لکھاری محقق ہیں۔
لکھاری محقق ہیں۔

اگر آپ نے نسل در نسل اشرافیہ اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے جہاں آپ کے دادا پڑھے پھر آپ کے والد نے علم حاصل کیا اور کسی دن آپ کے بچے بھی پڑھنے جائیں گے، تو آپ کے ساتھ ساتھ بڑے ہونے والے افراد نامور بیوروکریٹس، صنعت کاروں، سیاستدانوں اور زمینداروں کی اولادیں ہوتے ہیں۔

ایک مہنگی نجی تعلیم آپ کے لیے معتبر یونیورسٹی کی راہ ہموار کردیتی ہے، جہاں موجود پروفیسرز آپ کو تجزیاتی مفکر بنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ گریجویٹ ہونے تک آپ ایک ایسے خودرواں شخص بن جاتے ہیں جو ہر چیز کے بارے میں اپنے زاویہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہاں آپ کی جان پہچان بااثر ہم وطنوں سے ہوجاتی ہے، جو آپ کی ایک آواز پر لبیک کہہ کر ہر میدان میں آپ کے ساتھ دینے کو تیار ہوں گے۔

آپ جیسے ہی اپنی عملی زندگی کا آغاز کریں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ ملازمت کا جھمیلا تو عام لوگوں کے لیے ہونا چاہیے آپ کے لیے نہیں۔ آپ تو اپنے والد کے کامیاب کاروبار کو وہیں سے اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں جہاں پر آپ کے والد چھوڑیں گے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر آپ کے والد کو چند لوگوں کو فون کرکے سفارش کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوگی۔ پھر آپ اپنی قابلیت اور درست سفارشات کے بل بوتے پر ایک ٹاپ کارپوریٹ کمپنی میں مڈل منیجر بن جاتے ہیں، اور یوں ایگزیکیٹو سطح کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو کم از کم ایک دہائی کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔

جب آپ 40 برس کے ہوجاتے ہیں تو آپ کے پاس اتنی دولت جمع ہوجاتی ہے کہ جس کو مد نظر رکھتے ہوئے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا بھی سوچا جاسکتا ہے اور آپ ایسے اہم لوگوں سے مراسم بھی قائم کرلیتے ہیں جو آپ کی آئندہ نسلوں کے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ جہاں آپ اپنی کئی کامیابیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں وہیں آپ سے کہیں باتوں باتوں میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے، جس پر آپ پورے فخر کے ساتھ جواب دیتے ہیں کہ، ‘مجھے سب کچھ بنا بنایا نہیں ملا۔ میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔‘

خود کو حاصل خصوصی حیثیت یا مراعت کی ایسی فراموشی کا مظاہرہ ہمیں اکثر و بیشتر اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی دوست یا رشتہ دار اپنے کریئر/زندگی کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہونی والی ذاتی خصوصی حیثیت، سماجی سطح پر حاصل برتری کو تسلیم کرنے سے ڈرتا ہے۔

مراعت پر بات کرنا یا غور و فکر کرنا بہت ہی کٹھن کام ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مراعت کا تعلق صرف طبقاتی فرق سے ہے کہ امیر کے پاس ملازم طبقے کی نسبت زیادہ مواقع اور شارٹ کٹس دستیاب ہوتے ہیں، لیکن مراعت کا طول و عرض یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ صنفی، نسلی، مذہبی شناخت، جنسی جھکاؤ اور جسمانی و ذہنی صحت کے معاملات تک بھی پھیلا ہوا ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ مراعت اور جبر کو ایک دوسرے کا متضاد تصور کرتے ہوئے جائزہ لیجیے۔ ایک شخص کو مراعتوں کی نسبت جتنا جبر سہنا پڑتا ہے اسے گننا کافی آسان ہے، کیونکہ اکثر و بیشتر ہمارا ذہن منصفانہ رویے سے زیادہ خراب رویوں کی یاد محفوظ کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ یوں جبر کی شدت کو سمجھنا کافی آسان ہوجاتا ہے، اب ان سوالوں کو ہی لیجیے کہ کیا آپ غریب ہیں؟ آپ کا رنگ کون سا ہے؟ کیا آپ خاتون ہیں؟ کیا آپ کا جنسی جھکاؤ معاشرے میں تسلیم کیا جاتا ہے؟ کیا آپ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور ہیں؟

مذکورہ تمام حالات نہ صرف لوگوں کو اپنے اپنے سماجی حلقوں سے الگ کردیتے ہیں بلکہ اس طرح ان کی شخصیت کے امتیاری پہلوؤں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جنہیں معاشرہ تسلیم نہیں کرتا۔ مگر وہ لوگ جنہیں معاشرہ تسلیم کرتا ہے بلکہ ہمارے خرچے پر بااختیار بناتا ہے، تو انہیں کس کھاتے میں لائیں گے؟ تو جناب یہ جبر کے متضاد مراعت کے کھاتے میں آتے ہیں۔

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے چند کے پاس مختلف وجوہات کے باعث دیگر کے مقابلے میں نمایاں برتریاں حاصل ہیں، لیکن ان وجوہات میں ہمارا عمل دخل نہیں ہوتا، مثلاً، ہم کون ہیں، ہماری جلد کا رنگ کیا ہے، ہم کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، جب ہم بڑے ہو رہے تھے تب ہمارے پاس کس قسم کی مالی اور اخلاقی حیثیت حاصل تھی، ہم کس مذہب کی پیروی کرتے ہیں، یا چند مخصوص وہ معاملات جن کی وجہ سے ہماری زندگیاں بہتری کی جانب مائل ہوئیں، ان چھوٹے چھوٹے امتیازی فرق پر لوگوں کی نظر ہی نہیں جاتی۔

گزرتے وقت کے ساتھ دیگر کے مقابلے میں حاصل امتیازی فرق زندگی میں مددگار ثابت ہوتا رہتا ہے اور پھر ایک نکتہ آتا ہے کہ جب یہی لوگ، جو عام طور پر مراعت یافتہ حلقے میں آتے ہیں، محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں کہ وہ تو ہمیشہ سے ہی کامیابی کے مستحق تھے اور انہوں نے سب کچھ اپنے بل بوتے پر حاصل کیا ہے، دوسری طرف ہم سب ان کی بات تسلیم کرنا شروع کردیتے ہیں اور معاشرے میں اپنی جگہ پر آرام سے جا بیٹھتے ہیں۔

ہم میں سے چند لوگ اس خیال سے اختلاف کرسکتے ہیں یا پھر ناراض ہوسکتے ہیں، خاص طور پر جب سخت محنت کو خاطر میں نہ لایا جائے، یہ قابل فہم بات ہے۔

لیکن اس مراعت کو حقیقی معنی میں جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ہمیں اسے ایک منظم ڈھانچے کے طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے جو کسی فرد کو محض اس کی شناخت کی بنیاد پر مفت میں برتری بخش دیتا ہے، جیسے دکھائی نہ دینے والے خصوصی حقوق کا پیکج حاصل ہو جو جب چاہے آپ اپنی مرضی سے استعمال کریں اور انکار سے اس ڈھانچے کو تقویت بخشتا ہے۔ ویسے بھی کون یہ تسلیم کرنا چاہے گا کہ انہیں پہنے ہوئے جوتے دراصل ان کے باپ کی کمائی سے خریدے گئے ہیں جو کامیابی کا سفر جلدی طے کرنے میں ان کے لیے مددگار ثابت ہوئے؟

اگر آپ کسی طرح یہ تسلیم کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ زندگی کی ریس کے اندر ’آپ کہاں پیدا ہوئے‘ یا ’آپ کیسے دکھتے ہیں‘ جیسی پیدائشی امتیازی حیثیت نے مدد کی جس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، تو پھر آپ کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔

آپ اپنی کامیابی کے پیچھے وجوہات کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ خود کو حاصل مراعت کو تسلیم کرلینے سے آپ اپنے اندر موجود متکبر خیال کو ختم کرنے لگتے ہیں کہ آپ کے عروج کے پیچھے صرف آپ ہی ہاتھ ہے۔ چند لوگوں کے لیے اس خیال کو ہضم کرنا بہت ہی دشوار ثابت ہوسکتا ہے۔


یہ مضمون 3 فروری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


تبصرے (0) بند ہیں