سعودی عرب کی خواتین کا ’الٹا عبایا‘ پہن کر منفرد احتجاج

16 نومبر 2018
سعودی عرب میں خواتین کے لباس سے متعلق سخت قوانین نافذ ہیں — فائل فوٹو
سعودی عرب میں خواتین کے لباس سے متعلق سخت قوانین نافذ ہیں — فائل فوٹو

سعودی عرب کی بعض خواتین ’الٹا عبایا‘ پہن کر ملک میں عبایا پہننے کے سخت قوانین کے خلاف منفرد طریقے سے احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سعودی خواتین کی جانب سے الٹا عبایا پہن کر متعدد تصاویر پوسٹ کی گئیں، اس مہم کو ’ان سائیڈ-آؤٹ عبایا (inside-out Abaya)' کا نام دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے سعودی عرب کی خواتین کا کہنا ہے کہ عبایا پہننے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

عبایا الٹا پہن کر احتجاج کرنے کی اس مہم سے متعلق اب تک 5 ہزار ٹوئٹ کیے جاچکے ہیں، جن میں سے بیشتر سعودی عرب سے کیے گئے۔

مزید پڑھیں: سعودی خواتین عبایہ کوکیوں ترجیح دیتی ہیں؟

ٹوئٹر صارف حورا نے اس منفرد احتجاجی مہم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ عبایا الٹا پہننا شروع کریں گی تاکہ ’ان روایات اور ریاستی قوانین کے خلاف احتجاج کیا جاسکے جن کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اپنی شناخت ظاہر کرنے کی ہمت کرتے ہیں تو ہمارے لیے خطرہ ہے‘۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’ہمیں ہر وقت نقاب اور عبایا کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے، یہ کسی بھی شخص کے لیے برداشت کرنا بہت مشکل ہے‘۔

ایک اور ٹوئٹر صارف شافا نے لکھا کہ وہ عبایا الٹا پہننے کو ’انجوائے‘ کر رہی ہیں۔

ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’ایک پُرامن احتجاجی طریقے سے ہم ان تمام روایات اور قوانین کو مسترد کرتے ہیں جو ہماری موجودگی اور شناخت کو دھندلا کر رہے ہیں۔'

ایک خاتون نے کہا کہ 'ایک سعودی خاتون کے طور پر قانون کے تحت مجھے ہر جگہ سیاہ عبایا پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو میں مزید نہیں کر سکتی۔'

سعودی خواتین کیسا لباس پہن سکتی ہیں؟

خیال رہے کہ سعودی حکام نے کئی دہائیوں سے خواتین کا لباس سے متعلق سخت ضابطہ کار نافذ کر رکھا ہے۔

لباس سے متعلق اس ضابطہ کار کے تحت سلطنت میں خواتین کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت عبایا پہننا لازمی ہے، اس کے ساتھ ہی اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے لیے اسکارف پہننا بھی ضرروی ہے۔

رواں برس مارچ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا تھا کہ خواتین کے لیے مہذب لباس پہننا ضروری ہے، عبایا پہننا لازمی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی افرادی قوت میں خواتین کا 13 فیصد حصہ

سی بی ایس ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے واضح قوانین ہیں اور شرعی قوانین میں بھی خواتین کو مردوں کی طرح مہذب لباس زیب تن کرنا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’اس طریقے سے یہ لازم نہیں کہ وہ سیاہ رنگ کا عبایا یا اسکارف پہنیں، یہ فیصلہ مکمل طور پر خواتین کا ہے کہ وہ کیسا مہذب لباس پہننے کے لیے منتخب کرتی ہیں‘۔

تاہم حالیہ چند برسوں میں سعودی خواتین نے روایتی سیاہ عبایوں کے علاوہ رنگین عبایا پہننا بھی شروع کیا ہے۔

گزشتہ برس سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت سے متعلق مہم چلانے والی خواتین کو تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں