایک کو ہندوستان کا بادشاہ بننا تھا۔ اگر مرکز میں چار بادشاہوں کے بیٹھنے کا کوئی قانون ہوتا تو تصویر دوسری ہوتی، مگر ایسا کوئی قانون تھا نہیں اس لیے نفرتوں کے سوکھے جنگل نے آگ پکڑ ہی لی۔ ویسے بھی تخت و تاج کی طاقت اور غُرور کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس لذت میں وہ اکیلا ہو چاہے اُس کے لیے اپنے لخت جگر کی قربانی بھی دینی پڑے۔

روشن آراء بیگم— پینٹنگ پبلک ڈومین
روشن آراء بیگم— پینٹنگ پبلک ڈومین

جہاں آراء بیگم— پینٹنگ پبلک ڈومین
جہاں آراء بیگم— پینٹنگ پبلک ڈومین

چلیے محلات کی چھاؤں میں بُنتی سازشوں اور عشق کے داستانوں کو چھوڑ کر 29 مئی 1658ء بدھ کے دن کی روداد بیان کرتے ہیں، جب عالمگیر سے دارا شِکُوہ نے شکست کھائی۔ اس شکست کی بھی عجیب اور حیرت انگیز کہانی ہے۔ جن کے پہروں میں دھوکے کا زہر بھرا ہوا ہے۔ اتفاق سے ہمارے پاس اس حوالے سے دو مصنفوں نکولاؤ مانوچی اور ڈاکٹر فرانسس برنیئر کی کتابیں موجود ہیں، اور اہم اس لیے ہیں کی اس زمانے کے ہوتے ہوئے تاریخی حادثات اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، اس لیے یہ اہم کتابیں ہماری ماخذ ہیں۔

برنیئر لکھتے ہیں: "اورنگزیب سے لڑنے کے لیے دارا شکوہ کے پاس فوج تو بہت تھی، مگر اُس کی طبیعت کی وجہ سے کُچھ بہتر ہونے کی اُمید نہیں تھی۔ بلکہ دارا شکوہ کے خیر خواہوں نے بھی جنگ نہ کرنے کی صلاح دی۔ مگر دارا شکوہ نے کسی کی نہیں مانی۔ دارا شکوہ کا یہ خیال بے شک صحیح تھا کہ اورنگزیب کے مارے یا پکڑے جانے کے بغیر فتح ناقص ہے۔ جنگ کا میدان دارا شکوہ کے فائدے میں تھا، مگر خلیل اللہ خان کے دغا دینے سے بازی بگڑ گئی اور یہ دغابازی ایسی عجیب تھی کہ ایک آن کی آن دارا شکوہ کی دائمی بربادی کا سبب ہوگئی۔

یہ شخص دائیں پرے کا سردار تھا جس میں تیس ہزار مُغل تھے اور ایسی اچھی فوج تھی کہ اورنگزیب کی تمام سپاہ کے شکست دینے کو صرف یہ ہی کافی تھی، مگر جبکہ دارا شکوہ بذات خود بائیں پرے کی فوج کو بڑی شجاعت اور کامیابی سے لڑا رہا تھا یہ مطلقاً اس کا شریک نہ ہوا اور بہانہ بنائے رکھا کہ ہماری فوج کے لیے تو یہ حکم ہے کہ، بطور کمک اپنی جگہ قائم رہے اور جب تک کوئی شدید ضرورت پیش نہ آئے ایک قدم آگے بڑھنے اور ایک تیر تک چلانے کا حُکم نہیں۔

مگر اصل میں اس طرح الگ تھلگ رہنا بے ایمانی اور دغابازی پر مُبنی تھا۔ وجہ یہ تھی کہ، اب سے چند سال پیشتر دارا شکوہ نے اس کی کُچھ بے عزتی کر ڈالی تھی اور اس کینہ کی آگ اس کے دل کو جلائے رکھتی تھی۔ پس اس نے خیال کیا کہ بدلہ لینے کا اب وقت ہے۔ مگر دارا شکوہ کا وہ نقصان نہیں ہوا جو اُس نے سوچا تھا کیوں کہ دائیں پرے والے لوگوں کی مدد کے بغیر ہی وہ دشمن پر غالب آگیا تھا۔

مگر اس دغاباز نے ایک اور چال چلی، یعنی جبکہ دارا شکوہ مراد بخش کو دبانے کے لیے اپنی سپاہ کی امداد کو جا رہا تھا تو یہ مکار مع اپنے چند رفیقوں کے گھوڑا دوڑائے ہوئے آیا اور دُور سے پُکار کر کہا: 'مُبارک باد حضرت سلامت! الحمدللہ! الحمدللہ! حضور کو بخیر و سلامتی بادشاہی اور فتح مُبارک ہو! لیکن حضور یہ تو فرمائیں کہ ایسے خطرناک موقعے میں، جبکہ عماری کے سائبان سے کئی گولیاں اور تیر پار ہوچکے ہیں اتنے بڑے ہاتھی پر کیوں سوار ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان بیشمار تیروں اور گولیوں میں سے کوئی جسم مُقدس کو چھو جائے تو ہم لوگوں کا کہاں ٹھکانہ ہے۔ خدا کے واسطے جلد اُترئیے اور گھوڑے پر سوار ہو لیجیے۔ اور اب کیا رہ گیا ہے، صرف اتنی ہی بات باقی ہے کہ ان چند بھگوڑوں کا زیادہ تر چستی اور مستعدی سے تعاقب کیا جائے اور میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اب حضور ان کو اس قدر مہلت نہ دیں کہ بھاگ سکیں۔'

"اگر دارا شکوہ ہاتھی سے اُترنے کو نقصان سمجھتا اور یہ سوچتا کہ اس ہاتھی ہی کی بدولت آج میں کیسے کیسے کام کرسکا ہوں اور فوج میں میرے دکھائی دیتے رہنے سے کیسا کچھ فائدہ ہوا ہے تو اُس وقت تمام بادشاہت کا مالک ہوتا مگر زود اعتماد اور سادہ دل شہزادہ فریب میں آگیا۔ اور ہاتھی سے اُتر کر گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اُس کو شک ہوا، اور پوچھا کہ خلیل اللہ خان کہاں ہیں؟ مگر وہ اب کہاں تھا۔

سپاہ نے جب دیکھا کہ ہمارا مالک ہاتھی پر نہیں ہے تو فوراً اس کے مارے جانے کی افواہ اُڑی، اور تمام فوج اُس دھوکہ میں پڑ کر حواس باختہ ہوگئی۔ اور عام تہلکہ پڑگیا۔ اور سب کو اورنگزیب کے قہر و غضب کے اندیشے سے اپنی اپنی جان کی پڑ گئی اور تمام فوج تتر بتر ہوگئی۔ لمحوں کے کھیل میں ’غالب‘ مغلوب اور ’مغلوب‘ غالب ہوگیا۔ اور عجیب ماجرا ہے کہ، اورنگزیب نے فقط پاؤ گھنٹے ہاتھی پر سوار رہنے سے یہ نتیجہ پایا کہ تمام ہندوستان کا بادشاہ ہوگیا اور دارا وقت سے کچھ وقت ہاتھی سے پہلے اُترا گویا اوج سلطنت سے گر گیا۔"

خلیل اللہ خان سامو گڑھ کی جنگ کے دوران دارا شکوہ کو ہاتھی سے اترنے کا کہتے ہوئے۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
خلیل اللہ خان سامو گڑھ کی جنگ کے دوران دارا شکوہ کو ہاتھی سے اترنے کا کہتے ہوئے۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

دارا شکوہ جنگ کے بعد بکھر کے قلعے میں نکولاؤ منوچی کے ساتھ۔— پینٹنگ پبلک ڈومین
دارا شکوہ جنگ کے بعد بکھر کے قلعے میں نکولاؤ منوچی کے ساتھ۔— پینٹنگ پبلک ڈومین

یہ لڑائی آگرہ اور دھولپور کے بیچ میں سامو گڑھ (موجودہ فتح آباد، سامو گڑھ پر یہ نام اس اورنگزیبی فتح کے بعد پڑا) میں ہوئی جہاں دارا شکوہ کے 10 ہزار سپاہی میدان جنگ میں مارے گئے۔ اس شکست نے دارا شکوہ کو ایک ایسی کیفیت میں دھکیل دیا جہاں فقط مایوسیوں کی شامیں ہوتی ہیں اور ان شاموں کے آنگنوں میں اگربتیاں جلتی ہیں اور ان کے دھوئیں میں کچھ زیادہ صاف دکھائی بھی نہیں دیتا۔ گرمیوں کی ڈھلتی رات کی سیاہی میں ’دارا‘ نے بغیر کچھ بات کیے ہوئے اپنی بیگم، بیٹیوں اور اپنے فرزند سہ پہر شکوہ اور اپنے نزدیکی تین چار سو آدمیوں کے ساتھ آگرہ کو چھوڑا اور دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ دارا شکوہ کی اس ہار کے بعد اورنگزیب آگرہ آیا۔ اورنگزیب کے بیٹے محمد سلطان نے اپنے دادا کو 8 جون 1658ء میں ہفتے کی شب کو آگرہ کے قلعے میں نظربند کردیا۔

دارا دہلی، لاہور اور مُلتان سے ہوتا ہوا سندھ میں بکھر کے قلعے میں پہنچا۔ کہتے ہیں کہ دارا جب لاہور میں تھا تو اُس کو کابل جانے کی صلاح دی گئی تھی جو اُن حالات کے حوالے سے بہت مناسب تھی، مگر مشورے کے اُلٹ کرنا دارا شکوہ کی طبیعت میں تھا اس لیے سندھ آ نکلا۔ بکھر کے قلعے میں بہت سے پٹھان، پُرتگیز، انگریز، فرانسیسی اور جرمنوں کو توپ خانے میں نوکری پر رکھا گیا اور اس توپ خانہ کا انچارج نکولاؤ منوچی کو بنا دیا، جو دارا کا اچھا دوست بھی تھا۔

21 جون 1658ء بدھ کے دن دہلی سے باہر شالیمار باغ میں عالمگیر نے اپنی بادشاہی کا اعلان کیا، 5 جولائی، بدھ کے دن عالمگیر دہلی پہنچا اور 26 جولائی بروز جمعہ اس نے دہلی سے لاہور طرف کوچ کیا۔ مگر دارا کا پیچھا کرنے کے لیے اس نے خلیل اللہ خان کو پیچھے لگا دیا تھا۔ تاریخ کے صفحات تحریر کرتے ہیں کہ، دارا شکوہ کے تعاقب میں چلنے کے لیے مراد بخش اپنے بھائی اورنگزیب کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا اور اس کے ساتھ چل پڑا، اور راستے میں زیادہ شراب پینے کا بہانہ بنا کر مراد بخش کو ذلیل و خوار کر کے سلیم گڑھ میں قید کر دیا۔ عالمگیر، دارا کا پیچھا کرتا ملتان تک آیا، مگر دارا بہت آگے نکل گیا تھا اس لیے شیخ میر اور دلیر خان کو فوج دے کر دارا کے پیچھے جانے کا حُکم دیا اور خود پیر کے دن 30 ستمبر کو دہلی روانہ ہوا۔

یہ وہ دن تھے جب سعداللہ خان کو جسے شاہ جہاں تمام ممالک ایشیا میں ایک بڑا ہی قابل اور لائق وزیر سمجھتا تھا اور جس سے اس قدر اُلفت رکھتا تھا کہ، تمام دربار میں اُس کی محبت ضرب المثل ہوگئی تھی، دارا نے مروا ڈالا۔ معلوم نہیں وہ کیا جرم تھا جس کے سبب سے دارا شکوہ نے اسے واجب القتل تصور کیا، جس کی وجہ سے شاہ جہاں دارا سے سخت ناراض تھا۔

اس ناراضگی کے زمانے میں دارا شکوہ سہون سے ہوتا ہوا ٹھٹھہ آیا تھا اور بقول صاحب ’مقالات الشعراء‘ میر علی شیر قانع، دارا کو ٹھٹھہ پسند نہیں آیا، ایک دروازے سے داخل ہوا اور دوسرے سے نکل گیا اور جاتے جاتے اپنے مصاحب قاضی ابراہیم ٹھٹوی کو حُکم دیا کہ ’ٹھٹھہ کو جلا دو!‘ حکم کی بجا آوری کے لیے گھاٹ کے طرف کچھ جھگیوں کو آگ لگادی گئی، چنانچہ میر علی شیر قانع کے زمانے تک اس آگ کے نشانات قائم تھے اور اسے عُرف عام میں ’سوختہ گھاٹ‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

یہ وہ ہی ٹھٹھہ تھا مگر اب دارا نہ بادشاہ تھا اور نہ حُکم دینے کی حالت میں تھا، بلکہ یہ پریشانی کے وہ دن اور راتیں تھیں جب کچھ اچھا نہیں لگتا۔ جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں، اتوار کے دن 17 نومبر 1658ء کو دارا نے دریائے سندھ پار کیا اور بدین کی طرف چل پڑا۔ آٹھویں دن وہ بدین پہنچا، پھر بدین سے گُجرات جانے کے لیے اُس کو ’کچھ جو رن‘ کو پار کرنا پڑا۔ کیوں کہ موسم ٹھنڈا تھا تو زیادہ پریشانی نہیں اُٹھانی پڑی۔ کَچھ اور کاٹھیاواڑ سے ہوتا ہوا وہ احمد آباد پہنچا، جہاں کا صوبے دار اورنگزیب کا خسر ’شاہ نواز خان‘ تھا، جس نے دارا کے لیے شہر کے دروازے کھُلوادیے۔ اسی دوران اورنگزیب اپنے خون کے رشتوں کے گھنے پیڑوں کو کاٹنے میں مصروف رہا۔ اور الہٰ آباد میں سلطان شجاع اور اورنگزیب میں جنگ ہوئی، وہاں بھی جنگ کے میدان میں، دارا شکوہ والا منظر دہرایا گیا، یہاں بھی شجاع ہاتھی سے اُترا، گھوڑے پر سوار ہوا، اور جنگ ہار گیا۔

شاہ جہاں دارا شکوہ کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہتے ہوئے، 18 مئی 1658۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
شاہ جہاں دارا شکوہ کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہتے ہوئے، 18 مئی 1658۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

دارا شکوہ اپنی اہلیہ نادرہ بانو بیگم کو اپنی مصوری کے نمونے دکھاتے ہوئے۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
دارا شکوہ اپنی اہلیہ نادرہ بانو بیگم کو اپنی مصوری کے نمونے دکھاتے ہوئے۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

مجھے نہیں پتہ کہ دارا شکوہ کیسا آدمی ہوگا۔ ہم تو سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کے متعلق نہیں جان سکتے کہ وہ کیسے ہیں۔ تو 360 برس کی طویل دوری پر بیٹھے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر ہاں اتنا ضرور تھا کہ وہ، مغل شہزادوں جیسا بالکل بھی نہیں تھا اگر تھا بھی تو بہت کم رنگ چڑھ سکا اُس پر مغل شہزادگی کا، اس لیے ہر ایک کی بات پر یقین کر لیتا تھا۔ یہ ہی سبب تھا کہ وہ جسونت سنگھ کے کہنے پر 14 فروری 1659ء جمعے کے دن احمد آباد سے اجمیر جا پہنچا۔ سامنے اورنگزیب تھا۔ ایسے موقع پر جسونت سنگھ نے دغابازی کی۔ 12 مارچ 1659ء کو دونوں بھائیوں میں فیصلہ کُن جنگ کی ابتداء ہوئی اور 14 مارچ، جمعے کے دن دارا کی جھولی میں ایک اور شکست آ پڑی اور سارا لشکر برباد ہوگیا۔ جسونت کی دغابازی کی وجہ سے دارا احمد آباد اور اجمیر کے بیچ میں پھنس کر رہ گیا۔ گرمیوں کی ابتدا ہو چُکی تھی اور اجمیر سے احمد آباد تک کا سارا علاقہ جسونت سنگھ کے لوگوں کا تھا۔

دارا کی اس بے سر و سامانی کی کیفیت کے متعلق برنیئر لکھتے ہیں: آفت رسیدہ اور برباد شدہ دارا شکوہ کی جانبری صرف احمد آباد پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے میں منحصر تھی، اور وہ ایسے دُور دراز ملک میں سے گزرنے پر مجبور تھا جو تقریباً سب کا سب مُخالف راجاؤں کے قبضہ میں تھا اور ایسی بے سر و سامانی تھی کہ خیمہ تک پاس نہیں تھا اور زیادہ سے زیادہ 2 ہزار آدمی ہمراہ تھے۔ گرمی بہت سخت پڑتی تھی اور اس پر یہ ایک اور آفت تھی کہ ’کولی‘ لوگ رات دن پیچھا نہ چھوڑتے تھے۔ اس کے سپاہیوں کواس قدر لُوٹا اور قتل کیا گیا کہ صرف چند قدم پیچھے رہ جانا بھی نہایت خطرناک تھا۔ ان سب مشکلوں اور آفتوں سے بچ کر دارا شکوہ ایک ایسے مقام تک پہنچ گیا، جہاں سے احمد آباد فقط ایک منزل تھا۔ اور اسے یہ اُمید تھی کہ، کل احمد آباد میں داخل ہو جاؤں گا۔ مگر بدقسمت اور شکست خوردہ لوگوں کی اُمیدیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ دارا شکوہ نے احمد آباد میں قلعہ دار اور حاکم بنا کر جس کو پیچھے چھوڑا تھا، اُس نے بے وفائی کی۔ اورنگزیب کے دھمکانے سے وہ اپنے آقا سے پھر گیا، اور دارا شکوہ کو لکھ بھیجا کہ شہر کے قریب نہ آئے، دروازے بند اور لوگ مقابلے کے لیے مُسلح اور تیار ہیں۔

"اس وقت میں بھی تین دن سے دارا شکوہ کی ہمراہی میں تھا اور یہ ایک نہایت ہی عجیب و غریب اتفاق تھا کہ میں اُسے راستے میں مل گیا اور کسی طبیب کے ہمراہ نا ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے جبراً مُجھے لے لیا۔ احمد آباد کے حاکم کے کاغذ کے پہنچنے سے ایک دن پہلے کا ذکر ہے کہ دارا شکوہ نے مُجھ سے فرمایا کہ، مبادا تمہیں کولی مار ڈالیں اور اس لیے بہ اصرار مُجھ کو اُس کارواں سرا میں لے گیا، جہاں خود ٹھہرا ہوا تھا اور اُس کا یہ حال تھا کہ، خیمہ تک اُس کے پاس نہ تھا، اور اس کی بیگم اور عورتیں صرف ایک قنات کی آڑ میں تھیں۔ جس کی رسیاں میری سواری کی بہلی کے پہیوں سے جس میں، میں آرام کرتا تھا باندھی ہوئی تھیں۔ جو لوگ اس عمل سے واقف ہیں کہ ہندوستانی امراء اپنی مستورات کے پردے کے معاملے میں کس قدر سختی کرتے ہیں، وہ میرے اس بیان پر اعتبار نہ کریں گے۔ مگر میں نے یہ واقعہ بطور ثبوت اس دردناک حالت کے لکھا ہے جس میں یہ شہزادہ اُس وقت مُبتلا تھا۔"

برنیئر ایک ڈاکٹر تھے۔ اُنہیں ضرور خبر ہوگی کہ، نادرہ بانو بیگم جو دارا شکوہ کی بیگم تھیں وہ تپ دق کی وجہ سے بیمار تھیں، اور اس دھوپ، مٹی، بے چارگی اور بے بسی نے اُن کی صحت کو اور بگاڑ دیا تھا۔ نادرہ بانو بیگم جب آگرہ چھوڑ رہی تھیں تو اُن کی چَھٹی حس نے اُنہیں ضرور بتایا ہوگا کہ وہ پھر کبھی اُس آگرہ کو نہیں دیکھ سکیں گی۔ جہاں 1633 کے جاڑوں کے موسم میں اُن کی شادی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ، تولے جانے کی 41 ویں شمسی رسم ادا کرنے کے بعد، شاہ جہاں نے دارا شکوہ کی شادی رچانے کی تیاری کا حکم دیا۔

نادرہ بانو بیگم کی دارا شکوہ سے شادی 1633ء میں آگرہ میں ہوئی۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
نادرہ بانو بیگم کی دارا شکوہ سے شادی 1633ء میں آگرہ میں ہوئی۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

ڈاکٹر فرانسس برنیئر دارا شکوہ کی دربدری کے دنوں میں نادرہ بانو کا علاج کرتے ہوئے۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
ڈاکٹر فرانسس برنیئر دارا شکوہ کی دربدری کے دنوں میں نادرہ بانو کا علاج کرتے ہوئے۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

ممتاز محل کی زندگی ہی میں شہزادہ پرویز کی لڑکی نادرہ بانو بیگم سے اس کی نسبت طے ہو چُکی تھی۔ جنوری 1633 میں جشن شادی کی سرگرمی شروع ہوئی، شادی کے تحفوں کی ایک نمائش 25 جنوری کو دربار عام میں ہوئی، یکم فروری کو رسم حنا ہوئی۔ پان، الائچی، خشک میوہ جات حاضرین دربار میں تقسیم ہوئے اور شام کو آتش بازی کے ایک دلکش مظاہرے نے جمنا کے کنارے آگرہ کو سامان فرحت و نشاط فراہم کیا۔

اس شادی کی تقریب میں 30 لاکھ روپے خرچ ہوئے، جس میں 6 لاکھ شاہی خزانے کے تھے، 16 لاکھ جہاں آراء بیگم نے خرچ کیے، اور بقیہ دلہن کی ماں نے خرچ کیے تھے۔ مگر ان یادگار لمحوں کو گزرے ہوئے 26 بہاریں گزر چکی تھیں۔ ان 26 برسوں کے آخری دو برسوں نے زندگی کو کپاس کی طرح دُھن کر رکھ دیا تھا اور اپنے میاں کے ساتھ نادرہ بانو بیگم کی نصیبوں کی جھولی میں بے بسی اور لاچاری کے کھوٹے سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا کیوں کہ اصل بادشاہ وقت جو ٹھہرا۔

مسئلہ اگر پیسوں کا ہوتا تو وہ حل بھی ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ کچھ خچر تھے جن پر اشرفیاں لدی ہوئی تھیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ یہ 1633ء اور آگرہ نہیں تھا۔ یہ 1659ء اور کَچھ کے ویرانے تھے اور ساتھ میں نفرت اور دشمنی کی تیز دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، ساتھ میں ویرانوں کی مٹی بھی اُڑتی تھی۔ یہ راستے جن سے سفر کرتا دارا آرہا تھا، وہ ایسے ویرانے ہیں جہاں گرم دنوں میں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور مٹی کے بگولے اُٹھتے ہیں۔

دارا شکوہ کی شادی کی تقریبات۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
دارا شکوہ کی شادی کی تقریبات۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

دارا شکوہ کی شادی کی تقریبات۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
دارا شکوہ کی شادی کی تقریبات۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

برنیئر لکھتے ہیں: "اسی شب کو پُو پھٹنے کے قریب احمد آباد کے حاکم کا جب مذکورہ بالا پیغام آیا تو مستورات کی گریہ و زاری نے ہم سب کو رُلا دیا۔ اُس وقت ایک عجیب پریشانی اور مایُوسی چھا رہی تھی اور ہر کوئی خوف سے خاموش ایک دوسرے کا منہ تکتا تھا اور کوئی تدبیر نہ سوجھتی تھی۔

"دارا شکوہ زنانے میں سے باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ مردہ کی سی حالت تھی اور کبھی اس سے اور کبھی اُس سے کُچھ کہتا اور ایک ادنیٰ سپاہی کے پاس بھی کھڑا ہوکر پوچھتا تھا کہ ’اب کیا کرنا چاہیے؟‘ اور جب اُس نے دیکھا کہ ہر ایک کے چہرہ سے خوف کے آثار نمایاں ہیں۔ تو وہ خاموش ہو جاتا۔

"ان تین دنوں کے عرصے میں جب میں اس شہزادہ کے ہمراہ تھا، رات دن بلا توقف ہم کو کُوچ کرنا پڑا اور گرمی اس شدت کی تھی اور اس قدر گرد و غُبار اُڑتا تھا کہ دم گُھٹ جاتا تھا، اور میری جہلی کے تین عُمدہ اور قدآور گُجراتی بیلوں میں سے ایک مر چکا تھا، ایک قریب المرگ تھا، اور ایک بے انتہا تھک گیا تھا مگر چلنے پر مجبُور تھا۔ اگرچہ دارا شکوہ چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ رہوں، خصوصاً اس وجہ سے کہ اس کی ایک بیگم کی ٹانگ میں ایک بُری طرح کا زخم تھا، لیکن وہ ایسی لاچاری کی حالت کو پہنچ گیا تھا کہ دھمکانے اور منت سماجت کرنے پر بھی کسی نے اس کو میری سواری کے لیے کوئی گھوڑا یا بیل یا اونٹ نہیں دیا اور جب کوئی سواری میسر نہ آئی تو چار و ناچار میں پیچھے رہ گیا، اور چار پانچ سواروں کے ساتھ اسے جاتے دیکھ کر میں بے اختیار رو پڑا۔"

راجپوتانہ میں دارا کو کسی نے پناہ نہیں دی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے اس سخت سفر کو طے کرکے دارا مئی 1659ء میں بدین پہنچا اور وہاں سے سہون ہوتے ہوئے 6 جون جمعہ کو ’سیوی‘ ڈاڈھر پہنچا۔ جہاں نادرہ بانو بیگم کی سانس کی ڈوری نے بے وفائی کی۔ 8 جون کو اپنی بیگم کی میت خواجہ مقبول کے ذریعہ سیوی سے میاں میر سندھی کے قبرستان میں دفن کرنے کے لیے لاہور بھیج دی کہ نادرہ بانو بیگم کی یہ ہی وصیت تھی۔

