پیپلز پارٹی پنجاب، ایک ڈوبتا سورج

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2014
آئیڈیولوجی سے محروم یہ جماعت اب یہ صرف اپنی پرانی شان و شوکت کی بناء پر بمشکل زندہ ہے — فائل فوٹو
آئیڈیولوجی سے محروم یہ جماعت اب یہ صرف اپنی پرانی شان و شوکت کی بناء پر بمشکل زندہ ہے — فائل فوٹو

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حال ہی میں پارٹی دوبارہ منظم کرنے اور پارٹی کارکنوں کے تحفظات دور کرنے کا اعلان سن کر میں خیالوں کی لہروں پر سفر کرتا ہوا 1985 کے اوائل میں پہنچ گیا، جب میں نے لاہور میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک (ایم آر ڈی) کا ایک مظاہرہ دیکھا تھا۔

اس دن پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں کم از کم دو لوگ ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ باغبانپورہ کے رہائشی تھے۔ یہ علاقہ دھرمپورہ، مغلپورہ، اور لاہور کے دوسرے نوکری مزدوری پیشہ علاقوں کے ساتھ مل کر لاہور کا لاڑکانہ کہلاتا تھا۔

یہ قومی اسمبلی کے حلقہ NA-59 کا حصہ تھا، جہاں سے پی پی پی کے بانی ممبر ڈاکٹر مبشر حسن انتخاب لڑتے تھے۔ ان کے جلسے میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے، جو ان کے نظریات، نیت و ارادہ، اور شفاف کردار سے متاثر تھے۔ اس طرح یہ پورا علاقہ پی پی پی کا گڑھ بن چکا تھا، اور ڈاکٹر مبشر حسن پنجاب بھر کے کسی بھی امیدوار کے مقابلے میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

وہ چوبیس گھنٹے ٹی وی چینلوں کے دن نہیں تھے۔ ان دنوں صحافی سچ عوام تک پہنچانے کے لیے ملٹری حکومت کی جانب سے عائد کردہ سینسرشپ کو چ کمہ دینے کی کوشش میں رہتے تھے۔

مارے جانے والے لڑکے اس گروپ سے تعلق رکھتے تھے، جسے کسی بھی گرفتار ہونے والے کارکن کو چھڑانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ایک گروپ نے پولیس کی فائرنگ کو اپنی جانب متوجہ کیا، تو دوسرے گروپ نے گرفتار کارکنوں کو گاڑیوں سے نکالنے سے پہلے پولیس پر حملہ کیا۔

زیادہ تر لیڈر گرفتاریوں سے بچنے کے لیے روپوش ہوچکے تھے، لیکن ہونٹوں پر جیئے بھٹو کے نعروں اور بازوؤں پر پی پی کے جھنڈے باندھے یہ نوجوان ڈکٹیٹر کو چیلنج دیتے رہے۔

ان میں سے ایک نوجوان کا جنازہ اسی رات لالٹینوں کی روشنی میں اٹھایا گیا۔ روشنی مدھم تھی، لیکن یہ دیکھنا مشکل نہیں تھا کہ جنازے میں کوئی بھی لیڈر موجود نہیں تھا، بلکہ صرف کارکنان اور رشتے دار تھے۔

ہلاک کارکن کے والد صبح کے مقابلے میں رات کو پچیس سال زیادہ ضعیف لگنے لگے تھے، لیکن وہ پھر بھی اونچے سر اور وقار کے ساتھ لوگوں سے تعزیت قبول کر رہے تھے۔

کوئی افسردگی کا عالم نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا قرض تھا، ذوالفقار علی بھٹو کو چکا دیا، کہانی ختم۔

سفید کفن کے اوپر پہنایا گیا پیپلز پارٹی کا ترنگا جسدِ خاکی کو قبر میں اتارنے سے پہلے ہٹا دیا گیا۔

عثمان غنی کو جب 1984 میں کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دی گئی، تو وہ 19 سال کا تھا۔ اس کو فوجی عدالت کی جانب سے سزا سنائی گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ جیل میں وہ چین اسموکر بن گیا تھا، اور اپنے خاندان کے ساتھ اپنی آخری ملاقات میں اس نے انہیں K2 سگریٹوں کے پیکٹ کا ایک ہار دیا تھا، اور کہا تھا کہ اپنی جان کے علاوہ وہ پارٹی کو صرف یہی دے سکے ہیں۔

21 سال کے ادریس توتی کو بھی اسی رسی سے پھانسی دی گئی۔ جرم؟ اپنی آخری سانس تک جیئے بھٹو کے نعرے لگانا۔

غنی اور توتی دونوں کا تعلق لاہور کے لاڑکانہ سے تھا۔ لیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں، اور پاکستان مسلم لیگ ن کو علاقے میں غلبہ حاصل ہے، جبکہ پی پی تیسرے یا چوتھے نمبر پر پائی جاتی ہے۔

ذیل میں مغلپورہ حلقے کے 1970 سے لے کر 2013 تک کہ نتائج دے رہا ہوں۔ بھلے ہی تب سے لے کر اب تک حلقہ بندیوں کی وجہ سے حلقے کا سائز کم ہوگیا ہے، لیکن پھر بھی میری تحقیق سے یہ واضح ہے کہ پی پی پی کا ووٹ بینک تنزلی کا شکار رہا ہے۔

مغلپورہ حلقے میں 1970 سے 2013 تک کے انتخابی نتائج (ecp.gov.pk)
مغلپورہ حلقے میں 1970 سے 2013 تک کے انتخابی نتائج (ecp.gov.pk)

اگلا ٹیبل جو پورے لاہور کے بارے میں ہے، دکھاتا ہے کہ کس طرح پی پی پی کا ووٹ بینک بڑی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ بلکہ حقیقت میں ثمینہ گھرکی کے حلقہ NA-130 کو چھوڑ کر دیکھا جائے، تو باقی حلقوں میں پارٹی کو ہر حلقے سے اوسطاً صرف 5000 ووٹ مل پائے ہیں، جو کہ کل ووٹس کا 3 فیصد ہے۔

1973 سے 2013 تک لاہور کے تمام حلقوں میں پی پی پی کی انتخابی پرفارمنس (ecp.gov.pk)
1973 سے 2013 تک لاہور کے تمام حلقوں میں پی پی پی کی انتخابی پرفارمنس (ecp.gov.pk)

1997 کے عام انتخابات جنہیں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ غیر شفاف انتخابات مانا جاتا ہے میں بھی پی پی پی لاہور کے تمام حلقوں میں دوسرے نمبر پر رہی۔ اس کے مقابلے میں 2013 کے انتخابات میں پی پی پی صرف ایک سیٹ پر دوسرا نمبر حاصل کر سکی، اور اس حلقے سے 2008 میں پی پی پی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

اسلام آباد کو ملا کر باقی کے پنجاب میں بھی پی پی پی نے بہت بری انتخابی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسلام آباد اور پنجاب میں مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 55 فیصد سیٹیں موجود ہیں۔

کچھ وقت پہلے تک بھی پی پی پی ان میں سے 60 فیصد سیٹوں میں دوسرے نمبر پر آئی، لیکن اب یہ نمبر 20 فیصد سے بھی کم ہوچکا ہے۔ باوجود اس کے کہ پنجاب بھر میں اس کے 44 ممبر قومی اسمبلی تھے، جنہوں نے اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں پر کافی اخراجات کیے تھے، تاکہ اپنے ووٹروں میں ساکھ برقرار رکھی جاسکے۔

1970 سے لے کر 2013 تک پی پی پی/ پی ڈی اے کی پنجاب اور اسلام آباد میں مجموعی انتخابی پرفارمنس (ecp.gov.pk)
1970 سے لے کر 2013 تک پی پی پی/ پی ڈی اے کی پنجاب اور اسلام آباد میں مجموعی انتخابی پرفارمنس (ecp.gov.pk)

ایک پارٹی جو اس قدر مقبول تھی، وہ اتنے کم وقت میں اس بری طرح کیوں شکست کے دہانے پر پہنچ گئی؟

مارچ 2014 کے ہیرالڈ میگزین کے سروے نے پنجاب میں پی پی پی کے ووٹ بینک کا اندازہ 5 فیصد کے لگ بھگ لگایا تھا۔

میں نے یہ سوال اس علاقے کے لوگوں سے پوچھا۔ ارشد، پی پی پی کے سابق کارکن جنہیں فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی، اور ضیاء دور میں دس سال جیل میں رہ چکے ہیں، نے بڑا دلچسپ جواب دیا۔

"ہم نے کبھی بھی پی پی پی کو دھوکا نہیں دیا۔ اس علاقے نے لاہور کے کسی بھی علاقے کے مقابلے میں زیادہ کارکنوں کو جیلوں اور قبروں میں بھیجا ہے، لیکن ہمارے ساتھ لاڑکانہ نے دھوکا کیا"۔

پی پی پی نے اپنی سوالیہ کارکردگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے کارکنوں کو وفاداریوں اور قربانیوں کا صلہ منظور وٹو کی صورت میں دیا۔

پی پی پی پنجاب اب کچھ علاقوں کو چھوڑ کر ایک ڈوبتا ہوا سورج ہے۔ آئیڈیولوجی سے محروم اب یہ صرف اپنی پرانی شان و شوکت کی بناء پر بمشکل زندہ ہے۔

پی پی پی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو ہیں، جو کسی دور میں ضیاءالحق کے حامی ہوا کرتے تھے۔ جس وقت ان نوجوانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، اس وقت ضیاءالحق نے منظور وٹو کو ذاتی طور پر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر منتخب کیا تھا۔ اس وقت میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔

اپنی موجودہ صورت حال میں پی پی پی کو چاہیے کہ وہ اپنے گڑھ یعنی دیہی سندھ کی طرف توجہ دے، وہاں گورننس اور ڈیلیوری بہتر بنائے، اور لوگوں کے مسائل حل کرے۔ شاید اگلے 12-10 سال میں وہ اس قابل ہوجائے کہ دوبارہ قومی سطح پر نمودار ہوسکے۔ کیونکہ اب اگر پی پی پی کو پنجاب میں زیادہ نقصان پہنچتا ہے، تو شاید یہ قابلِ تلافی نہ ہو۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں