’دریائے سندھ سے کراچی، حیدر آباد کو انتہائی مضر صحت پانی فراہم ہورہا ہے‘

05 اپريل 2019
واسا نے صارفین کو پانی ابال کر پینے کا مشورہ دے دیا — فوٹو: ڈان نیوز
واسا نے صارفین کو پانی ابال کر پینے کا مشورہ دے دیا — فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کی جانب سے پانی کے معیار اور اس کی جانچ پڑتال کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر احسن صدیقی نے کہا ہے کہ دریائے سندھ میں مضر صحت پانی آرہا ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مضر صحت پانی کا سبب صرف منچھر جھیل کا پانی نہیں ہے بلکہ اس میں شامل ہونے والا فیکٹریوں کا فضلہ بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ منچھر جھیل سے پانی دریائے سندھ میں اڑل نہر کے ذریعے چھوڑا جاتا ہے اور اس کے 5 کلو میٹر کے بعد جب پانی دریا کے پانی میں شامل ہوجاتا ہے تو اس کا معیار چیک کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: سال 2018: پانی کے مسائل، اقدامات اور قوم کا مستقبل

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز اس پانی کو چیک کیا گیا تو اس کا ٹوٹل ڈیزولوڈ سولڈ (ٹی ڈی ایس) صرف 385 تھا یہ عالمی اداروں کے معیار کے مطابق کوئی تشویش ناک نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مٹیاری سے ایک شوگر ملز کا بدبو دار اور گندا کیمیکل ملا پانی چندن نہر کے زریعے دریا میں چھوڑا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جام شورو میں قائم فارماسیوٹیکل فیکٹری کا فضلہ بھی اس میں شامل ہورہا ہے جس کی وجہ سے دریا کے پانی کی صورتحال خراب ہوئی ہے اور اس حوالے سے حیدرآباد کے کمشنر کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی حیدر آباد نے پانی کی آلودگی اور مضر صحت ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے صارفین کو مشورہ دیا ہے کہ پانی کو لازمی ابال کر استعمال کریں تاکہ کسی بھی ممکنہ بیماری سے بچا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: 10 شہروں کے گٹر کے پانی میں پولیو وائرس کی تصدیق

واسا کے ترجمان کے مطابق دریائے سندھ سے لیا گیا پانی فلٹر پلانٹس کے ذریعے ہر قسم کی مضر صھت جراثیم اور آلودگی سے پاک کر کے صارفین کو فراہم کیا جارہا ہے تاہم بعض وجوہات کی بنا پر پانی میں مضر صحت اجزاء شامل ہوجاتے ہیں۔

دریائے سندھ سے حیدرآباد، جام شورو کے شہریوں سمیت ضلع ٹنڈو محمد خان، بدین، سجاول اور ٹھٹھہ کے علاوہ کراچی کو بھی انتہائی مضر پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ ماضی قریب میں حیدرآباد دریائے سندھ کے ٹیل کے علاقوں میں اس طرح کا پانی استعمال کرنے سے سینکڑوں اموات ہوچکی ہیں۔

اس حوالہ سے حکومتِ سندھ نے کوئی الرٹ جاری نہیں کیا ہے ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں