• KHI: Partly Cloudy 18.6°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.7°C
  • KHI: Partly Cloudy 18.6°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.7°C

قصور وار کون؟

شائع July 19, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اگر 2 مئی سنہ 2011 کے حملے نے، جس میں اسامہ بن لادن کی موت واقع ہوئی، ہماری دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے گھمنڈ کو ریزہ ریزہ کر دیا تو ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ، ان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے-

جب میں نے اس رپورٹ کے بارے میں لکھنے کا سوچا تو مجھے ڈر تھا کہ مبالغہ آمیزی پر مبنی اس بیوروکریٹک فن پارے کے 337 صفحات میں غوطہ لگانا پڑے گا- چناچہ مجھے باترتیب، جامع اور واضح طریقہ کار کو دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا-

کمیشن اپنی محنت اور جانفشانی کے لئے تحسین کی حقدار ہے-

اس واقعہ کے چند دن بعد، میں نے امریکن کمانڈو چھاپے کے بارے میں لکھا تھا؛

"مجموعی نااہلی یا ایک بڑے جرم کی سازش کے اعتراف کے درمیان کی جگہ ذلّت اور درد سے بھری ہے"-

کتنا درد اور کتنی ذلّت؟ رپورٹ اس شرم ناک واقعے سے متعلق جامع سیاسی، انٹیلی جنس اور فوجی ناکامیوں کے ماتم سے بھری ہوئی ہے-

کمیشن کے سامنے، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل سے لے کر ایبٹ آباد کے سٹیشن آفس تک، ایک کے بعد ایک گواہ، حکومتی ناکامی کا رونا روتے رہے-

حقیقت میں، رپورٹ میں ایک ایسی اصطلاح استعمال کی گئی جس سے میں ناواقف تھا: گورننس امپلوژن سنڈروم (ان کوتاہیوں کی فہرست، جن کی وجہ سے اول تو پاکستانی ایجنسیاں تقریباً 10 سال تک بن لادن کی موجودگی کا سراغ لگانے میں ناکام رہیں اور پھر امریکی دخل اندازی روکنے میں بھی ناکام رہیں جو بلآخر اسکی زندگی کے خاتمے کا سبب بنی)-

نظام کی بدتری کے بارے میں اجتماعی شکایات کے علاوہ، دو اور موضوعات اس رپورٹ میں شامل رہے ہیں- ایک تو فوجی اور سول ایجنسیوں اور اداروں کے درمیان عدم مطابقت-

یہ خاص طور آئی ایس آئی اور پولیس کے بارے میں سچ ہے: اسامہ بن لادن کے گھر پر، آئی ایس آئی کی تفتیش کے دوران مقامی پولیس کو باہر رکنے کے لئے کہا گیا، چناچہ کوئی ایف آئی آر درج نہ ہوئی-

دوسرے، مسلح افواج اور آئی ایس آئی کے تمام گواہان، مبینہ امریکی دھوکے پر سخت کوفت کا شکار تھے- 'لیکن ہم ان کے اتحادی تھے' وہ سب جیسے ایک آواز میں فریاد کر رہے تھے- تاہم، دونوں ممالک کے درمیان جس قسم کے تیکھے تعلقات استوار ہیں، یہ سادہ لوحی تھوڑی زیادہ ہے-

کمیشن کے ارکان نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اسامہ بن لادن کا گھر، بہت سے تعمیراتی ضوابط کی خلاف ورزی کر کے بنایا گیا تھا- انہوں نے یہ بھی کہا کہ زمین کسی اور کے شناختی کارڈ پر غیر قانونی طریقہ سے خریدی گئی-

صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگوں کو نوکر شاہی کے نچلے درجوں سے ڈیل کرنے کا کوئی شوق نہیں، جہاں ہر کام پیسے کے زریعہ ہو جاتا ہے- حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی گھروں اور بلند عمارتوں کی آدھی تعداد، تعمیراتی ضوابط کو پورا نہیں کرتیں-

جیسے جیسے میں رپورٹ پڑھتا گیا، مجھے پاکستانی معاشرے کے تقریباً تمام طبقوں پر تنقید کا سامنا ہوا، 'حکومتی اشرافیہ اور نوکر پیشہ طبقے سے لے کر، فوجی-سول تعلقات تک کوئی ایسا حصّہ نہیں جو کمیشن کی تنقید کی زد میں نہ آیا ہو'-

بڑے پیمانے پر اس طریقہ کار کی، سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ جب سب قصوروار ہوں تو اس کا مطلب کوئی قصور وار نہیں ہے- جب بھی حکومت کسی سخت فیصلے کو موخر یا اس سے پہلو بچانا چاہتی ہے تو کمیشن مقرر کر دیتی ہے-

چاہے وہ ریلوے حادثہ ہو، فضائی حادثہ ہو یا خاص طور سے کوئی مکروہ دہشتگرد حملہ ہو، بس اس کے لئے بلا سوچے سمجھے کمیشن بیٹھا دیا جاتا ہے-

دیکھنے میں تو یہ لگتا ہے کہ حکومت کچھ کر رہی ہے لیکن حقیقت میں صرف مسئلے کو زمین میں دفن کیا جا رہا ہوتا ہے- عام طور پر گڑے مردے نکالنے کا کام مہینوں یا سالوں بعد شروع کیا جاتا ہے- تب تک ہم سب بات کو بھول چکےہوتے ہیں- ایسی رپورٹ کبھی کبھار ہی شائع ہوتی ہیں اور گورنمنٹ دفتروں میں پڑی گرد آلود ہوتی رہتی ہیں-

شاید ایبٹ آباد کمیشن کا بھی یہی مقدار ہوتا اگر الجزیرہ ویب سائٹ پر یہ منظر عام پر نہ آجاتی- لیکن صاف ظاہر ہے دو سال پرانے یہ زخم ابھی پوری طرح مندمل نہیں ہوے ہیں: چناچہ ویب سائٹ کو پاکستانی صارفین کے لئے فور اً بلاک کر دیا گیا-

وردی میں ملبوس تمام گواہان نے آئی ایس آئی اور مسلح افواج کی طرف سے ہونے والی ذلّت کی بات کی بلکہ، ایئر فورس نے تو اپنے بددل افسروں کو یہ دکھانے کے لئے باقاعدہ پریزنٹیشن کا انقعاد کیا کہ انکی خدمات، امریکی مداخلت کا سراغ لگانے میں ناکامی کی ذمہ دار نہیں ہیں-

اپنی شہادت میں، آئی ایس آئی ڈائریکٹر جنرل، رٹائرڈ جنرل شجاع پاشا نے، مسلح افواج اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں پر تمام ذمہ داری عائد کرنے کے خلاف احتجاج کیا جو ان کے مطابق ایک 'مجموعی ناکامی' تھی-

جب وزیر اعظم گیلانی نے پارلیمنٹ میں گونجدار آواز میں یہ پوچھا،" اسامہ بن لادن کو چھ سال کا ویزا کس نے دیا؟" اس سوال کو آئی ایس آئی اور آرمی پر تنقید کی نظر سے دیکھا گیا-

بن لادن چھاپے کے چار ماہ بعد میں، امریکا میں اپنی ایک کتاب کی تشہیر کے لئے گیا- جہاں، مجھ سے بار بار یونیورسٹیوں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ایک ہی سوال کیا گیا کہ آخر کس طرح اسامہ بن لادن تقریباً دس سال تک پاکستان میں بنا کسی سراغ کے موجود رہا- جس میں سے چھ سال وہ ایبٹ آباد میں رہا- یہ بنا کسی سرکاری چشم پوشی کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے-

میں نے وہی جواب دیا جو میں اس چھاپے کے چند دنوں کے بعد اسی جگہ پر لکھا تھا کہ میرا خیال ہے یہ ساز باز کے بجاۓ نا اہلی کا معاملہ ہے-

سب سے پہلے میں نہیں مانتا کہ 25 ملین ڈالر کے انعام اور امریکا میں شناخت اور رہائش کی تبدیلی کی ضمانت کے باوجود، ہماری انٹیلی جنس ایجنسی میں سے کسی نے بھی اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کیا ہو گا-

ایک راز پانی میں پھینکے گۓ کنکر کی طرح ہوتا ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے اس کی لہریں بڑی ہوتی جاتی ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ہر کسی کو اس کا پتا چل جاتا ہے-

دوسرے یہ کہ اگر کسی انٹیلی جنس ادارے کو بن لادن کی موجودگی کی پہلے سے معلومات ہوتیں تو وہ اس گھر پر نظر رکھتے تا کہ کوئی اجنبی وہاں داخل نہ ہو سکے-

تیسرے، بن لادن ہماری فوج کے لئے انتہائی مہلک تھا: دوسرے زیادہ اہمیت کے حامل اہداف کی طرح اسے بھی امریکا کے حوالے کر دیا جاتا اور واشنگٹن کی نیکنامی حاصل کر لی جاتی-

ہماری سرزمین پر اسکی موجودگی کا انکشاف تباہ کن ہوتا جیسا کہ ثابت ہوا-

سب سے آخر میں، وہ تمام ثبوت جو سیل کمانڈو اپنے ساتھ کاغذات اور کمپیوٹر ڈسک کی شکل میں لے گۓ تھے، اگر ان میں پاکستان اور اسامہ بن لادن کے درمیان کوئی لنک ثابت ہوتا تو بہت عرصے پہلے ہی منظر عام پر آچکا ہوتا-

مجھے خوشی ہے کہ میرا یہ نظریہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے ذریعہ صحیح ثابت ہوا، جو خود بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہے.


ترجمہ: ناہید اسرار

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Jul 20, 2013 08:49pm
دنیا کا انتہائی مطلوب آدمی ‏9 سال تک همارے هاں خاندان کے ساتھ رہائش پزیر رہا اور همارے هاں کسی کو معلوم نہیں تھا اس پر کوئی بھی یقین نہیں رکھے گا هماری اس حرکت سے پاکستان اور پاکستان قوم بے ایمان اور اعتبار بنا دیا اور اس کی وجہ سے هم اپنے اتحادیوں کو بھی دهوکه دیا اور خود اپنی قوم کو بھی 50 هزار لاشوں کا تخفۂ دیا
رضوان احمد شاہ Aug 07, 2013 09:14pm
یار عرفان حسین کیوں مزاق کرتے ہیں۔ امریکی پہلے ہی یہ پلان بنا چکے تھے کہ کب اور کہاں سے اسامہ بن لادن مرحوم کو برآمد کرنہ ہے۔ ایبث آباد کے لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ یار بس کہ رہے ہین کہ کہاں ہے اسامہ بن لادن وہ ہمارے پاس تو نہیں ہے ۔ پھر امریکی قوم کو دکھانے کے لئے ڈرامہ رچایا گیا اور اسامہ کی موم کی ڈمی لاش برامد گئی ورنہ جاننے والے پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اسامہ مر چکا اسی راز کو افشاء کرنے کی سزا بے محترمہ نظیر بھٹو کو بھگتنی پڑی۔ اب امریکی پینٹاگون نے پاکستان کی ایجنسیوں سے اپیل کی کہ پلیز ہمیں یہ ڈراما رچانے دو تاکہ ہم اپنی بے وفوف قوم کو اور بے وقوف بنا سکیں۔ اور انہیں بتا سکیں کہ تم بھی تک سپر پاور ہو اور ہم نے تمہارے سب سے بڑے دشمن کو مار دیا ہے ۔ تاکہ افعانستان کو برباد کرنے کے لئے جو ان سے بخٹ لیا تھا اس کا حساب بھی بے باک ہو جائے۔ آخر ڈرامے کا ڈراپ سین بھی تو کرنا تھا۔ اب تھنک ٹینک اور ایجنسیاں کاغزوں کا پیٹ بھرنے کے لئے جو بھی رپورٹس بنا لیں اس نے کیا فرق پڑتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025