لکھاری لاہور میں ڈان اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں.
لکھاری لاہور میں ڈان اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں.

پنجاب کے تاج کے لیے جنگ جاری ہے۔ بدھ کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج ابھی آ رہے ہیں اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے پہلے ہی صوبے کے اقتدار کا دعویٰ کردیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اعداد و شمار کے تقریباً برابر ہے مگر یہ واضح ہے کہ عمران خان وہ غلطی کرنے سے بچنا چاہتے ہیں جو پی پی پی نے 2008ء میں پنجاب میں کی تھی۔

اس وقت آصف زرداری نے پنجاب میں (ق) لیگ کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنانے کے آپشن پر غور کرنے سے انکار کردیا تھا اور بعد میں جس کی انہوں نے بھاری قیمت چکائی۔

اگر ہم پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی گہرائی تک موجودگی کو دیکھیں تو پی ٹی آئی کا ابھرنا واقعتاً ایک حیران کن بات ہے۔ مگر یہ دیکھنا اب بھی باقی ہے کہ عمران خان کا کیمپ مزید کتنی روایات کو توڑ پانے میں کامیاب ہوگا۔

3 ہفتوں کے اندر پاکستانی اس واقعے کی 30ویں سالانہ یادگار منائیں گے جس نے 11 سال طویل مارشل لاء کے بعد ملک پر جمہوریت کے دروازے کھولے۔ یہ 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت تھی جس نے اسی سال اکتوبر میں پارٹی بنیادوں پر عام انتخابات کی راہ ہموار کی۔

پڑھیے: ضیاء کی موت اور دردِ جمہوریت

پاکستان ضیاء کے بعد سے اب تک 8 عام انتخابات دیکھ چکا ہے جس میں 1988، 1990، 1993، 1997، 2002، 2008، 2013 اور 2018 شامل ہیں۔ مگر جنرل ضیاء کا بھوت اب بھی اس زمین کو کئی طرح سے ڈرائے رکھے ہوئے ہے۔ سیاستدانوں کی ایک کھیپ جس نے اپنی سیاست کا آغاز ضیاء دور میں کیا تھا، اس کا اس ملک کی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ملک میں ضیاء کے شدید مخالفین کی حکومتیں نہیں رہی ہیں۔ ضیاء کی سب سے بڑی مخالف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) مرکز میں 2 مختصر اور ایک مکمل مدت کے لیے حکومت میں رہی ہے۔ مگر پھر بھی یہ نظر آتا ہے کہ بینظیر بھٹو اور ان کے بعد آصف علی زرداری ملک کو 1977ء سے 1988ء تک کے '11 سیاہ سالوں' کے اثرات سے نجات نہیں دلاسکے ہیں۔

صوبوں میں بھی ضیاء مخالف جماعتیں اور افراد ان 3 دہائیوں میں حکومتوں میں رہے ہیں۔ سندھ پر پی پی پی کی کئی بار حکومت میں رہی ہے۔ ہم نے بلوچستان حکومتوں میں پی پی پی کی زیرِ قیادت اتحاد بھی دیکھا ہے جو ضیاء کی زندگی میں بھی ان کی پالیسیوں کے مخالف رہے اور ان کی موت کے بعد صوبے کے حکمران بننے کا موقع بھی ملا۔

خیبر پختونخوا میں بھلے ہی ولی خان اور دیگر نے 1977ء کی فوجی بغاوت کی حمایت کی تھی اور بعد میں مخالفت، مگر پھر بھی ضیاء کے بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی بننے والی حکومت کو جنرل ضیاء کے ورثے کو ایک مضبوط جواب تصور کیا جاسکتا ہے اور حالیہ سالوں میں پی ٹی آئی، جس نے خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت کی قیادت کی ہے، اسے بعد از ضیاء مظہر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کو اکثر ایسے سیاستدانوں کے اجتماع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو سب سے پہلے جنرل مشرف کے دور میں سامنے آئے تھے۔ مگر پھر بھی پی ٹی آئی کو ایسے سیاستدانوں اور پارٹیوں کے گروہ کا حصہ قرار دینے میں کچھ تامل ہوسکتا ہے جو جنرل ضیا کے کبھی بھی اتحادی نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں حکومت جماعتِ اسلامی کے ساتھ مل کر تھی جس نے کسی زمانے میں جنرل ضیاء کے اقتدار کو مضبوط کرنے اور ان کی حکومت پر پرہیزگاری کا پردہ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

مزید پڑھیے: پنجاب میں برادری کی سیاست، اور چیمہ چٹھہ تنازع

ایک طویل عرصے تک یہ مسلم لیگ (ن) تھی جو خیبر پختونخوا میں جنرل ضیاء کا پرچم لہراتی رہی، یہاں تک کہ اسے اپنی وہ نئی شناخت مل گئی جس میں اپنے ہی رہنماؤں کے ان کارناموں کا جشن منانے کی کوئی جگہ نہیں تھی جن کی وجہ سے 1980ء میں ان کے استاد نے اپنا کام دکھایا تھا۔

مگر (ن) لیگ کو ایک ڈکٹیٹر کے جانشین کے طور پر سب سے زیادہ توجہ اور پذیرائی پنجاب میں ملی۔ مگر صوبے کی سیاست نے مجموعی طور پر ایسا راستہ اختیار کیا ہے کہ یہاں ہر کسی کو اقتدار میں آنے کے لیے جنرل ضیاء کی یونیورسٹی کا گریجوئیٹ ہونا ضروری تھا، بشمول عارف نکئی، جو 96ء-1995ء میں پی پی پی کی بنائی گئی اتحادی حکومت میں مختصر مدت کے لیے وزیرِ اعلیٰ رہے اور جو پنجاب اسمبلی میں پہلی بار 1985ء میں آئے تھے۔

پی پی پی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے لیے سب سے اچھا موقع 1988ء میں ملا تھا۔ فیصل صالح حیات، فاروق لغاری اور سلمان تاثیر جیسے پی پی پی کے پکے کارکنان وزارتِ اعلیٰ کے لیے قطار میں موجود تھے مگر میاں نواز شریف نے جگہ لے لی اور جب میاں صاحب کو اسلام آباد میں وزارتِ عظمیٰ ملی تو انہوں نے وزارتِ اعلیٰ اپنے بھائی شہباز شریف کو دے دی۔

جب تک پنجاب میں پی پی پی کی بڑی پیمانے پر موجودگی رہی، تو وہ کسی نہ کسی طرح شریفوں کو ہٹانے کی کوششوں میں مصروف رہی اور جب وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئی تو اس کا وزیرِ اعلیٰ اسی ضیاء نرسری سے تعلق رکھتا تھا جس میں ابتدائی طور پر شریف بھی پنپے تھے۔ پنجاب میں پی پی پی اتحادی حکومت کی سربراہی منظور احمد وٹو نے کی جن کی پالشنگ جنرل ضیاء کی ٹیلنٹ ہنٹ اسکیم میں ہوئی تھی۔

آنے والے سالوں میں شریفوں کو اقتدار سے بے دخل ہو کر جلاوطن ہونا تھا اور ان کی جگہ ضیاء کے ایک اور ہونہار شاگرد چوہدری پرویز الٰہی نے لینی تھی۔ 2008ء میں شریف برادران، جو ضیاء کے پرانے چہیتے طلباء تھے، واپس آئے اور پی پی پی نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد بنانے کے خلاف فیصلہ کیا۔ چنانچہ پرویز الٰہی گجرات میں اپنی حویلی تک محدود ہوگئے اور چارج شہباز شریف کے پاس چلا گیا۔ ضیاء کی روایت بلا تعطل جاری رہی۔ حقیقت میں ایک طرح سے یہ مضبوط بھی ہوئی۔ پی پی پی نے پنجاب میں ضیاء کی حمایت کی موجودگی کی دوبارہ تصدیق اس وقت کی جب اسے پنجاب سے وزیرِ اعظم منتخب کرنے کے لیے مجبور کیا گیا تو اس نے یوسف رضا گیلانی کا انتخاب کیا۔

پڑھیے: پیپلز پارٹی پنجاب، ایک ڈوبتا سورج

کیا وہ نظام جو گزشتہ 3 دہائیوں میں پنجاب کے تمام حکمرانوں کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے اب خطرے میں پڑگیا ہے؟ کیا پنجاب ضیاء دور سے باہر آسکتا ہے؟ صوبہ شاید ایک نئی پارٹی یعنی پی ٹی آئی کی حکومت کے قریب ہو مگر کیا یہاں کے لوگوں کو ایک ایسا وزیرِ اعلیٰ ملے گا جو اس جنرل کے علاوہ کسی اور ہیڈ ماسٹر سے تربیت یافتہ ہو جس کے اثر سے ابھی تک پورا ملک بھی باہر نہیں آ رہا؟

ایک نہایت بے تاب شاہ محمود قریشی، ضیاء سے فائدہ پانے والے ایک اور سیاستدان ہیں جنہوں نے 1980ء کی دہائی میں اپنے ساتھی شاگردوں منظور وٹو، یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کے ساتھ سیاسی تربیت پائی، اگر وہ وزیرِ اعلیٰ بنتے ہیں تو روایت شاید جاری رہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں