لاہور: چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے بجلی پیدا کرنے والے انڈپینڈینٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو مقررہ حد سے زائد ادائیگی کرنے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں متفرق کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ آئی پی پیز کو اربوں روپے دیے گئے جس کے باعث گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ظاہری طور پر یہ معاملہ ایک ارب 50 کروڑ روپے کا دکھائی دے دہا ہے۔

متعلقہ آئی پی پیز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کیس کو آج 6 جنوری کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا ڈیم سے متعلق بیان خوش آئند ہے، چیف جسٹس پاکستان

بعدازاں لاہور انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ سائنسز میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ لوگوں کی بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا عدلیہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تعلیم کے شعبے کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہتر تعلیمی نظام کے بغیر کوئی قوم یا معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا جبکہ تعلیم اور صحت کے شعبے کو کاروبار نہیں سمجھنا چاہیے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ’تعلیم کی کمی کی وجہ سے معاشرہ پستی کا شکار ہوجاتا ہے، میں بھی پاکستان میں شرح خواندگی میں کمی پر ہمیشہ تشویش کا اظہار کرتا رہا ہوں‘۔

یہ بھی پڑھیں: خسارے سے نمٹنے کیلئے بجلی چوروں اور نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ

تعلیمی اداروں میں اپنے دوروں کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بلوچستان میں زیادہ تر یا تو اسکول ہی موجود نہیں ہیں جبکہ جو موجود ہیں ان میں باؤنڈری وال، بیت الخلا اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات میں بھی کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسے بھی اسکول موجود ہیں جنہیں مقامی زمین داروں نے باڑوں میں تبدیل کردیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک ایماندار لیڈرشپ کی ضرورت ہے،

انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانوی حکومت کے دوران بنائے گئے قانون پر ہی پاکستان میں عمل کیا جارہا ہے جو اسلام اور مقامی روایات کے مطابق نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے موجودہ قانون کو میں مطالبات کے مطابق ترامیم پر بھی زور دیا۔


یہ خبر 09 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں