لاہور ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو آئندہ سماعت پر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 3 رکنی فل بینچ نے وفاقی وزیر احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر عدالت میں اور اس کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

وفاقی وزیر داخلہ کے وکیل اعظم نذیر نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل عدالت سے کچھ کہنا چاہتے ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تو تحریری جواب طلب کر رکھا ہے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ تحریری جواب مانگا تھا، عدالت کے حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہو رہی، آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت طلب

اس موقع پر احسن اقبال نے کہا کہ میں گزشتہ سماعت پر پیش نہیں ہو سکا اس کی معافی چاہتا ہوں، ایک شخص نے مجھ پر حملہ کیا، میری خواہش تھی کہ اللہ کے گھر جا کر شکرانہ ادا کروں۔

توہین عدالت کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ میں ایک سیاسی ورکر ہوں، میرا 30 سال کا کیرئیر ہے، جمہوریت عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں، میں نے بطور سیاسی ورکر کبھی بھی عدلیہ کی توہین نہیں کی، عدلیہ کا احترام بہت عزیز ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ میں امریکا کی یونیورسٹی سے ڈگری لے کے آیا اور پاکستان کی خدمت کی، چیف جسٹس سب کے چیف جسٹس ہیں ہمارے بھی ہیں، میرا چیف جسٹس سے متعلق بیان ایک شکوہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ میرے مخالفین نے میری کردار کشی کی کہ میں سفارش پر وائس چانسلر لگواتا ہوں، اس موقع پر احسن اقبال نے ایک حدیث بھی سنائی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کہنا تھا کہ پچھلے 10 برس میں اس ملک میں جتنی تقرریاں ہوئی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں اور اس موقع پر عدالت نے احسن اقبال سے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں ججز کے خلاف بیان بازی کی جا سکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: لیگی رہنما دانیال عزیز کو شو کاز نوٹس

جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے کی جا سکتی ہے، میں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ میں عدلیہ کا دل سے احترام کرتا ہوں۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی عزت کرنے کا کہنے اور کرنے میں فرق ہے، آپ نے اور آپ کے لیڈر نے جو کیا ہے اس کی وجہ سے قصور والا واقعہ پیش آیا۔

عدالت نے سوال کیا کہ بطور وزیر داخلہ آپ نے قصور والے واقعے پر کیا ایکشن لیا؟

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور صوبہ اسے دیکھ رہا ہے، پولیس نے ان ملزمان کو پکڑا ہو گا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بطور وزیر داخلہ یہ آپ کی انفارمیشن ہے کہ ملزمان کو پکڑا ہو گا۔

عدالت عالیہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ امریکا کی بہت بڑی یونیورسٹی سے پڑھے ہیں، کیا آپ کو آرٹیکل 19 کے بارے میں معلوم ہے، جس پر احسن اقبال نے کہا کہ میں انجئیرنگ کا طالب علم رہا ہوں، قانون مکمل طور پر نہیں جانتا۔

اس موقع پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے احسن اقبال کو تنبیہ کی کہ ’آپ اپنی ٹیون کو دھیمی رکھیں‘۔

جس پر احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ ’میرے نزدیک عدلیہ کی بہت عزت ہے، میں کبھی عدلیہ کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا‘۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو معاف کردیا

بعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت پر احسن اقبال کو تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دیا اور کیس کی سماعت 5 جون تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت سے متعلق دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وفاقی وزیر نے عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف بیان دیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ملک کے اعلیٰ اور معتبر ادارے کے ججز کے بارے میں نازیبا الفاظ توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔

درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی تھی کہ احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

یاد رہے کہ 2 مئی 2018 کو لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی سے متعلق کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

واضح رہے کہ 17 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف تقاریر کیس میں کسی کا نام لیے بغیر 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 اور 68 کے تحت عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی عائد کی تھی۔

بعد ازاں اس فیصلے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے عدالت نے اتنا اچھا حکم جاری کیا اور یہ فیصلہ بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔

نواز شریف اور دیگر کے خلاف عدلیہ مخالف تقریر کا کیس

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور دیگر رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، جس میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے حکام نے تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں 3 رکنی فل بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس عاطر محمود اور جسٹس چوہدری مسعود جہانگیر شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ: عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر عبوری پابندی عائد

عدالت نے کیس کی سماعت 5 جون تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ پی ایم ایل این کے رہنماؤں کے خلاف دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نواز شریف اور دیگر مسلسل عدلیہ مخالف تقاریر کر رہے ہیں جبکہ پیمرا عدلیہ مخالف مواد روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عدالت اس سے قبل عدلیہ مخالف مواد نشر کرنے سے روک چکی ہے اور ساتھ ہی استدعا کی گئی تھی کہ عدالت پیمرا کو عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے سے روکنے کا حکم دے۔

تبصرے (0) بند ہیں