جیون خان کے حوالے سے بھی دارا شکوہ نے اُس پر اعتبار کر کے دھوکہ کھایا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بولان پاس کے قریب اس نے دارا کو گرفتار کیا۔ یہ 9 جون، پیر کے دن کا ذکر ہے۔ اس گرفتاری کا پتہ جب جے سنگھ اور بہادر خان کو لگا تو لشکر بکھر میں چھوڑ کر تیزی سے سیوی کی طرف روانہ ہوئے۔

کہتے ہیں کہ وہ 21 جون 1659ء ہفتے کا دن تھا، یہ وہ تاریخ ہے جب سورج شمال کی طرف اپنا سفر مکمل کرتا ہے، برس کا سب سے بڑا دن اور سب سے چھوٹی رات ہوتی ہے، اور ساتھ میں وہ گرم ترین دن تھا۔ اُس دن جیون خان نے دارا شکوہ کو بہادر خان کے حوالہ کیا، بلکہ حوالے ایسے کیا کہ، دارا شکوہ کے ہاتھ باندھ کر ہاتھی پر چڑھا دیا اور ایک جلاد اس غرض سے پیچھے بٹھادیا کہ، اگر وہ یا اُس کا کوئی طرفدار ذرا بھی ہاتھ پاؤں ہلائے تو فوراً شہزادہ کا سر اُڑادے۔ 15 جولائی کو جب اورنگزیب کو یقین ہوگیا کہ، دارا اب اُس کی گرفت میں ہے تو اُس نے، دہلی میں سرکاری طور پر دارا کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ اس اعلان نے دہلی کے لوگوں میں ایک بے چینی کو جنم دیا۔

ملک جیون دارا شکوہ کا استقبال کرتے ہوئے۔ بعد میں ملک جیون نے دارا شکوہ کو دھوکہ دیا۔ پس منظر میں نادرہ بانو بیگم کی میت لاہور لے جائی جا رہی ہے۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
ملک جیون دارا شکوہ کا استقبال کرتے ہوئے۔ بعد میں ملک جیون نے دارا شکوہ کو دھوکہ دیا۔ پس منظر میں نادرہ بانو بیگم کی میت لاہور لے جائی جا رہی ہے۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

شاہ جہاں کی وفات، 22جنوری 1666ء— پینٹنگ پبلک ڈومین
شاہ جہاں کی وفات، 22جنوری 1666ء— پینٹنگ پبلک ڈومین

تقریباً دو ماہ کے سفر کے بعد 23 اگست کو دارا شکوہ ایک قیدی کی حیثیت سے سخت خستہ و خوار ہو کر دہلی پہنچا۔ 29 اگست کو جمعے کا دن تھا، اسی دن دارا کا سر ننگا کر کے، بازو پیچھے باندھ کر، ہاتھی پر سوار کرکے، دہلی شہر میں ذلیل و رسوا کرنے کے لیے گشت کروایا گیا۔ یہ جلوس لاہوری دروازے سے شہر میں داخل ہوا اور چاندنی چوک اور قلعے سے ہوتا ہوا، خضر آباد پہنچا، جہاں ’خواص پور محل‘ میں اس کو سخت پہرے میں قید کردیا گیا۔ یہ جلوس دیکھ کر شہر میں آہ و زاری پڑ گئی اور ساری سلطنت میں ایک محشر سا برپا ہوگیا۔

اسی شام اورنگزیب نے الگ سے دربار بُلایا اور دارا کو قتل کرنے کا حُکم جاری کیا گیا۔ دانشمند خان نے جان بخشی کے لیے گُزارش کی، مگر شائستہ خان، محمد امین خان، بہادر خان اور حکیم داؤد نے بادشاہ کی دی ہوئی رائے کو محفوظ رکھتے دارا کے قتل پر اصرار کیا۔ دارا کی چھوٹی بہن روشن آرا بیگم نے بھی تائید کرتے زور دیا کہ دارا شکوہ کو ضرور قتل کرنا چاہیے۔ دارا نے جان بخشی کے لیے جو درخواست کی تھی اُسے نامنظور کیا گیا۔

ملک جیون کو دارا کو فریب کے جال میں پھنسا کر گرفتار کرنے پر اورنگزیب کے دربار سے ایک ہزاری منصب اور ’بختیار خان‘ کا لقب ملا۔ دوسرے دن جیون خان، درباری لباس پہن کر افغانی سواروں کے ساتھ دربار جاتے ہوئے بازار سے گُزرا تو لوگوں کے گروہ نے حملہ کیا۔ لوگوں کے علاوہ بازار کے اوپر بنے گھروں سے، جوتے، پتھر اور نہ جانے اپنی نفرت دکھانے کے لیے کیا کیا پھینکا اور زبان سے کیا کیا بولا گیا۔ اس حملے میں کچھ افغانی مرے اور جیون خان سخت زخمی ہوا۔ سارے شہر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ شام کو اورنگزیب نے حکم دیا کہ دارا کو فوراً قتل کیا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اُسے قید سے چھُڑا کر لے جائیں۔

سہ پہر شکوہ اپنے باپ کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ رات کو سیف خان کی نظرداری میں نظر بیگ قید خانے میں داخل ہوا، بیٹے کو باپ سے الگ کرکے دوسرے کمرے میں بند کردیا گیا اور دارا شکوہ کا سر جسم سے الگ کر اورنگزیب عالمگیر کی تمناؤں کی خون سے آبیاری کی گئی اور سر باپ شاہجہاں کو دکھانے کے لیے بھیج دیا گیا۔ مگر نفرت کی آگ اس سے بھی نہیں بُجھی اور حکم کے مطابق، دارا شکوہ کی بے سر لاش کو ہاتھی پر باندھ کرشہر سے گُھما کر ہمایوں کے مقبرے میں بے کفن دفنا دی گئی یہاں تک کہ نماز جنازہ بھی ادا نہیں کی گئی۔

اورنگزیب کے سامنے دارا شکوہ کا سر پیش کیا جا رہا ہے۔ روشن آراء بیگم بھی موجود ہیں۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین
اورنگزیب کے سامنے دارا شکوہ کا سر پیش کیا جا رہا ہے۔ روشن آراء بیگم بھی موجود ہیں۔ — پینٹنگ پبلک ڈومین

دہلی میں مقبرہ ہمایوں کے احاطے میں دارا شکوہ کی قبر۔ بشکریہ http://bymuradalibaig.blogspot.com
دہلی میں مقبرہ ہمایوں کے احاطے میں دارا شکوہ کی قبر۔ بشکریہ http://bymuradalibaig.blogspot.com

کہتے ہیں کہ سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد سارے گلے شکوے، نفرتیں ختم ہو جاتی ہیں مگر اورنگزیب کے دل و دماغ میں ڈر اور نفرت کی جڑوں کی گہرائی بہت تھی۔ سلطان احمد جو اس کا اپنا بیٹا تھا اور دارا کے خلاف جنگ میں اپنے باپ کے ساتھ تھا، اورنگزیب نے اُسے بھی نہیں بخشا۔ پہلے قید کیا پھر زہر دلواکر مروا ڈالا۔ اپنے رشتوں کو زہر دے کر مارنا، اورنگزیب کا خاصہ رہا۔ کہتے ہیں جب دوسرے دن ہمایوں کے مقبرے میں روتے روتے اپنے بیٹے کی قبر پر فاتح کے لیے گیا تو وہاں ایک قبر پر سفید چادر پڑی ہوئی دیکھی۔ دریافت کیا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ جب پتہ لگا کہ یہ دارا کی قبر ہے، تو حُکم دیا کہ یہ چادر فوراً ہٹا دی جائے اور جو شخص وہاں فاتحہ کے لیے آئے اُسے سخت سزا دی جائے۔

ہم تاریخ کے اس مختصر سے سفر کو فی الوقت یہیں پر چھوڑتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ سیکھنے کے لیے گزرے وقت سے بڑا کوئی اُستاد نہیں، مگر لگتا ایسا ہے کہ صدیوں سے ہم یہ کہتے ہوئے ضرور آئے ہیں مگر کہنے اور عمل کرنے میں بڑا فرق ہے۔ اور جہاں سیکھنے، مثبت اور منفی کی چھان بین کرنے کا وقت نہ ہو اور فقط انا کی چھاؤں میں عقل کی پرورش ہو تو وہاں ایسا ہوتا ہے جیسے اورنگزیب کی سختیوں اور غلطیوں کے بعد محمد شاہ رنگیلا کو وقت نے تخت اور تاج سونپ دیا۔

حوالہ جات

۔ جنت السندھ از رحیمداد بروہی مولائی شیدائی

۔ مکلی نامہ از میر علی شیر قانع

۔ داستان مغلیہ از نکولاؤ منوچی

۔ برنیئر کا سفرنامہ ہند از ڈاکٹر فرانسس برنیئر

۔ تاریخِ شاہ جہاں از ڈاکٹر بنارسی پرساد سکسینہ

۔ دارا شکوہ از قاضی عبدالستار


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